پیٹھ میں چھرا کون گھونپ رہا ہے

زندگی کی قدریں اور روایات کس طرح تبدیل ہورہی ہیں۔ ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہے۔ ٹیلی ویژن کے رنگین اسکرین پر زندہ انسان کو پھٹتے ہوئے دیکھنا، انسانوں کے بکھرتے ہوئے اجسام اور بھڑکتے ہوئے آگ کے شعلے ہماری نوجوان نسل پر کیا اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ہمیں اس بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ کراچی پر پے در پے قیامتیں گزر رہی ہیں۔ اور ہم اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں۔ دھماکوں کے بعد پہلا اعلان تو یہ ہوتا ہے کہ مرنے والوں کے لواحقین کو ۲ لاکھ اور زخمیوں کو ۰۵ ہزار معاوضہ دیا جائے گا۔ ہم نے انسانی جانوں کو روپوں اور پیسوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اس آگے ہماری نظر ہی نہیں جاتی۔ ٹیلی ویژن کا اسکرین چند لمحے ماحول کو اداس رکھتا ہے اور پھر آپ کو گانے، ناچ، اور دوسری رنگ رلیوں میں مصروف کردیتا ہے۔ طرح طرح کی معرکہ آراء باتیں قصے کہانیوں میں ڈھل کر آپ کو کوئی فیصلہ کرنے کا موقع ہی نہیں دیتی۔

سنتے آئے ہیں، مگر یہ ہوشربا مناظر اب آپ کو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہ اکیسویں صدی کا ایک طلسم کدہ ہے۔ ایک طرف اگر دنیا جہاں کی معلومات گھر بیٹھے ملتی ہیں تو دوسری طرف اس کے تفریحی پروگرام کسی طرح بھی طلسم ہوش ربا سے کم نہیں۔ خاص طور پر مختلف چینلز کے کبھی نہ ختم ہونے والے طلسمی جال نے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کو جکڑ رکھا ہے۔ گھریلو خواتین کیلئے ان کی اہمیت ایک وقت کا کھانا تیار کرنے کے مترادف ہے۔ ان ڈراموں کے موضوعات زیادہ تر گھریلو مسائل، رشتوں کے اقدار، محبت و نفرت کی جنگ اور خواہشوں کے نت نئے انداز کے اردگرد گھومتے ہیں۔ ان کہانیوں میں روایتی ہیرو، ہیروئن کے انجام سے ہٹ کر ایک نئی روش اختیار کر گئی ہے کہ ڈرامہ کی کہانی تمام کرداروں کا باری باری طواف کرتی ہیں اور اس طرح سے ایک لامتناہی سلسلہ سالہا سال سے چلتا آ رہا ہے۔ روز مرہ کے عام موضوعات سے لے کر کٹھن مراحل زندگی کو سلجھانے کی کوشش اور نت نئے موضوعات کی دلفریبی نے ناظرین کو الجھا کر رکھ دیا ہے اور اس طرح اس طلسم ہوش ربا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

پروگرام بچوں کے ہوں یا بڑوں کے زمانے کی رنگینی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ آزادی و لذت کے وہ سارے سامان میسر ہیں جو ہر آج کو رنگین بنا رہے ہیں اور ہر کل سے بے خوف کر رہے ہیں۔ اگر اس سراب نظر سے توجہ ہٹائی جائے تو کچھ اہم باتیں توجہ طلب ہیں جہاں یہ ڈرامے اعلیٰ تفریح اور سبق آموز کہانیوں کا مسکن سمجھے جاتے ہیں وہیں نئی تہذیب اور کلچر کو بھی جنم دے رہے ہیں۔ ہم جس بھی رنگ میں رنگے جا رہے ہیں اس کا تو اب احساس بھی ختم ہوتا جا رہا ہے روزمرہ معاملات اب اس تربیت کے باعث ہمیں مختلف دکھائی دیتے ہیں ہمارے رسم و رواج کے اندر جو کچھ ملاوٹ ہو چکی ہے شاید اس کا خمیازہ آئندہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ اس نئے دور کی نئی تہذیب کے جو ثمرات ہمیں مل رہے ہیں اس کا کریڈٹ اس ذہن کو دینا چاہیے جس نے کامیابی کے ساتھ اپنا رنگ ہمارے اوپر رنگ دیا ہے اور ہمیں پتا بھی نہیں چلنے دیا۔ امید یہ ہے کہ ہم ، جو کہ اس دلدل میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور بچنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، اگلے مرحلے پہ اپنا وجود کھو چکے ہوں گے۔ جہاں ہمارے پاس دوسروں کی برائیاں کرنے کیلئے بہت وقت ہے وہاں ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کی جرات نہیں کرتے۔ اپنے آپ کو احساس دلانے کا وقت بھی نہیں یہ سلسلہ اگر یونہی چلتا رہا تو نامعلوم کتنی نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا آج اگر ہم کم از کم اتنی ہمت کر لیں کہ اپنی آنکھوں کی پٹی اتار کر غیر جانبدار ہو کر اپنے ارد گرد بدلتے ہوئے زندگی کے رنگوں کو اپنی ”ذاتی“ آنکھوں سے دیکھ کر فیصلہ کریں کہ آیا ہم سب کچھ صحیح کر رہے ہیں یا کچھ غلط بھی ہو رہا ہے؟ آیا ہم اتنے لاپرواہ ہیں اور کیا ہمارے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں؟ ہم کب تک معاملات سے پہلو تہی کرتے رہیں گے۔ آج ہماری قوم کے نوجوان بچے جس رنگ کو اپنا رہے ہیں کیا وہ ہمارا اپنا رنگ ہے؟ کیا ہمارا یہی ورثہ ہے کہ اگر ایک طرف ہم امپورٹڈ اشیائے صرف پسند کرتے ہیں تو کیا دوسری طرف امپورٹڈ لائف اسٹائل کو بھی اپنا لیں جو چاہے ہماری تہذیب کی کمر میں چھرا ہی گھونپ رہا ہو؟
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 394116 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More