عوام کا خون پینے والے درندے

ایک تجارتی یا صنعتی شعبے کی کمپنیوں کا اتحاد ”کارٹل“ کہلاتا ہے۔ اس اتحاد کے ذریعے کمپنیاں پیداوار اور قیمت اور مارکیٹنگ کے سلسلے میں رہنما خطوط متعین کر لیتی ہیں۔ ان خطوط کی بنیاد پر پھر تعین قیمت پرائس فکسنگ کل پیداوار اور مارکیٹ میں حصہ علاقوں کی تقسیم ٹینڈر کی بولیوں سیلز ایجنسیوں کے قیام اور منافع کی تقسیم جیسے معاملات باہمی طور پر طے کیے جاتے ہیں۔ کارٹل بنانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مارکیٹ میں مسابقت یا مقابلہ ختم کر کے کمپنیوں کا منافع بڑھا لیا جائے۔ چونکہ یہ عمل صارفین کیلئے نقصان دہ ہے لہٰذا مسابقی کمپیٹیشن قانون کی رو سے غیر قانونی قرار پایا۔ دنیا بھر میں مسابقتی کمپنیوں اور اداروں کا اصل کام یہی ہے کہ وہ کارٹل دریافت کرکے انہیں ختم کرنے کے سعی کریں۔ تاہم یہ کام انتہائی مشکل ہے۔ وجہ یہی ہے کہ کمپنیاں انتہائی رازداری اور خفیہ طریقے سے کارٹل بناتی ہیں۔ ان کے مابین تقریباً تمام معاہدے منہ زبانی ہوتے ہیں کسی قسم کی تحریر معرض وجود میں نہیں آتی۔ ورنہ یہ ناقابل تردید ثبوت ان کا جرم فشا کر دیتا ہے۔

کارٹلوں کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے۔ مؤرخین کی رو سے دنیا کا پہلا کارٹل 50 قبل مسیح میں روم میں اناج کے تاجروں نے بنایا تھا۔ اسی لیے بعد ازاں رومی حکومت نے مختلف مسابقتی قوانین شروع کیے تاکہ کسی بھی شعبے میں تاجر صنعتکار اجارہ داری مونوپلی قائم نہ کر سکیں۔ اجارہ داری بھی کارٹل کی قریبی رشتے دار ہے۔ کارٹل کی اصطلاح پہلی بار جرمن تاجروں کے اتحادوں کیلئے 1880ء میں استعمال کی گئی۔ اگلے پچاس برس میں انگریزوں کی دنیا میں بھی مقبول ہوئی۔ کارٹلوں کو معمولی شے مت سمجھیے۔ یہ عوام اور حکومت دونوں کو معاشی طور پر نقصان پہنچاتے ہیں ان کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ عام اشیاء کی قیمتیں مصنوعی طور پر بہت بڑھا دیتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 25 فیصد تک گویا فرض کیجئے چائے کا ایک ڈبہ سو روپے کا ہے تو کارٹل بننے کی صورت میں اس کی قیمت 125 روپے یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے امریکہ میں مسابقتی قوانین بننے سے قبل یہ حیال تھا کہ بعض بڑے کارٹلوں نے اپنی اشیاءکی قیمتیں 60 تا 70 فیصد تک بڑھا دیں۔ گویا اس وقت سو روپے والا چائے کا ڈبہ 160 تا 170 روپے میں دستیاب تھا۔ دنیا بھر میں ماہرین معاشیات اور حکومتوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کارٹل عوام کی فلاح و بہبود خطرے میں ڈالتے، قومی معیشت کمزور کرتے اور دولت صارفین کی جببوں سے نکال کر مالکان کی تجوریوں میں ملے آتے ہیں۔ جس میں ملک میں مقابلے کی فضا سے بچنے کیلئے کارٹل بننے لگے۔ وہاں صنعت و تجارت کی بنیادیں مصنوعی غیر معاشی اور ناپائیدار اینٹوں پر استوار ہوتی ہے۔ پیداوار کم رہتی ہے سائنس و ٹیکنالوجی ترجیحی نہیں کرتی اور اشیائے ضروری کی قیمتیں مسلسل بلند رہتی ہیں۔ مزید براں ملک میں مقابلے کا ماحول نہ ہونے پر اشیاء کا معیار کمتر رہتا ہے اور صنعت و تجارت میں ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا نہیں ہوتے۔ کارٹلوں کی تباہ کاریاں ترقی پذیر ممالک میں نمایاں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہاں قانون کے نفاذ پر زیادہ زور نہیں اور بیورو کریسی و حکومت میں رشوت کا چلن ہے۔ لہٰذا کارٹل متعلقہ افسروں کی مٹھی گرم کر کے اپنا مطلب پورا کر لیتے ہیں ان ممالک میں سیمنٹ، ادویہ، تیل، گیس، اسٹیل، چینی، اناج وغیرہ کے کارٹل عام ہیں۔ ان کارٹلوں کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ چھوٹے کاروباریوں کو پنپنے نہیں دیتے۔ وہ ایسے غیر قانونی مالی و معاشی طریقے اپناتے ہیں کہ چھوٹے صنعت کاروں کو کم سے کم منافع ہو اور وہ اپنا کاروبار ختم کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ اوپر سے مسئلہ یہ ہے کہ کارٹلوں کے خلاف قانونی اور عملی جنگ لڑنا پہاڑوں میں نہر کھودنے کے مترادف ہے۔ چونکہ وہ کوئی کاغذی کارروائی نہیں کرتے لہٰذا ان کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنا بڑا کٹھن مرحلہ ہے دوسرے مسابقتی کمیشن کو زیادہ سے زیادہ طاقت درکار ہوتی ہے۔ اور ہنر مند اہل کار بھی تاکہ وہ ثبوت جمع کر کے ملزموں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر سکیں۔

واضح رہے کہ کارٹلوں کی چھان بین کیلئے خصوصی مہارت درکار ہے جو تفتیش کے روایتی طریقوں سے مختلف ہے۔ چونکہ کارٹلوں کے نقصان دہ اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے گئے۔ لہٰذا ان کا قلع قمع کرنے کی خاطر کئی حکومتوں نے ”نرمی منصوبہ“ متعارف کرادیا۔ اس منصوبے کے تحت کارٹل میں شریک ایک ملزم یعنی کمپنی کا مالک وعدہ معاف گواہ بن کر سارے منصوبے کی تفصیل افشا کر دیتا ہے۔ یوں اسے پھر جرمانے کی سزا سے مبرا رکھا جاتا ہے۔ کئی ممالک میں نرمی منصوبے کے ذریعے اہم کارٹل دریافت کئے گئے اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا گیا۔ ترقی یافتہ ممالک میں کیونکہ قانون کا نفاذ یقینی ہے لہٰذا وہاں کارٹل بنانے والوں کو بھی شدید سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا وغیرہ میں مجرم کو 10 سال قید اور ایک کروڑ ڈالر جرمانے کی قید مل سکتی ہے۔ سخت سزاؤں کے باعث ہی ترقی یافتہ ممالک میں کارٹل بنانے کا رواج نہیں رہا۔ وہاں کی حکومتیں بھی صارفین کے حقوق کا تحفظ شد و مد سے کرتی ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ایک شعبے میں جتنی کم کمپنیاں ہوں، اس میں کارٹل بننا آسان ہے وجہ یہ ہے کہ یوں کارٹل کے ارکان با آسانی ایک دوسرے کی سرگرمیاں نوٹ کر سکتے ہیں۔ یوں کسی ایک رکن کو موقع نہیں ملتا کہ وہ آزادانہ طور پر کاروبار کر سکے۔ اس کے برعکس جتنی زیادہ کمپنیاں ہوں گی یہ امکان بڑھ جائے گا کہ کارٹل کا کوئی رکن معاہدے کی خلاف ورزی کر ڈالے۔ اس کا جارحانہ کاروباری رویہ پھر کارٹل کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ اسی لیے کارٹل بنتے ختم ہوتے اور پھر تشکیل پاتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ کارٹل روکنے کیلئے رومیوں نے سب سے پہلے قانون سازی کی تھی جب دنیا کے بیشتر علاقوں میں مسلمانوں کی حکومت تھی تو بھی اسلامی قوانین کی روشنی میں تاجروں و پیدا کاروں کا ناجائز اتحاد اور اجارہ داری روکنے کی سعی جاری رہی۔

مغرب میں جب صنعتی دور شروع ہوا تو کارٹلوں کے خلاف قانون سازی بھی بڑھ گئی۔ دنیا کا پہلا باقاعدہ مسابقتی قانون شرمن ایکٹ ہے جو 1890ء میں امریکی کانگریس نے منظور کیا۔ امریکہ میں مسابقتی قانون ”اینٹی ٹرسٹ قانون“ کہلاتا ہے۔ بیسویں صدی میں امریکی قوانین کی بنیاد پر کئی ممالک نے اپنے مسابقتی قانون بنا لیے۔ اس وقت امریکہ کا اینٹی ٹرسٹ لاء اور یورپی ممالک کارپوریشن کمیشن لاء دنیا میں سب سے زیادہ با اثر اور سخت مسابقتی قانون موجود ہیں۔ مسابقتی قانون سے متعلق ادارہ ان معاہدوں کی بیخ کنی کرتا ہے جو کاروبار میں مقابلے کی فضا اور آزاد تجارت ختم کرتے ہیں گویا کارٹلوں کے خلاف عمل کرتا ہے نیز مارکیٹ میں کمپنیوں کی اجارہ داری روکتا اور ان کے جارحانہ یا غیر قانونی رویوں پر نظر رکھتا ہے۔ مزید براں بڑی کمپنیوں کا آپس میں ادغام ہو یا وہ کوئی مشترکہ کاروبار کریں تو انکی نگرانی کرتا ہے۔ مسابقتی قانون کے دو اہم کام یہ ہے۔

صارفین کے مفادات محفوظ کرنا اور٭ یہ خیال رکھنا کہ ہر چھوٹے بڑے تاجر صنعت کار کو مارکیٹ تک رسائی حاصل رہے اور مقابلے کا صحت مند ماحول جنم لے۔ دنیا کا پہلا بڑا اور نمایاں کارٹل فوبس تھا۔ اسے اوسرم فلپس جنرل الیکٹرک اور بلب بنانے والی دیگر کمپنیوں نے تشکیل دیا۔ مقصد یہ تھا کہ بلبوں کی پیداوار اور فروخت کو کنٹرول کیا جا سکے۔ یہ کارٹل دسمبر 1924ءسے 1939ءتک سرگرم عمل رہا۔ اس سے وابستہ کمپنیوں نے باہمی معاہدوں کے ذریعے اخراجات کم رکھے، دوسری طرف بلب کی زیادہ سے زیادہ عمر ایک ہزار گھنٹے رکھی تاکہ ان کی فروخت زیادہ ہو۔ نیزوہ مقابلے کا خوف کھائے بغیر قیمت بڑھاتے چلے گئے ان بلبوں کا غیر معیاری ہونا بھی کارٹل کا ایک منفی پہلو تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے آغاز نے اس کارٹل کا خاتمہ کر دیا۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 90566 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.