30مارچ کو ایوان اقبال میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سکولز
ریفارمز روڈمیپ کے نئے مرحلے ’’پڑھو پنجاب، بڑھو پنجاب‘‘ کا آغازایک پروقار
تقریب میں کیا۔اس پروگرام میں 2018 تک صوبہ پنجاب کے ہر بچے و بچی کے سکول
داخلے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ۔ نئے مرحلے کے تحت سکولوں میں زیرتعلیم طلبا
و طالبات کو امتحانی سوالات کے 85 فیصد درست جوابات دینا ہوں گے جس سے
معیاری تعلیم کے فروغ میں مدد ملے گی اور طلبا و طالبات کی صلاحیتوں میں بے
پناہ اضافہ ہوگا۔ شہباز شریف نے نہ صرف خود بلکہ حکومت پنجاب کے وزراء، چیف
سیکرٹری، سیکرٹریز، مختلف محکموں کے سربراہان، کمشنرز، ڈی سی اوز ، ڈی پی
اوزکو ایک ایک جب کہ ، ای ڈی اوز، ڈی ای اوز، ڈپٹی ڈی ای اوزاور اے ای اوز
کو دو دو سکول اپنانے( Adopt) کو کہا۔وزیراعلیٰ نے لاہور کے دیہی علاقے میں
ایک سکول Adopt کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سکول کے معاملات کی
نہ صرف نگرانی کریں گے بلکہ گاہے بگاہے سکول کا دورہ بھی کریں گے۔
وزیراعلیٰ پنجاب تعلیمی میدان میں پچھلے دورحکومت میں بھی کافی سرگرم رہے ۔
ان سے پہلے پرویز الٰہی کے دور میں بھی تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی۔ ہمارے
نبی مکرم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا۔تعلیم کسی بھی قوم کی
ترقی کا واحد راستہ ہے اور ملک کی ترقی میں تعلیم کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔
ایوان اقبال لاہورمیں ’’پڑھو پنجاب،بڑھو پنجاب‘‘ کی افتتاحی تقریب میں
کروڑوں روپے خرچ کیے گئے ۔جو تقریب غریب عوام کے مفاد کے لیے منعقد کی
جارہی تھی اس تقریب میں غریبوں کی نمائندگی کے لیے قومی و صوبائی وزراء،
ارکان قومی و صوبائی اسمبلی، ڈیفڈ کے خصوصی نمائندے سر مائیکل باربر، ڈونرز
اداروں کے نمائندے، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، تعلیمی اداروں کے
سربراہان، دانشوروں، کالم نگاروں، ماہرین تعلیم، اساتذہ، والدین اور طلبا و
طالبات کی بڑی تعداد کو مدعو کیا گیا تھا۔ یقینااس تقریب میں صوبے کے دور و
قریب سے تشریف لانے والے تمام اعلیٰ افسران بھی اس بھوکی ننگی قوم کے بجٹ
کے خرچے پر تشریف لائے ہوں گے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کے خادم اعلیٰ
نے کہا کہ’’ آج تعلیمی شعبے میں انقلاب برپا کرنے کے حوالے سے ایک اہم اور
غیر معمولی دن ہے ۔ آج ہمیں اس بات کا عزم کرنا ہے کہ 2018کے تعلیمی اہداف
کے حصول کیلئے محنت، دیانت اور لگن کے ساتھ کام کریں گے۔
خادم اعلیٰ تشریف تو عام سکولوں کی تقریب میں شرکت کے لیے لائے لیکن تعریف
دانش سکولوں کی کرتے رہے۔ انہوں نے کہا تعلیمی اداروں اور مدارس کے نصاب
میں بردباری، برداشت، محبت اور اخوت کے جذبات پر مبنی اضافی مضامین شامل
کئے جا رہے ہیں جو یقینا انتہاپسندی کے رجحانات کے خاتمے میں معاون ثابت
ہوں گے۔ آج انتہاپسندی، قومی وسائل کو لوٹنے والوں کے ہاتھ روکنے ، تعلیم
کو عام کرنے میں رکاوٹ ڈالنے والوں اور امیر اور غریب کے درمیان خلیج ختم
کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کے خلاف جہاد کرنے کی ضرورت ہے۔
میاں صاحب آپ کے جذبات بہت نیک ہیں لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کہیں قائد اعظم
کی طرح آپ کی جیب میں بھی کھوٹے سکے تو نہیں؟ کیا آپ کی بیوروکریسی اور
افسر شاہی اساتذہ کو ان کے جائز حقوق ہی وقت پر دیتی ہے؟ کیا ٹرانسفر اور
ریشنالائزیشن کا عمل شفاف ہوتا ہے؟ کیا تمام تعلیمی اداروں کو سہولیات
فراہم کی گئی ہیں؟ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ سینکڑوں طلبا کے
لیے اداروں میں صرف ایک استاد جب کہ چند طلبا کے لیے دو دو اور تین تین
استاد۔ ستم بالائے ستم محکمہ تعلیم کے تمام افسران ان اداروں کو وزٹ کرتے
ہیں لیکن۔۔۔۔ منہ کھائے اور آنکھ شرمائے۔ اس لیے سب چلتا ہے۔
مغرب جس سے ہم شدید نفرت کا اظہار کرتے ہیں وہاں سب سے زیادہ عزت استاد کو
دی جاتی ہے لیکن ہمارا معاملہ یکسر مختلف ہے ۔ ہم استادوں کی تذلیل کرتے
ہیں۔ پولیو کے قطرے ، مردم شماری ، ووٹ بنانا غرض کون سا کام اس پرائمری
استاد نے نہیں کرنا جس نے ملک و قوم کی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لیے پرائمری
لیول کی نوخیز کلیوں کا تناور درخت بنانا تھا۔
ستم بالاے ستم ہم آج تک اپنے بارے میں یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکے کہ ہمارا
میڈیم کون سا ہے؟ آئے روز نت نئے تجربات کی بھینٹ میری نسل چڑھتی ہے۔ کبھی
انگلش میڈیم کبھی اردو میڈیم۔ درسی کتب کا مواد اور اساتذہ کو مہیا کی گئی
ٹیچر گائید کا آپس میں کوئی لنک نہیں۔ بچوں کو استاد کتاب پڑھائے اور ڈی
ایس ڈی کے ناخدا سوالیہ پرچہ کہیں اور سے دیں۔ آئے روز تبدیل ہوتے نصاب نے
طالب علموں کو نکما بنادیا ہے۔ کتب کی پبلشنگ کا یہ حال ہے کہ نئی کلاسز
شروع ہوجاتی ہیں مگر مارکیٹ میں وہ کتب میسرنہیں ہوتیں۔ ان سب کوتاہیوں کا
ذمہ دار کون ہیں؟
میاں صاحب آپ توتعلیمی پروگرام دیکر فارغ ہوجاتے ہیں مگران پروگرام کو
چلانے والے اپنی من مانیاں کرتے ہیں۔ ابھی 31مارچ کو پنجم اور ہشتم کارزلٹ
آؤٹ ہونا تھا مگر پنجاب ایگزامینیشن ایجوکیشن کی نااہلی کی وجہ سے یہ رزلٹ
دن کی بجائے رات کو ڈکلئیر کیا گیا۔ اس سے پہلے اسی ایگزامینیشن کمیشن نے
جس اہلیت کا مظاہرہ امتحان کے انعقاد میں کیا اس کا آپ کو ہم سے زیادہ
اندازہ ہے۔
اگر محکمہ تعلیم کی کارکردگی پر لکھنے بیٹھوں توکئی کتب مرتب ہو سکتی ہیں ۔گورنمنٹ
سکولوں کے لیے حکومت پنجاب ہر سہولت مہیا کررہی ہے مگر دیہاتوں میں گورنمنٹ
سکول آج بھی ویران پڑے ہیں۔
خادم اعلیٰ صاحب میں نے اس پہلے بھی کئی کالموں میں ملتان روڈ پر واقع ضلع
قصور کے سب سے بڑے گاؤں جمبر کا ذکر کیا کہ وہاں پر لڑکیوں کے لیے صرف مڈل
سکول ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ یہ اکیلا گاؤں دو یونین کونسل بنایا گیا جس سے
آپ یہاں کی آبادی اور ووٹ کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس گاؤں کی بچیاں دربدر ٹھوکریں کھاتی پھریں۔ پرائیویٹ
سکولوں کی فیس برداشت نہ کرنے کی وجہ سے بچیوں کو گھروں میں بٹھا لیں۔ یا
پھر گھنٹوں سڑکوں پر بس کے انتظارمیں کھڑی رہیں۔ جمبرمیں بوائز اور
گرلزہائیرسیکنڈری سکول کی منظوری پرویز الٰہی دور میں ہو چکی تھی اور کئی
بار سروے ہونے کے باوجودابھی تک سکول کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا۔میاں
صاحب آپ نے جب تعلیم کا علم اٹھا یا ہے تو پھر شہروں سے زیادہ دیہاتوں پر
توجہ مرکوز کریں۔ورنہ بہت جلد قیامت کے روز ان بچوں کا ہاتھ ہو گا اور
گریبان آپ کا ہو گا۔
ہمیں حکومت پنجاب کی نیت پر کوئی شک نہیں وہ تعلیم کو گھر گھر پہنچانا
چاہتی ہے مگر اس کے لیے نیچے والے عملے کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا
ہوگا۔ میاں صاحب استاد کے گرد سینکڑوں محکمے کے مانیٹر بھیجنے کی بجائے
جتنے لوگ اور محکمے مانیٹرنگ پر لگا رہے ہیں انہی وسائل سے اساتذہ کی تعداد
اور انفرا سٹرکچر مہیا کریں۔ اس کے بعد احتساب کا عمل تیز اور سخت کر دیں
لیکن خدارا استاد کو عزت دیں۔ اس کی عزت نفس کا بھی خیال رکھیں تب ہی پنجاب
پڑھے گا اور بڑھے گا۔ |