بابُ المدینہ (کراچی) کے علاقے
کورنگی کے ايک اسلامی بھائی کے حلفيہ بیان کا خلاصہ ہے کہ میں ایک آوارہ
گرد نوجوان تھا ۔دوستوں کے ساتھ فضول گپ شپ اور سگریٹ نوشی میرا معمول تھا
۔ ہم سب دوستوں کے سدھرنے کا اہتمام کچھ اس طرح سے ہوا کہ ہم نے بابُ
المدینہ کراچی (کورنگی ساڑھے تین )ميں ہونے والے دعوتِ اسلامی کے بین
الاقوامی سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی۔ (یہ باب المدینہ کراچی میں 1993ء
میں ہونے والا آخری بین الاقوامی اجتماع تھا ،اس کے بعد اجتماع مدينۃ
الاولياء (ملتان شريف) ميں منتقل ہوگیاتھا۔) ہم اجتماع ميں شريک تو ہوئے
مگر ساتھ ہی ساتھ يہ پروگرام بنايا کہ رات کے وقت اِجتماع گاہ سے باہر جاکر
خوب گُھوميں پھریں گے اور سگريٹ بھی پيئيں گے۔چنانچہ جب رات ہوئی تو ہم نے
سگريٹ کے پیکٹ خريدے اور اکٹھے بيٹھ کر سگريٹ نوشی شروع کر دی ۔ جن بھوت
وغیرہ کے ڈراؤنے واقعات سنائے جانے لگے ،جس کی وجہ سے ماحول خاصا دلچسپ اور
سنسنی خیز ہوگیا ۔ہم یونہی گپ شپ میں مگن تھے کہ ايک ادھيڑ عمر کے اسلامی
بھائی( جن کے سر پر سبز عمامہ شريف تھا)نے قریب آکر ہمیں سلام کیااور ہمارے
درميان آبیٹھے ۔انہوں نے بڑی شفقت سے کہا: ''اگر آپ اجازت ديں تو ميں کچھ
کہنا چاہتا ہوں۔''ہم نے کہا:'' فرمائيے۔''وہ کہنے لگے کہ اتفاق سے ميںآپ
لوگوں کو سگريٹ پيتے اور اِدھر ُادھر گھومتے ہوئے بہت دير سے ديکھ رہا ہوں۔
آپ لوگوں کا يہ انداز ديکھ کر مجھے اپنی آپ بیتی ياد آگئی،لہٰذا ميں نے
سوچا کہ خدانخواستہ کہیں آپ بھی اس تباہ کن راستے پر نہ چل نکلیں جس پر میں
ایک عرصے تک چلتا رہا ہوں ۔
پھر انہوں نے اپنی داستان ِ عبرت سنائی کہ وہ کس طرح بُرے دوستوں کی صحبت
ميں پڑے اور ابتداء میں سگريٹ نوشی شروع کی۔ پھر انہيں بُری صحبت کی نحوست
نے چرس اور ہيروئن جیسے مہلک نشے کا عادی بناديا۔''آہ! ميں 16سال تک نشے کا
عادی رہا۔''يہ بتاتے ہوئے ان کی آواز بھر آئی ۔ پھرسلسلہ کلام جاری رکھتے
ہوئے کہنے لگے :ميری بُری عادتوں سے بیزار ہو کر مجھے گھر سے نکال ديا
گيا۔ميں فٹ پاتھ پر سوتا اور کچرے کے ڈھير سے کھانے کی چیزیں چن کر يا
لوگوں سے مانگ مانگ کر کھاتا۔آپ کو شايد یقین نہ آئے ميں نے ايک ہی لباس
ميں16 سال گزار دئيے۔ميری کیفیت پاگلوں کی سی ہوچکی تھی۔لوگ مجھے دیکھ کر
گھِن کھاتے اور قریب سے گزرنا بھی گوارا نہ کرتے ۔میری اُجڑی ہوئی زندگی
دوبارہ اس طرح آباد ہوئی کہ ايک رات غالباً وہ شبِ براء ت تھی،ميں بدنصيب
ايک گلی کے کونے ميں کچرے کے ڈھير کے پا س بنائی ہوئی چھوٹی سے پناہ گاہ
میں لیٹا ہوا تھا کہ کسی نے مجھے بڑے ہی پیارے انداز سے سلامکیا ۔میں نے
حیرانی کے عالم میں نگاہ اٹھائی کہ مجھ جیسے گندے شخص سے کسی کو کیا کام
ہوسکتا ہے؟مجھے اپنے سامنے نورانی چہروں والے2 اسلامی بھائی نظر آئے جن کے
سروں پر سبزعماموں کے تاج تھے ۔وہ آگے بڑھتے ہوئے بڑی اپنائيت سے کہنے لگے:
''آپ سے کچھ عرض کر نی ہے۔ '' مجھے زندگی ميں پہلی بار کسی نے اتنی محبت سے
مخاطب کيا تھا۔ میں اپنی پناہ گاہ سے باہر نکل آیا۔انہوں نے مجھ سے میرا
نام وغيرہ پوچھا ، پھر مجھے شبِ براءت کی اہمیت اور برکتوں کے بارے میں
بتانے لگے۔ميں ان کے شفقت بھرے انداز ِ گفتگو سے پہلے ہی متاثر ہو چکا
تھا۔جب انہوں نے مجھے اس رات کی عظمت سے آگاہ کیا تو میرے ضمیر نے مجھے
جھنجھوڑا کہ کیا اتنی عظیم رات بھی میں اپنے خالق عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی
میں گزاروں گا جس ميں بڑے بڑے گناہ گاروں کو بخش ديا جاتا ہے،مگرآہ! نشہ
کرنے والابدنصیب مغفرت کے پروانے سے محروم رہتا ہے۔یہ سوچ کر میں تڑپ کر رہ
گیا ،محرومی کے صدمے نے مجھے بے چین کردیا ۔ اُن اسلامی بھائیوں کی
اِنفرادی کوشش رنگ لائی اور میں نے اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کو منانے کی ٹھان
لی ۔ چنانچہ میں اُن کے ساتھ مسجد کی طرف چل دیا اور غسل کر کے کپڑے (جو
کسی نے ترس کھا کر مجھے کچھ ہی دن پہلے دئيے تھے)تبدیل کئے ۔16برس کے بعد
جب میں مسجد میں داخل ہوا اور نماز کی نیت باندھی تومجھ پر ایسی رقّت طاری
ہوئی کہ رحمتِ الہٰی کی بارش میری آنکھوں کے ذریعے رُخساروںکو تَر کرنے لگی
۔امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ اور دعوتِ اسلامی پر رب تعالیٰ کی
کروڑوں رحمتوں کا نزول ہو جن کی بدولت ایک بھاگا ہوا غلام اپنے مولیٰ
عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضر ہوگیاتھا۔میں کافی دیر تک اپنے گناہوں کو
یاد کر کر کے روتا اور اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے معافی مانگتا رہا ۔ جب میں
وہاں سے اٹھا تو مجھے ایسا لگا کہ میرے کریم عَزَّوَجَلَّ نے میری گریہ و
زاری کو قبول فرما لیا ہے ۔
میں نے گناہوں بھری زندگی چھوڑ کر دعوتِ اسلامی کا مَدَنی ماحول اپنا لیا
اور اميرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العاليہ کے ذريعے مريد ہو کر عطاری بھی بن
گيا۔ ميں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ بغیر کسی علاج اور دوائی کے نشہ کی عادت
سے پیچھا چھڑاؤں گا۔ اس کے لیے مجھے شدید ترین آزمائشوں سے گزر نا پڑابلکہ
یوں سمجھئے کہ جان کے لالے پڑ گئے۔ميں تکليف کے باعث چيختاچِلّاتااور بُری
طرح تڑپتا،حتّی کہ گھر والے ميری حالت ديکھ کر رو پڑتے اور مجھے مشورہ ديتے
کہ کہیں تمہارا دم ہی نہ نکل جائے، ہيروئن کا ايک آدھ سگريٹ ہی پی لو،
تھوڑا سکون مل جائے گاپھر کم کرتے کرتے چھوڑ دینا ۔مگر ميں منع کردیتا اور
ان سے التجاء کرتا کہ مجھے چار پائی سے باندھ دو۔وہ مجبوراً مجھے باندھ
دیتے۔مجھے سخت تکلیف ہوتی ،سارا بدن درد سے دُکھنے لگتا مگر مجھے یقین تھا
کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ۔الحمد للہ عَزَّوَجَلَّ آہستہ آہستہ میری حالت
بہترہونے لگی اور بالآخر پير و مرشد اميرِ اَہلسنّت دامتبرکاتہم العاليہ کے
صدقے مجھے نشے کے اثرات سے نَجَات مل گئی اورمیں مکمل طور پر صحت یاب
ہوگیا۔''اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کیسا کرم ہے کہ کل کا ہیروئنچی آج دعوتِ
اسلامی کا مبلغ بن کر نیکی کی دعوت دینے کی سعادت پارہا ہے ۔'' یہ کہتے
ہوئے اُن کی آنکھوں میں آنسوؤں کے ستارے جھلملانے لگے۔
(اُس اسلامی بھائی کا کہنا ہے کہ) اُن کی حیرت انگیز رُوداد سُن کر ہم بھی
اشکبار ہو گئے اور سابقہ گناہوں سے توبہ کرکے دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول
سے رشتہ جوڑ لیااور اميرِ اَہلسنّت کے دامن سے وابستہ ہو کر عطاری بھی بن
گئے ہيں۔ الحمد للہ عَزَّوَجَلَّ آج میں ڈویژن سطح پر مدنی انعامات کے ذمہ
دار کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا ہوں۔
(ہِيروئِنچی کی توبہ، ص۱۰، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) |