ایک شریف و نفیس انسان کیلئے گندگی میں اٹا پبلک ٹوائیلٹ
کا استعمال جہاں مشکل ترین مرحلہ ہے وہیں اسکے در و دیواروں پر نگاہ ڈالنا
بھی کم روح فرسا نہیں۔ اکثر پبلک ٹوائیلٹس میں صفائی تو نظر نہیں آتی البتہ
اس کے در و دیواروں پہ گالیوں اور فحش منظر کشی کے ذریعے اخلاقیات کا جنازہ
نکلتا نظر آتا ہے۔ لیکن اس قوم کی اخلاقیات کا جنازہ تو پبلک ٹوائیلٹ سے
لیکر پارلیمنٹ تک ہر جگہ نکل رہاہے‘ جو کھلے عام جرأت نہیں کر پاتے وہ
باتھ روم کے در و دیواروں پہ کندہ کرتے ہیں جبکہ جرأت مند اشرافیہ میڈیا
کے مختلف فورم پہ‘ جلسہ جلوس میں یا پھر پارلیمنٹ میں بیٹھ کرقصیدہ پڑھتے
ہیں اور اس قوم کی اخلاقی دیوالیہ پن کی خوب منظر کشی کرتے ہیں۔
اس قوم کی اخلاقی دیوالیہ پن کا کہاں تک روئیں؟ اس گناہ گار نے تو ایسے
نوجوانوں کو بھی دیکھا ہے جو ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیوں سے مخاطب کرتے
ہیں اور انکی انا کو ذرا بھی ٹھیس نہیں پہنچتا‘ ایسے ماں باپ کو بھی دیکھا
ہے جو اپنے جوان بیٹوں اور بیٹیوں کو فحش گالیوں سے نوازتے ہیں اور کچھ بھی
برا نہیں سمجھتے۔
اگر جاہل عوام علاقائی گالیاں بکتے ہیں تو پڑھے لکھے انٹرنیشنل (بین
الاقوامی) گالیوں میں ایکسپرٹ ہیں اور میڈیا والے تو لوکل و انٹرنیشنل
گالیوں اور ہر طرح کی فحاشی و بے حیائی کو شوگر کوٹیڈ بنا کر عوام و خاص کے
رگ و پے میں اتارتے ہیں۔
اب تو گالی دینا بھی عبادت ہے۔ پہلے تو صرف ایک فرقے نے گالیوں کو اپنی
عبادات میں داخل کیا اور اب تو یہ ہر فرقے کی عبادات کا اہم جز بن گیا ہے۔
امام بارگاہوں میں بھی گالیاں دی جاتیں ہیں اور مسجدوں میں بھی۔ میخانوں
میں بھی گالیاں دی جاتیں ہیں اور خانقاہوں میں بھی۔ مکانوں میں گالیاں اور
کارخانوں میں بھی‘ بازاروں میں ہیں بھی گالیاں اور کھلیانوں میں بھی۔
ٹی وی اسکرین پہ گالیاں تو اور سوشل میڈیا پہ گالیاں۔
خبروں میں گالیاں اور ڈراموں و فلموں میں گالیاں۔
جلسہ گاہوں میں گالیاں اور جلسہ گاہوں سے باہر بھی گالیاں۔
ہر جگہ ہر زبان پہ گالیاں ہی گالیاں ہیں۔
عورت کی زبان پہ بھی گالیاں اور مرد کی زبان پہ بھی۔
بوڑھے بھی گالیاں بکتے ہیں اور بچے بھی۔
اور اب تو نومولود بچے کا بھی آذان کی بجائے پہلے گالیوں سے ہی سواگت کی
جاتی ہے۔
اس قوم کا کیا بنے گا؟
اس امت کا کیا بنے گا؟
عقل حیران و پریشان ہے؟
کیا یہ وہی امت ہے جس کی اخلاق حسنہ کو اعلیٰ اخلاق و کردار کے اسٹینڈرڈ ’
صاحبِ خلقِ عظیم‘ ﷺ نے درجہ کمال تک پہنچایا تھا؟ جس اعلیٰ اخلاق و کردار
کی بنیاد پر اس امت نے اقوامِ عالم کے دلوں میں اپنا جگہ بنایا اور ملک پر
ملک فتح کیا تھا؟
اخلاق حسنہ کی تکمیل کا مینویل آج بھی اس امت کے پاس قرآن و سنت کی صورت
میں موجود ہے۔
ہم ہر چھوٹی بڑی مشین کو اسکی مینویل کے مطابق چلاتے ہیں تاکہ مشین خراب نہ
ہو اور دنیا میں ہمیں نقصان نہ پہنچے۔
لیکن آخرت کے نقصانات سے بچنے کیلئے اللہ کی مشین کو قرآن و سنت کی مینویل
کے مطابق نہیں چلاتے ۔ اخلاق‘ تہذیب‘ شائستگی اور عفو درگزر جیسی اعلیٰ و
ارفع اوزاروں کے سہارے اپنے آپ کو کنٹرول نہیں کرتے اور فحش گوئی‘ بدکلامی
اور گالیاں وغیرہ کے ذریعے اپنی پرا گندہ ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئےاپنے آپ
کو اور دوسروں کو بے ابرو کرتے ہیں‘ کیونکہ گالی کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی
شخص کے بارے میں ایسے کلمات استعمال کیے جائیں جو اسے بے آبرو کردیں ۔ آج
کل زبان کے علاوہ ہاتھوں اور آنکھوں کے اشاروں سے اور حرکات و سکنات سے‘
ڈراموں ‘ کارٹونوں اورمختلف منظر کشی کے ذریعے بھی لوگوں کو بے آبرو کیا
جاتا ہے اور یہ سب بھی گالیاں ہیں۔
کون مسلمان رسول اللہ ﷺ کے اس حدیث کونہیں جانتا:
’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر
وہ ہے جو اللہ کے منع کیے ہوئے کاموں سے باز رہے۔ (ابوداود‘ حدیث2448 )
لیکن آج مسلمان ہونے کے دعویدار زبان سے بھی گالیاں بکتے ہیں اور ہاتھوں
اور آنکھوں کے اشاروں سے بھی ۔
گالم گلوچ تو وہ فتنہ ہے جو لوگوں کو کبیرہ گناہوں میں مبتلا کرکے قتل و
غارت گری تک پہنچا دیتا ہے اور دنیا و آخرت دونوں کی تباہی و بربادی کا
باعث بنتا ہے۔ کوئی بھی سلیم الفطرت شخص مذاق میں بھی نہ ہی گالی دے سکتاہے
اور نہ ہی گالی سن سکتا ہے۔ گالی چاہے عام انسان کو دی جائے یا خاص کو‘
جانوروں کو دی جائے یا بے جان چیزوں کو‘ زمانے کو یا حکمرانوں کو یا کسی
اور مخلوق کو۔۔۔ نہایت ہی مذموم اور قبیح عمل ہے۔ لیکن مسلم ملک و معاشرے
میں مسلمان کہلوانے ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ‘ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام
اور امت کے اچھے لوگوں کو اور اپنے والدین کو اور اپنی بیوی بچوں کو یا کسی
بھی مخلوق کو گالیاں دینے سے نہیں چوکتے۔
بعض لوگوں کا تکیۂ کلام ہی گالی ہے۔ نکی گفتگو گالیوں سے شروع ہوکراور
گالیوں پر ہی ختم ہوتی ہے۔
کچھ لوگ تو بغیر سوچے سمجھے بے دھیانی میں ایسی گالیاں بھی بک جاتے ہیں کہ
اگر اسکی معنی و مفہوم پر غور کیا جائے تو پیارے نبی ﷺ کی یہ فرمان صادق
آتی ہے کہ
’’ بلاشبہ بندہ کبھی اللہ کی رضا مندی کا کوئی ایسا کلمہ کہہ دیتا ہے کہ جس
کی طرف اُسے دھاین بھی نہیں ہوتا اور اُس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُس کے بہت
سے درجات بلند فرما دیتا ہے اور بلاشبہ بندہ کبھی اللہ کی نافرمانی کا کوئی
ایسا کلمہ کہہ گزرتا ہے کہ اُس کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں ہوتا اور اس کی
وجہ سے دوزخ میں گرتا چلا جاتا ہے‘‘۔ (مشکوۃ 411 از بخاری)۔
آج مسلمان سود کی قباحت کو جانتے ہوئے سود سے تو بچتا ہے لیکن اپنے مسلمان
بھائی کو گالی دینے ( آبرو ریزی کرنے) سے نہیں بچتا جبکہ رسول اللہ نے
فرمایا ہے کہ
بلاشبہ سب سے بڑے سود میں سے یہ بھی ہے کہ ناحق کسی مسلمان کی آبرو ( ریزی
) کے بارے مین زبان دراز کی جائے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ۴۲۹از بہیقی)
اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ( نافرمانی) ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔(صحیح
البخاری‘ حدیث 6044)
دین اسلام میں گالی گلوچ کی کوئی گنجائش نہیں اور اس کی مذمت میں بے شمار
احادیث ہیں جن کا احاتہ اس مضمون میں ممکن نہیں۔ بس گالی گلوچ کرنے والے کو
اس قبیح عمل سے بچنے کیلئے اتنا جان لینا کافی ہے کہ اگر اسکی نیکیاں پہاڑ
کے برابر بھی ہوئی تو قیامت کے دن وہ مفلس ہوگا۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کیا تم جانتے ہومفلس کون ہے؟
صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا:
ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم و دینار ہوں اور نہ ساز و سامان۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
(نہیں بلکہ) بلاشبہ میری امت میں سے مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز‘
روزےاور زکاۃ کے ساتھ آئے گا لیکن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس نے کسی کو
گالی دی ہے‘ کسی پر بہتان تراشی کی ہے‘ کسی کا مال کھایا ہے‘ کسی کا خون
بہایا ہےاور کسی کو مارا ہے‘ چنانچہ ان (تمام مظلوموں ) کو اس کی نیکیاں دے
دی جائیں گی‘ پھر اگر اس کی نیکیاں اس کے ذمے دوسروں کے حقوق ادا ہونے سے
پہلے ختم ہوگئیں تو ان کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے جائیں گی‘ پھر اسے جہنم
میں پھینک دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم)
آج اس دنیا میں کوئی مالدار ہے کوئی مفلس۔ لیکن گالی گلوچ کرنے والا دنیا
اور آخرت میں مالدار ہوکر بھی مفلس ہی رہے گا کیونکہ اس کی ساری نیکیاں ‘
ساری مالداری دوسروں میں تقسیم ہو جائے گی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے مفلس ہونے سے بچائے۔ آمین |