انسان جس چیزکی کوشش کرے گا،وہی
چیزوجود میں آئے گی۔اگرانسانیت کی فلاح وبہبود کی کوشش کرے گا تواس کا
نتیجہ بھی اس کے سامنے آئے گا۔انسان کی کوشش اس کی نیت اور ارادہ کے مطابق
ہوتی ہے۔ جیسا اس کا ارادہ اور نیت ہوگی اس کے مطابق ہی اس کی کوشش
ہوگی۔حضرت ابوہریرہ ؓ ،حضرت عبدالرحمن ؓسے روایت کرتے ہیں کہ اﷲ کے رسول اﷲ
ﷺ نے فرمایاجس کامفہوم "اﷲ تعالیٰ تمھارے جسموں اور تمھاری صورتوں کو نہیں
دیکھتا،بلکہ وہ تمھارے دلوں اور اعمال کو دیکھتاہے" اسی طرح نیت اور ارادہ
کا انحصار انسان کی سوچ پرہوتاہے۔ انسان کی سوچ مثبت ہوگی تواس کاہرمعاملہ
میں طرز ِعمل مثبت ہوگا ، اگر سوچ منفی ہوگی تو لامحالہ اس کا نتیجہ عملی
میدان میں تخریبی سرگرمیاں ہی ہوں گی،پھراس کا انجام اُس کے اپنے اعمال کے
مطابق ہی ہوگا اوراس کے اعمال کا بوجھ کسی دوسرے کے کاندھے پر ہرگز
نہیں۔لہٰذاہر انسان اپنے اعمال کے بارے میں خود جواب دہ ہے ۔
ترجمہ"-:یہ کہ کوئی شخص دوسرے(کے گناہ)کابوجھ نہیں اُٹھائے گا۔اوریہ کہ
انسان کو وہی ملتاہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی
جائے گی۔پھراس کو اس کاپورا پورابدلہ دیا جائے گا۔" (سورۃ النجم آیات
38تا41)
آج بدقسمتی سے ہمارے حالات کا خلاصہ بدامنی،قتل وغارت گری،دہشت
گردی،چوربازاری،ناانصافی،مہنگائی ،بے روزگاری ہے،یعنی معاشرے میں استحکام
اور امن و سکون نام کی کوئی چیز نہیں۔ان حالات کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔اپنی
خفگی کم کرنے اوراپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کے لئے ہمارے پاس دوآسان
بہانے اورالزام دستیاب ہیں ایک امریکہ اوردوسرا(ابلیس) شیطان ۔
"الزام تو ایسے لوگوں پرہے جولوگوں پرظلم کرتے ہیں اورزمین پر ناحق فساد
پھیلاتے ہیں۔یہی لوگ ہیں جنہیں تکلیف دینے والا عذاب ہوگا۔"( سورۃ
الشوریٰ،آیت 42)
اﷲ رب العزت نے انسان کوعقل ودانش عطاء کی تا کہ وہ برائی ا ور بھلائی میں
تمیزکرسکے اورپھرانسان کوخیر وشر کے راستہ سے آگاہ کرنے کے بعد اسے اختیار
دیا کہ وہ جوچاہے راستہ اختیار کرے۔دُنیا میں ہرقسم کے انسان ہیں، نیک اور
صالح ،دوسروں کی بھلائی اورمعاشرہ کی فلاح وبہبود کے لئے اپنے آپ کو وقف
کرنے والے ،اسی طرح حرص وہوس کے قیدی بھی کم نہیں جوخود غرضی اورلالچ میں
اپنی ذات سے بڑھ کرکسی اورکے بارے میں سوچتے ہی نہیں۔ یہ لوگ اپنے فائدے کی
خاطرکچھ بھی کرگزرتے ہیں۔ان کے نزدیک وطن،معاشرہ اورعام انسان کی کوئی
اہمیت نہیں ۔ انہیں بس اپنے فائدے سے غرض ہے۔ایسے ہی لوگ معاشرے میں فساد
اوربگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ ہم نے اگرامن وسلامتی کی کوشش کی ہوتی تو یہ کیسے
ممکن تھا کہ فساد اور انتشار عام ہوتا،ہم نے دوسروں کے حقوق کا خیال کیا
ہوتا تویہ کیسے ممکن تھا کہ ہمارے حقوق انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح
تک غصب ہورہے ہوتے۔ معاشرے میں پیش آنے والے موجودہ واقعات وحالات کے ہم
خود ذمہ دار ہیں۔
معاشرے میں فرد کی اہمیت اورحیثیت امتیازی ہوتی ہے، لہٰذا ہرفرد معاشرے میں
امن و سلامتی اور بھائی چارہ کی فضاء پیدا کرنے یافساد،بگاڑ اورمعاشرے میں
تباہی وبربادی کے لئے اپنا حصہ ڈالتاہے۔اﷲ رب العزت کی جتنی بھی مقرب
ہستیاں معاشرے اور انسانیت کی فلاح کے لئے تشریف لائے سب نے انسان کی سوچ
اور فکربدلنے کی محنت اور کوشش کی۔ سب سے پہلا کام لوگوں کے دل اور سوچ کو
دُنیا سے ہٹا کر ایک اﷲ واحدہ لاشریک کی جانب کیا۔کیونکہ جب سوچ بدلتی ہے
تواعمال خود بخود بدل جاتے ہیں۔ اِسلام سے قبل خطہء عرب کے حالات ہمارے
سامنے ہیں، یہ وہ لوگ تھے جن پر حکومت کرنے کے لئے کوئی راضی نہیں تھا۔ ان
کے درمیاں بڑائی اور فخرکا باعث برائی تھی، جوبرائی میں جس قدر زیادہ ہوتا
، معاشرہ میں اس کا مقام اتنا بلندہوتا۔ یہ وہ لوگ تھے جواپنی بچیوں کو
زندہ درگور کردیتے ، معمولی بات پر ان کے درمیان جنگیں شروع ہوجاتیں جو
نسلوں تک چلتی رہتیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے اس تباہ حال معاشرہ میں سب سے پہلے فردہی کواپنی توجہ
کا مرکز بنایا۔آپﷺ کی تعلیمات مبارکہ سے جب ان کی سوچ اور فکربدلی تو ان
لوگوں کے سارے اعمال بدل گئے ۔جو لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کی جان کے پیاسے
تھے ، ایک دوسرے کی خاطرجان قربان کرنے والے اورایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے
والے بن گئے۔عرب کی سرزمین پربرائیوں کی جگہ بھلائی ،جہالت کی جگہ علم،نسل
درنسل برسرپیکار رہنے والوں کے درمیان اخوت و بھائی چارہ پیدا ہوگیا،وہی
لوگ جو زیادہ سے زیادہ اپنے قبیلہ کے سرداری سے بڑھ کرسوچ بھی نہیں سکتے
تھے اُنہیں دُنیا کا امام بنا دیا۔الغرض انفرادی سوچ وفکر بدلنے سے
ایسامعاشرہ وجود میں آیا کہ اس سے عمدہ اور پاکیزہ معاشرہ روئے زمین پرکسی
نے نہیں دیکھا۔
معاشرے میں دولت، جدید اسلحہ اورتمام سہولیات سے بڑھ کر جس کی ضرورت ہے وہ
احساس اور فکر کی تبدیلی۔ آج حق تلفی ،ظلم اورناانصافی ہماری پہچان بن چکی
ہے،اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں ۔ ہم نے کسی کے حق پر ناجائز
ڈاکہ ڈالا ، ہم نے کسی کی بھرے بازار میں عزت نیلام کردی، ہم نے کھانے پینے
اورادویات تک میں ملاوٹ کردی، ہم نے ناپ تول میں کمی کو روزمرہ کا کام جانا
اورپھریہ کبھی سوچا ہی نہیں صبح سے شام اورشام سے صبح تک جو اعمال ہمارے
وجود سے سرزد ہورہے ہیں یہ کتنا بڑا ظلم ، معاشرے میں بگاڑاورعدم استحکام
کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ہماری اپنی بداعمالیوں کے سبب آج معاشرہ مکمل طور
پرتبا ہ وبرباد ہوچکا ہے اور ہم اخلاقی پستی کی آخری حدوں کوچھو رہے
ہیں۔صرف اورصرف آ پ ﷺ کی تعلیمات واسوہ حسنہ کی مکمل پیروی سے مثالی معاشرے
کا قیام ممکن ہے۔اگر ہم معاشرے میں سدھار اور امن و سکون چاہتے ہیں توہمارے
لئے ضروری ہے کہ ہم محمدمصطفی ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنائیں،جس سے ایسی باکمال
شخصیت وجود میں آتی ہے جوبے مثال معاشرے کے قیام کی بنیاد اورضامن ہے۔ |