ٹوپی

بچپن میں سلیمانی ٹوپی کے متعلق کسی سے سنا تھا جو اسے پہن لے وہ کسی کو نظر نہیں آتا ۔تب سے سن شعور کو پہنچنے تک سلیمانی ٹوپی خوابوں وخیالوںکا مرکز بنی رہی ۔خصوصاً جس دن اسکول کا کام مکمل نہ کیا ہوتا یا کسی شرات کے بعد ابوکے سامنے پیشی ہوتی ا س دن سلیمانی ٹوپی کی ضرورت اور شدت سے محسوس ہونے لگتی۔اگرچہ سلیمانی ٹوپی کا حقیقت کی دنیا میں کوئی وجود نہیں لیکن اس کے باوجو د لاشعوری طور پر میری طرح ہر دوسرے بندے کو آج بھی اس کی تلاش ہے ۔تلاش کے اس سفر میں آپ کو سلیمانی ٹوپی تو نہیں ملے گی لیکن کئی اور ٹوپیوں سے آپ کا واسطہ ضرور پڑے گا۔ٹوپی دنیا کی مختلف اقوام کی طرح ہمارے ہاں بھی مقبول اور اپنا منفرد مقام ومرتبہ رکھتی ہے ۔پاکستان میں ٹوپی نہ صرف تہذیب و تمدن کی علامت اور علاقائی شناخت کا ذریعہ ہے بلکہ مذہبی علامت ہونے کی وجہ سے باعث تکریم بھی ہے ۔ ہمار ے ہاںہر علاقے اور طبقے میں ٹوپیوں کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔سب سے زیادہ مشہور وہ ٹوپیا ں ہیںجو حکمران،عوام کو پہناتے ہیں ۔یہ ٹوپیا ںہر رنگ اور ہر سائز میں تمام سیاستدانوں سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔اردو میں اگرچہ ٹوپی پہنانے کا محاورہ نا شائستہ عمل کی نشاندہی کرتاہے لیکن اس عمل کی ناپسندیدگی سے ٹوپی کی عزت و تکریم میںکوئی کمی نہیں آتی۔وطن عزیز میں ٹوپی کئی مقاصد کی بنا پر پہنی جاتی ہے ۔کچھ لوگ روایت ،کچھ رواج ،کچھ مذہب ،کچھ فیشن اور کچھ اپنا گنجا پن چھپانے کے لیے پہنتے ہیں۔ان تمام سے ہٹ کر بھی ٹوپی ایک تاریخی ورثہ ہے اس کے پہننے سے قوموں کی عزت بڑھتی ہے۔

تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ ۹۱ ویںصدی تک مراکش کاشہر فاس ٹوپیاں بنانے کا واحد مرکز تھا۔جس کے بعد یہ ٹوپیاں فرانس ،ترکی اور رفتہ رفتہ پوری دنیا میں بننے لگیں۔پاکستان میں نواب شاہ، چار باغ،حیدر آباد،گجرانوالہ،بلوچستان ٹوپیاں بنانے میں مشہورہیں۔تا ہم ہر علاقے کے لوگ اپنے اپنے رواج کے مطابق مقامی طور پر بھی ٹوپیاں تیار کرتے ہیں۔ٹوپی ایک ایسا موضوع ہے جو پاکستان کے چاروں صوبوں میں رہنے والوں کے درمیان مشترک ہے ۔کراچی سے لے کر چترال اور گوادر سے لے کر کشمیر تک ہر ایک کے ہاں ٹوپی کا استعمال پایا جاتاہے ۔اب توخیر سے باقاعدہ ٹوپی ڈے بھی منایا جاتا ہے ۔پاکستان کے قبائلی علاقہ جات اور صوبہ سرحد کے بیشتر حصوں میں ٹوپی لباس کا حصہ سمجھی جاتی ہے ۔ان کے گاﺅں اور دیہاتوں میںٹوپی پہننے کا رواج 80%سے 90%جبکہ شہروں میں 40%سے50%ہے ۔ان کے ہاں ٹوپی اتارنامعیوب سمجھاجاتا ہے ۔یہ مرتے مر جائیں گے لیکن ٹوپی نہیں گرنے دیتے ۔سرحد ،سندھ اور بلوچستان میں ٹوپی روایتی رسم اور علاقائی شناخت جبکہ پنجاب میں گرمی سے بچاﺅ کے لیے پہنی جاتی ہے۔نواب شاہ میں بننے والی سندھی ٹوپیاں سندھیوں کے ساتھ ساتھ کوئٹہ کے پٹھانوں میں بھی بہت مقبول ہیں ۔تا ہم بلوچی ٹوپی اور سندھی ٹوپی میںمعمولی فرق پایا جاتا ہے بلوچی ٹوپی میں محراب نہیں ہوتا جبکہ سندھی ٹوپی میں محراب بنا ہوتا ہے ۔کوئٹہ ،چمن،پشین،گلستاں ،بوستاں،قلعہ عبداللہ ،لورلائی،زیارت ،ژوب،ہرنائی،قلعہ سیف اللہ میں شادی پر دولہا ٹوپی لازمی پہنتا ہے ۔شادی کے جوڑے کی طرح ٹوپی بھی خصوصی طور پر خریدی جاتی ہے ۔ٹوپیوں کے شوقین حضرات یہ ٹوپیاں آرڈر پر بنواتے ہیں جن میں خصوصی طور پر قیمتی پتھر لگوائے جاتے ہیں ۔مارکیٹ میںیہ 300سے شروع ہو کر 10,00روپے تک کی قیمت میں دستیاب ہیں۔پتھروں سے بنائی گئی ٹوپیوں میں زرقون کے نگوں سے بنی ہوئی ٹوپی اپنی چمک اور نفاست کی بنا پر انتہائی خوبصورت ہو تی ہے ۔کراچی کی لی مارکیٹ ان ٹوپیوں کا مرکز ہے ۔سرائیکی بیلٹ میں کروشیے سے بنائے جانے والی جالی دار ٹوپیاں مذہبی حلقے خصوصاً قراء حضرات کی پسندیدہ ہیں ۔یہ مقامی طور پر دیہاتوں کی خواتین گھروں میں تیار کرتی ہیں ۔چترال ،گلگت ،بلتستان ،کشمیر میں پہنی جانے والی ٹوپیاں معمولی فرق کے ساتھ تقریباًایک ہی جیسی ہیں البتہ چترالی ٹوپی کے متعلق ہمارے دوست نعیم اللہ چترالی کا کہنا ہے کہ یہ تھوڑی باتکلف ہوتی ہے جسے دھونے کے لیے کھولنا پڑتا ہے اور بعد میں ایک خاص انداز سے دوبارہ بنایا جاتاہے جو عام آدمی کے بس کا کام نہیں ۔یہ ٹوپیاں اون اور کپڑے سے بنائی جاتی ہیں جو سردی سے بچاﺅ میں خصوصی مدد دیتی ہیں ۔سوات کے علاقے چار باغ میں بننے والی گول کڑک ٹوپیاں پورے ملک میں پسند کی جاتی ہیں۔خصوصاً دیندار لوگ اسے پگڑی کے لیے ترجیحی بنیادوں پر خریدتے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ٹوپیاں پورے ملک میں ملتی ہیں لیکن جس علاقے میں بنتی ہیں وہاں دستیاب نہیں ہوتیں ۔تاجر تمام کا تمام مال دوسرے شہروں میں بھیج دیتے ہیں ۔مقامی باشندے بھی اپنے لیے دوسرے شہروں سے منگواتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان ٹوپیوں کی مانگ بہت زیادہ ہے جس کی بنا پر بمشکل دوسرے شہروں کے آرڈر پورے کیے جاتے ہیں ۔دیر ،لوئر دیر ،باجوڑ،چترال،سوات،شیرگڑھ اور پورے مالاکنڈ ڈویژن میں لوگوں کی اکثریت ٹوپی کو ترجیح دیتی ہے ۔ہز ارہ ڈویژن خصوصاً ایبٹ آباد ،ہری پور ،مانسہرہ اور بالاکوٹ میں بھی ٹوپی پہننے والے کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔

موجودہ دور میں اگرچہ کشمیر میں ٹوپی پہننے کا رواج برقرار ہے تا ہم نئی طرز کی ٹوپیوں نے کشمیری سوزنی ٹوپی کو رواج سے باہر دھکیل دیا ہے ۔ضلع پلوامہ کے ایک سرکردہ تاجر حاجی غلام محمد وانی کو ٹوپیوں کے اپنے موروثی کاروبار پر اب بھی فخر ہے ۔اس تاجر کا کہنا ہے کہ اس کی دکان پر آج سے 50سال قبل ”سوزنی ٹوپی“دو روپے کی قیمت پر دستیاب ہوا کرتی تھی اور روزانہ سیکڑوںکی تعداد میں لوگ اس مخصوص ٹوپی کو خریدنے کی غرض سے سرینگر ترال اور اسلام آباد کے کونے کونے سے امڈ آتے تھے ۔وانی کے بقول اس ٹوپی کی قیمت اس وقت دو سو روپے سے لے کر 2000روپے تک کی مختلف شرحوں پر محیط ہے لیکن ٹوپی تلاش کرنے والوں کی تعداد کل آباد ی کے ایک فیصد حصے سے بھی کم ہے ۔اس تاجر کا مزید کہنا ہے کہ کشمیر کی سوزن کاری پر مبنی ٹوپی قدیم زمانے میں صرف یہاں کی دیہی آبادی کی مانگ کا مرکز ہرگز نہ تھی بلکہ شہر سرینگر کے رئیس اور غرباء یکساں طور یہ ٹوپی پہننے کے عادی ہوا کرتے تھے ۔کشمیر میں ادائیگی نماز کے لیے ٹوپیوں کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہی ریکارڈ کیا جا رہا ہے تاہم یہاں کے بزرگ اور نوجوان اب کشمیری ٹوپی کے بجائے علی گڑھ ،رامپور،حیدر آباد اور بنگلہ دیش میںبنی مصنوعات کی طرف لپک رہے ہیں جس کی وجہ سے سوزن کارگری بھی تیزی سے زوال کی جانب گامزن ہے ۔شواہد کے مطابق 20ویں صدی کی چوتھی دہائی تک وادی کشمیر کے سینکڑووں دیہات میں ہزاروں لوگ ٹوپیوں کی سوزنی کاری سے اپنی روزی روٹی کماتے تھے لیکن 21ویں صدی میں کاریگروں کا دائرہ سکڑ کر صرف رعنا واری ،جڈی بل ،بیروہ،اوم پورہ اور گانگوہ دیہات تک ہی محدود رہا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سال 1996میں نئی ریاستی سرکار کی حلف برداری کی تقریب کے دوران ممبر اسمبلی پلوامہ بشیر احمد نینگرو نے سوزنی ٹوپی پہن کر ہی حلف لیاتھا ۔وہ کئی مرتبہ یہی ٹوپی پہن کر اسمبلی میں بھی داخل ہوئے تھے لیکن اس سابق اسمبلی ممبر کا یہ غیر معمولی تجربہ بھی اس کشمیری تہذیبی میراث کو بچا نہ سکا۔ٹوپی کا وجود صرف برصغیر میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں کسی نہ کسی صورت میں پایا جاتا ہے ۔انگریزوں کے ہاں فلیٹ ،پی کیپ اور ہیٹ بڑی مقبولیت رکھتے ہیں ۔حتیٰ کے یہودی بھی ایک خاص قسم کی ٹوپی جسے عبرانی زبان میں”کپاہ“کہتے ہیں پہنتے ہیں۔”کپاہ“کے نام سے پہچانی جانے والی رنگین ٹوپیاں مغربی کنارے کے شہر دیر ابومشعل کی سینکڑوں خواتین کا ذریعہ معاش ہیں۔یہ خواتین گزشتہ چالیس برسوں سے ٹوپیاں بناتی چلی آرہی ہیں ۔رام اللہ کے مغرب میں واقع تین ہزار نفوس پر مشتمل ہر گھر میں یہودیوں کے لیے ”کپاہ“تیار ہوتی ہیں۔یہ ایک معاشرتی سرگرمی کے علاوہ متعدد خاندانوں کا ذریعہ معاش ہے ۔خواتین ٹوپیاں تیار کرنے کے لیے اون اور کروشیے کی سوئیاں لیکر ایک دوسرے کے گھروں میں جاتی ہیں کروشیا بنتے ہوئے وہ باہمی گپ شپ سے دل بہلاتی ہیں ۔یہ خواتین ایک دن میں اوسطاً پانچ ٹوپیاں بن لیتی ہیں ،ہر ٹوپی کی قیمت تین ڈالر ہوتی ہے ۔ایسی ٹوپیوں کے اچھے فلسطینی تاجر ان خواتین سمیت گرد ونواح کے دیہات میں اون ،کروشیے ،سوئیاں اور ڈیزائن تقسیم کرتے ہیں۔تیار کردہ مصنوعات کو ہر ہفتے جمع کر کے اسرائیل پرچون فروشوں کو بھیجا جاتا ہے ۔یہ سکل کیپ امریکا بھی برآمد کی جاتی ہیں ۔دیر ابو مشعل گاﺅں میں کروشیے کی سکل کیپ بُننے والی خواتین کا کہنا ہے کہ وہ یہ کام محض ایک کاروبار کے طور پر کرتی ہیں ۔اس سے ان کے مذہبی عقیدے کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔وہ اس کام کو آسان اس لیے سمجھتی ہیں کہ اس میں سفر نہیں کرنا پڑتا۔انڈونیشنز میں بھی ٹوپی رواج پکڑتی جا رہی ہے ۔انڈونیشیا میں کپڑے سے ایک ٹوپی بنائی جاتی ہے جسے مقامی زبان میں بلینگ کون کہا جاتا ہے ۔نوجوان نسل میں اس روایتی ٹوپی کے پہننے کے رحجان میں اضافہ ہو اہے جس کے بعد ملک بھر میں ان ٹوپیوں کی مانگ بڑھ گئی ہے ۔دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا میں ماہ رمضان میں ہر طرف ٹوپیوں کی بہار آجا تی ہے ،نوجوان اور بزرگ شہری سر ڈھانپ کر رکھتے ہیں ۔بلینگ کون کا کاروبار کرنے والے باسٹھ سالہ راہار جو کا کہناہے کہ اس روایتی ٹوپی کو بنانے میں خاصی محنت صرف ہوتی ہے کیونکہ یہ انتہائی نازک اور نفیس کام ہے ۔انہوں نے بلینگ کون بنانے کے لیے اپنے کارخانے میں پانچ ملازم رکھے ہوئے ہیں جو ہفتے میں پانچ دن کام کرتے ہیں اور یومیہ درجن سے زائد ٹوپیاں بناتے ہیں ۔مارکیٹ میں ان ٹوپیوں کی قیمت سات سے چوبیس ڈالر تک ہے ۔مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی ٹوپیوں کے دلدادہ ہیں ۔

برطانیہ کے وزیراعظم گورڈن براؤن کی اہلیہ سارہ براؤن اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر ان دنوں اون کی ٹوپیاں بننے میں مصروف ہیں جس کا مقصد ہیلپ دی ایج اور ایج کنسرن کے لئے فنڈز جمع کرنا ہے۔ اس مہم کے تحت اب تک چھ لاکھ پونڈ جمع کئے جا چکے ہیں۔ ماضی کی کئی اہم شخصیات ٹوپی کے کاروبار سے منسلک رہ چکی ہیں۔ فقہ کے معتبر عالم امام احمدبن حنبل رحمتہ اﷲ علیہ کا ذریعہ معاش ٹوپیاں فروخت کرنا تھا اسی طرح اورنگزیب عالمگیر بھی کتابیں لکھ کر اور ٹوپیاں فروخت کرکے اپنا گز ر اوقات کرتے تھے۔ٹوپی جہاں مذہبی علامت اور علاقائی رواج ہے وہیں طبی حوالے سے بھی مفید ہے۔ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ٹوپی پہننے سے دماغی کمزوری واقع نہیں ہوتی ۔ آج کل تو سائنسدان ٹوپی پر نت نئے تجربات کر رہے ہیں ۔سلیمانی ٹوپی کے متلاشیوں کے لیے یہ خبر یقینا خوش کن ہو گی کہ آسٹریلوی سائنس دان ایسی بقراطی ٹوپی بنا رہے ہیں جس کے پہننے والے کی چھپی ہوئی ذہنی صلاحیتیں اجاگر ہو جائیں گی۔اس ٹوپی کے اندر ایسے الیکٹرانک آلات نصب ہیں جو ذہن میں بعض حصوں کو بند اور دوسروں کو ’آن‘کر سکتے ہیں۔ ممکنہ طور پر انسان ایسی ٹوپی پہن کر زیادہ ذہین اور تخلیقی ہو سکتا ہے۔ آسٹریلیا کی یونی ورسٹی آف سڈنی کے پروفیسر ایلن سنائڈر اپنے ساتھی اِیلین ملکاہی کے ساتھ اس ٹوپی پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم سب میں ہر طرح کی صلاحیتیں خفیہ حالت میں موجود ہوتی ہیں لیکن ہمیں ان صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا طریقہ معلوم نہیں ہوتا۔ڈاکٹر سنائڈر نے اپنی تحقیق کا آغاز ایسے لوگوں سے کیا جو کسی ذہنی معذوری کا شکار ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی بعض ذہنی صلاحیتیں قابلِ رشک ہوتی ہیں۔ بظاہر ایسے افراد کے ذہنوں میں ایک حصہ دوسرے کی نسبت زیادہ غالب آ جاتا ہے۔سوچنے والی ٹوپی پر تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ ان اعلیٰ صلاحیتوں کو صرف ایسے موقعوں پر بروئے کار لایا جائے جب ان کی ضرورت ہو۔ ٹوپی کے اندر ننھے منے مقناطیس لگے ہوئے ہیں جو سوچ کی لہروں کو متاثر کر سکتے ہیں ڈاکٹر سنائڈر کی مقناطیسی ٹوپی کچھ اسی قسم کے اصول پر مبنی ہے۔ اس میں بٹن دبا کر ذہن کے مختلف حصوں کو جگایا یا سلایا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب بھی کسی کو کوئی مضمون لکھنا ہو اور یا کوئی تقریر کرنی ہو اور ذہن تخلیق کے لیے مائل نہ ہو رہا ہو تو وہ اتنا کرے کہ بس یہ ٹوپی پہن لے۔ ممکنہ طور پر فوراً تخلیق کے سوئے ہوئے سوتے پھوٹ پڑیں گے۔ڈاکٹر سنائڈر اور ایلین ملکاہی کی تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور ’بقراطی ٹوپی‘ کا قابلِ استعمال نمونہ سامنے آنے میں دیر ہے۔ پتا نہیں یہ ٹوپی وجو د پا سکے گی یا پھر سلیمانی ٹوپی کی طرح محض قصے کہانیوں اور کتابوں تک محدود رہے گی۔ویسے آج کل مسلمانوںکی ٹوپی ،سلیمانی ٹوپی جیسا کام کررہی ہے جو پہنتا ہے امریکہ بہادر کے اشارہ ابرو سے ایسا غائب ہوتا ہے کہ پھر گھر والے سپریم کورٹ کے باہر کھڑے ہو کرجناب چیف جسٹس سے اس کی بازیابی کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔یہ سلسلہ جسے عرف عام میں ٹوپی ڈرامہ کہتے ہیں امریکہ گزشتہ دس سال سے مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے ۔کل تک دنیا کے بیشتر حصوں میں ٹوپی پہننا عزت و تکریم کی علامت سمجھا جاتا تھا لیکن آج اسے صرف مسلمانوں کے ساتھ جوڑ کر دہشت گردی کی علامت بنا دیا گیا ہے ۔اس کے خلاف اس قدر پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ خد ا کی پناہ !حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹوپی کے خلاف جتنے حربے استعمال کیے گئے دنیا بھر میں اسلام قبول کرنے کے رحجان کی طرح ٹوپی پہننے میںبھی اضافہ ہو اہے ۔جس طرح دنیا کے بڑے بڑے سورمایہ تسلیم کر چکے ہیں کہ اسلام دہشت گردی کے بجائے امن و آشتی کا پیغام دیتاہے ۔اسی طرح کل انہیں اسی ٹوپی کی اہمیت کا احساس ہو گا کیونکہ کہ جب ”سر کے بال“ گرنے لگتے ہیں تو ٹوپی ہی کا سہار الیا جاتاہے اور حالات بتا رہے ہیں کہ ان کے ”بال “گرنا شروع ہو گئے ہیں۔ لہذا ان کے لیے اور سلیمانی ٹوپی کے خواہش مندافراد کے لیے مفت مشورہ ہے کہ وہ کسی بھی ممکنہ پریشانی سے بچنے اور بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے” نقالوں “سے ہوشیار رہتے ہوئے سلیمانی ٹوپی کے بجائے اسلامی ٹوپی ہی طلب کریں
 
Kashif Abbasi
About the Author: Kashif Abbasi Read More Articles by Kashif Abbasi: 13 Articles with 35915 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.