حضرتِ سیِّدُنا مالِک بن دینار
علیہ رحمۃ اللہ الغفار دمشق میں مُقِیم تھے اور حضرتِ سیِّدُنا امیر معاویہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تیار کردہ مسجد میں اِعْتِکاف کیا کرتے تھے ۔ایک
مرتبہ ان کے دل میں خیال آیا کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ مجھے اس
مسجد کا مُتَوَلِّی(یعنی انتظام سنبھالنے والا)بنا دیا جائے ۔ چنانچہ آپ نے
اعتکاف میں اضافہ کردیا اور اتنی کثرت سے نمازیں پڑھیں کہ ہمہ وقت نماز میں
مشغول دیکھے جاتے۔ لیکن کسی نے آپ کی طرف تَوَجُّہ نہیں کی۔ ایک سال اسی
طرح گزر گیا۔ ایک مرتبہ آپ مسجد سے باہر آئے تو ندائے غیبی آئی :''اے مالک
!تجھے اب توبہ کرنی چاہیے۔''یہ سن کر آپ کو ایک سال تک اپنی خود غرضانہ
عبادت پر شدید رنج و شرمندگی ہوئی اور آپ اپنے قلب کو رِیا سے خالی کر کے
خلوصِ نیت کے ساتھ ساری رات عبادت میں مشغول رہے ۔
صبح کے وقت مسجد کے دروازے پر لوگوں کاایک مجمع موجود تھا،اور لوگآپس میں
کہہ رہے تھے کہ'' مسجد کا انتظام ٹھیک نہیں ہے لہذا اسی شخص کو مُتَوَلِّی
بنا دیا جائے اور تمام انتظامی امور اس کے سپرد کر دیے جائیں ۔''سارا مجمع
اس بات پر متفق ہو کر آپ علیہ رحمۃ اللہ الغفارکے پاس پہنچا اور آپ کے نماز
سے فارغ ہونے کے بعدانہوں نے آپ سے عرض کی کہ''ہم باہمی طور پر کئے گئے
متفقہ فیصلے سے آپ کو مسجد کا مُتَوَلِّی بنانا چاہتے ہیں۔''آپ علیہ رحمۃ
اللہ الغفارنے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کی :''اے اللہ!میں ایک
سال تک ریا کارانہ عبادت میں اس لیے مشغول رہا کہ مجھے مسجد کی تَوَلِیت
حاصل ہو جائے مگر ایسا نہ ہوا اب جبکہ میں صِدْقِ دل سے تیری عبادت میں
مشغول ہوا تو تمام لوگ مجھے مُتَوَلِّی بنانے آ پہنچے اور میرے اوپر یہ بار
ڈالنا چاہتے ہیں،لیکن میں تیر ی عظمت کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نہ تو اب
تولیت قبول کروں گا اور نہ مسجد سے باہر نکلوں گا۔''یہ کہہ کر پھر عبادت
میں مشغول ہو گئے ۔
(تذکر ۃ الاولیاء،باب چہارم،ذکر مالک دینار رحمۃ اللہ ،ج ۱ ،ص ۴۸ ،۴۹)
اچھی اچھی نیّتوں سے متعلق رَہنمائی کیلئے ، امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ
مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکاتُہُمُ العالیہ کا سنّتوں بھرا
کیسٹ بیان ''نیّت کا پھل''اورنیتوں سے متعلق آپ کے مُرتّب کردہ کارڈ یا
پمفلٹ مکتبۃ المدینہ کی کسی بھی شاخ سے ھدیّۃًحاصِل فرمائیں۔ |