آڈٹ کی آڑ میں کلب و انتظامیہ پر
قبضہ آئین سے صریحاً انحراف ہے۔
گوجرانوالہ پریس کلب کے انتخابات بلا تاخیر کروائے جائیں۔ ورکر صحافیوں کا
مطالبہ
تحریر: آصف صدیقی
سکھوں کے دور حکومت میں پنجاب کا دارلخلافہ گوجرانوالہ صنعت و حرفت، تجارت،
زراعت کے حوالے سے منفرد اور انتہائی اہمیت کا حامل شہر ہے۔ یہاں فن
پہلوانی ، صحافت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کی نامور شخصیات نے جنم لیا۔ آج
بھی یہ ڈویژن کا صدر مقام اور ملک کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے یہاں سے ٹیکس
کی مد میں حاصل کئے جانے والے اربوں روپے سالانہ ملکی معیشت کے پہیہ کو
رواں دواں رکھنے میں معاون ہیں۔ یہاں چیمبر آف کامرس، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی
ایشن، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، ٹیکس لاء بار ایسوسی ایشن، گوجرانوالہ
چیمبر آف ایجوکیشن اور ایسے ہی کئی ایک دیگر ادارے انتہائی مثبت اور جمہوری
انداز میں اپنے اپنے شعبوں کی بہتری کیلئے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
بدقسمتی سے گوجرانوالہ میں شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کئی ایک دفعہ پریس
کلب کی عمارت ہونے کے باوجود باہمی اختلافات اور ایک دوسرے پر تنقید کرتے
ہوئے پریس کلب کی تنظیم کو جمہوری انداز میں چلانے میں بری طرح ناکام رہے
ہیں۔ انتہائی تکلیف دہ کردار کشی نہ صرف کلب کی چار دیواری کے اندر بلکہ شہ
سرخیاں اخبارات کی زینت ہیں۔ صحافت کی چند اکائیوں نے کچھ قبل عرصہ اقتدار
کو بانٹتے ہوئے چھ چھ ماہ پر محیط کردیا۔ یوں حافظ شاہد منیر صدر، شفقت
عمران جنرل سیکرٹری اور قاری محمد اشرف شاکر فنانس سیکرٹری نامزد کرکے کلب
کے انتظام و انصرام ان کے سپرد کردیا گیا۔ ان کی معاونت کیلئے سات رکنی
گورننگ باڈی بھی تشکیل دے دی گئی۔ چھ ماہ بعد معاہدے کی رو سے اقتدار کی
ھما طارق منیر بٹ گروپ کے سر بیٹھ گئی۔ یوں طارق منیر بٹ صدر، تنویر بٹ
جنرل سیکرٹری اور شاہد رسولنگری فنانس سیکرٹری بن گئے۔ حمایت و اختلاف کی
آندھی میں یہ مدت معیاد بھی پوری ہوگئی۔ گوجرانوالہ پریس کلب جو ایک رجسٹرڈ
ادارہ ہے کے آئین میں حقوق و فرائض متعین ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کی
پاسدرای کی جاتی اور جنوری 15 میں پریس کلب کے انتخابات کروائے جاتے۔ لیکن
برسراقتدار گروپ نے آئین سے صریحاً انحراف کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ جمائے
رکھا۔ اس غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی اقدام پر ورکر صحافیوں میں
تشویش پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ ورکر صحافیوں نے اپنے حقوق کی پاسداری کیلئے
پریس کلب کے انتخابات کی آواز اٹھائی تو یہ بات سامنے آئی کہ پریس کلب کی
سابقہ رجیم نے اپنے عرصہ اقتدار کے حسابات پیش کئے ہیں اور نہ ہی آڈٹ
کروایا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ نو منتخب صدر طارق منیر بٹ اور سابقہ صدر
شاہد منیر سے چارج سنبھالتے ہوئے حسابات لینے کے بعد ان کا آڈٹ کرواتے لیکن
مفاہمت، رواداری یا کمزوری کون سا پہلو آڑے آیا کہ اس اہم معاملے کو پس پشت
ڈال دیا گیا۔ حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو حسابات اور آڈٹ کا مطالبہ کسی
طور غیر مناسب نہیں، شاہد منیر سے طارق منیر تک کا حساب و آڈٹ ہر اصول پسند
صحافی کے دل کی آواز ہے۔ لیکن اس مسئلہ کو آڑ بنا کر پریس کلب کے انتخابات
کو التواء میں رکھنا کلب اور عہدوں پر قبضہ ورکر صحافیوں کے ساتھ زیادتی
اور پریس کلب کے آئین سے مذاق ہے۔ صحافیوں کے درمیان کشیدگی اور غیر جمہوری
طرز عمل پر عوامی، سماجی، سیاسی و مذہبی حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ
صحافت کے جیسے مقدس پیشہ سے تعلق رکھنے والے ہی اس کے تقدس کو پامال کریں
تو اس شعبہ کا احترام کون کریگا۔ حالات و واقعات کا تقاضا ہے کہ سنجیدہ
صحافتی شخصیات، عوامی نمائندگان اور ضلعی انتظامیہ افہام و تفہیم کی راہ
نکالیں اور پریس کلب کے انتخابات کو یقینی بنا کر نئے عہدیداران کو یہ ذمہ
داری سونپیں کہ وہ پریس کلب کے حسابات اور آڈٹ کرائیں اور بدعنوانی کے
مرتکب افراد سے لوٹی ہوئی رقم واپس لے کر انہیں آئندہ کلب کے کسی بھی عہدے
کیلئے نااہل قرار دے دیا جائے۔ صحافتی گروپوں کو ہٹ دھرمی کی بجائے بھائی
چارے کی فضا قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے جو وقت اور حالات کا
تقاضا ہے۔ |