پنجابی بھینسیں

ہم کئی خوبصورت روایات کی آمین قوم ہیں ،ہماری ان روایات نے ہر دور میں ہمیں ایک دوسرے سے جوڑ ے رکھا ہے جس کے باعث مشکل و تکلیف دہ حالات میں ہم ایک دوسرے کی طاقت بن پاتے ہیں بد قسمتی سے ریاست کے مشرق ومغرب کی جانب سے ملحق علاقے دو ممالک کی ثقافتی یلغار کی ذد میں ہیں ۔جس کی وجہ سے ہم اپنی کئی ایک روایات و اقدار سے محروم ہو رہے ہیں ،جو کہ ہماری قدیم ثقافت ،تہذیب و تمدن و روایات کے لئے بڑا خطرہ ہے ۔

گزشتہ دنوں راولاکوٹ ٹاؤن کے قرب میں واقع ایک گاؤں میں ایک شخص کے انتقال کے باعث سوگوار خاندان کے ہاں تعزیت کے لئے جانا ہوا ،وہاں یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ آج کی مصروف ترین زندگی کے باوجود لوگ ایک دوسرے کے غم میں شریک ہونے کے لئے وقت نکال لیتے ہیں اور ایسے مواقع پر جب مختلف علاقوں کے لوگ مل بیٹھتے ہیں تو دعا خیر کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست پر گفتگو کا ہونا لازمی امر ہے ۔ہم کوئی درجن بھر لوگ ایک کمرے میں بیٹھے تو ایک مدرس جو سرکار سے چھٹی لے کر دیار غیر میں ڈالر سمیٹ رہے تھے کے حوالے سے گفتگو کا آغاز ہوا ۔کہنے والافخر سے کہہ رہا تھا کہ وہ یہاں سینئر مدرس کے منصب پر فائز ہے اور محکمہ ھٰذاہ سے پانچ برس کی چھٹی لے کر جنوبی افریکہ گیا اور وہاں اچھا سیٹل ہے ۔اس کی باتیں سن کرمیں حیراں ہو رہاتھا جب کہ باقی لوگ اس بات کو معمولی بات سمجھ کر اسبات میں سر ہلا رہے تھے بات یہاں ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس نے کہا کہ وہ پانچ برس بعد آیا اور دس گیارہ ماہ پھر اسی مدرسے میں ڈیوٹی کی اور واپس چلا گیا اور اب اسے کل ملا کر گیارہ برس ہو چکے ہیں اور وہ آج بھی چھٹی پر ہے ۔اس دوران ایسا محسوس ہوا کہ شائد آج یہاں تعلیم جیسے اہم ملکی ایشو پر کچھ بات کر نے کا موقع ملے گا کیوں کہ مجھے پہلے سے احساس ہے کہ دیس کے اس حصے میں اہل اقتدار نے تعلیم جیسے مقدس شعبہ کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا ہے۔۔ ۔اس پر کچھ بات ہو سکے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا اور اس بات کے چلتے ہی موضوع تبدیل ہو گیا اور تمام معززین نے کمال مہارت سے پنجاب سے درآمد ہونے والی مختلف اقسام کی بھینسوں ،ان کی خوبیوں خامیوں کو موضوع بحث بنا ڈالا جس پر پر جوش گفتگو ہونے لگی اور میں نے خامشی میں ہی آفیت سمجھی ۔۔۔سوچا کہ جن لوگوں کی نظر میں تعلیم جیسے مقدس شعبہ کی یہ عزت و تکریم ہو کہ وہ اپنی نجی محافل میں تعلیم سے زیادہ بھینسوں کی پرورش ، خریدوفروخت کوفوقیت دیتے ہوں ان کے سامنے تعلیم کی اہمیت کی بات کرنا ’’بھینس کے آگے بین بجانے ‘‘کے مترادف ہوگا ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تعلیم جیسے مقدص شعبہ کے ساتھ چورسپاہی کا کھیل کھیلنے والے اس شخص کے کردار کی سرزنش کی جاتی۔۔۔مذمت کی جاتی ۔۔۔اسے برا سمجھا جاتا اور مصند اقتدار پر براجمان ظالموں کی سوچ پر ماتم کیا جاتا وہاں بیٹھے لوگوں نے اس عمل کو ایسے بیان کیا جیسے اس نے یہ کوئی’’فرض کفایہ‘‘ تھا تو ادا کر کے اس سوسائٹی پر احسان عظیم کیا اور پھر اپنی دانشمندانہ گفتگو کوبڑی باریک بینی اور دل جمی کے ساتھ پنجابی بھینسوں کی جانب موڑ کرمحفل کو مذید’’ چار چاند‘‘ لگا دئیے۔

محفل کے اختتام پر میں گھر تک پہنچتے سوچتا رہا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس محفل سے دو چیزیں واضع ہوتی ہیں ،ایک یہ کہ ہماری قدیم روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم کشمیری علم دوست قوم واقع ہوئے ہیں اور اس محفل میں تعلیم کے بارے میں جس دلچسپی کا مظائرہ ہوا سے ثابت ہوا ہے کہ وہ علم دوستی کس قدر باقی ہے ۔۔۔اور ہم آج کہاں کھڑے ہیں ۔۔۔ دوسرا یہ کہ ہماری اس قدیم علم دوست عظیم و مقدص روائت پر پنجاب سے درٓمد شدہ’’ بھینس ازم ’’نے پوری طرح سے غلبہ حاصل کر لیا ہے اور ہماری تہذیب پر پنجاب کے بیوپاری قابض ہو چکے ہیں ۔

کسی بھی علاقے میں ہونے والے عوامی اجتماع جہاں مختلف الخیال لوگ جمع ہوں ان کے درمیاں جو بھی موضوع زیر بحث ہوتا ہے وہ اس علاقے کے علمی ،نظریاتی شعور کا آئینہ دار ہوتا ہے اورسوسائٹی کا چہرہ بھی ۔۔۔ ماضی و حال کے تمام حکمران جنہوں نے ہر دور میں تعلیم جیسے مقدص اداروں کو محض اپنی سیاست گری کے لئے استعمال کیا اور ایک دور میں پرائمری کو مڈل اور مڈل کو ہائی کا درجہ دینے کا علان کر نے ،ان پڑھ اور انڈر میٹرک لوگوں کو سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر اس ادارے میں ایڈجسٹ کرواکر دادتحسین سمیٹتے اور اپنے حق میں نعرے لگواتے رہے اور جب اس سے بات نہ بنی تو گاؤں گاؤں یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجز کے علان کر کے خطہ کو مذید مشکل میں ڈال دیا،نتیجتاً اس اہم ترین شعبہ کا میعار زوال پذیر ہوا ،جس کے باعث انسانیت و اخلاقی اقدار بھی متاثر ہوئیں جنہوں نے سوسائٹی کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا اور ایسا ماحول بنا دیا کہ ہماری سول سوسائٹی تقریباًقریب المرگ ہے یا انتقال کر چکی ہے کیوں کہ اس کے زندہ ہونے کا کہیں کوئی وجود سرے سے نظر نہیں آتا اگر کہیں ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے حکمرانوں کی اس اہلیت کا ماتم منائے جس نے تعلیم کے شعبہ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے کرتے اس کا وہ حال کر دیا کہ آج کسی کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ جشن منائے یا اس کا ماتم کرے ۔۔۔کہ ہر زی شعور کو آج کے جدید دور میں اپنی آئندہ نسل کی تباہی صاف دکھائی دے رہی ہے ۔
Niaz Kashmiri
About the Author: Niaz Kashmiri Read More Articles by Niaz Kashmiri: 98 Articles with 82180 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.