احساس کیجیے
(Saeed Ullah Saeed, Sawat)
کراچی سے خیبر پختون خواہ کے شہر
سوات شفٹ ہوئے مہینے گزرگئے ، لیکن بدقسمتی سے اس عرصے میں کوئی کالم نہیں
لکھ سکا۔ اس پر میں نہ صرف ان تمام احباب کا جو میرے کالم نہ صرف پڑھتے ہیں
بلکہ وقتأٔ فوقتأٔ حوصلہ بھی بڑھاتے رہے ہیں معذرت خواہ ہوں بلکہ اپنے ان
محسن دوستوں سے بھی معذرت خواہ ہوں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ میرے ہاتھوں میں
قلم تھمایا بلکہ اس قلم کو چلانے کے لیے قدم قدم پر میری رہنمائی کرتے رہے
ہیں اور تاحال کررہے ہیں۔ ان محسنان میں جناب احمد ندیم اعوان اور انکی ٹیم
کے دیگر ارکان محترم محمد نعیم، فاروق اعظم اور جناب حفیظ خٹک بطورخاص شامل
ہے۔
میں چونکہ یمن کے حوالے سے پاکستانی پارلیمان کی مشترکہ اجلاس کے حوالے سے
لکھنے کا ارادہ کرچکا تھا ، لیکن بدھ 8 اپریل کو نماز مغرب کے وقت ایک بات
نے مجھے مجبور کردیا کہ میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی بجائے اس بات پر
لکھنے کی کوشش کروں جو بات آپ آگے ملاحظہ فرمائیں گے۔
8 اپریل کو مدنی مسجد واقع سید آباد گنبد میرہ، مینگورہ سوات میں مغرب کی
نماز کے بعد ایک شخص بھیگی آنکھوں اور کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ یوں گویا
ہوئے۔ ’’ اﷲ تعالی کے واسطے میرے ساتھ روٹی سالن کی مد میں کچھ تعاون کیجیے
تاکہ میں وہ روٹی سالن اپنے بچوں کو کھلا سکوں، میں ایک ٹھیلہ لگانے والا
آدمی ہوں اور آپ مجھے جانتے بھی ہے۔ لیکن میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہے کہ
میں دوا اورغذا دونوں کا انتظام کرسکوں،،۔ اتنا کہہ کر وہ شخص پیشہ ور
بھکاریوں کی طرح دروازے پر جاکر نہیں بیٹھا بلکہ انہوں نے آرام سے سنتیں
پڑھی اور سنتیں پڑھنے کے فوری بعد محلے کا ایک تندور والا اسے اپنے ساتھ
تندور پر لے گیا۔ یہ تو معلوم نہ ہوسکا کہ تندور والے نے اس کے ساتھ اور
کیا تعاون کیا ہوگا؟ لیکن اتنا ضرور ہوا کہ واپسی میں ان کے ہاتھوں میں
روٹیوں سے بھرا ایک شاپر موجود تھا، جس میں آٹھ،دس روٹیاں موجود تھیں۔
قارئین کرام! اس بندے کی کہانی ملاحظہ کرنے کے بعد آپ یقینآ سوچ رہے ہوں گے
کی آخر کن وجوہات کے بنا پر ایک صحت مند اور جوان آدمی نے لوگوں کے سامنے
دست سوال پھیلا یا۔ ان وجوہات کے بارے میں تو خیر میں آپ کو بتاوں گا ضرور
لیکن اس سے پہلے یہ بھی پڑھ لیجیے کہ آنے والے دنوں میں سوات کے مرکزی شہر
اور اس کے گرد و نواح میں اس قسم کے واقعات اور بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
لیکن کیوں مل سکتے ہیں تو آئیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قدرتی حسن سے مالامال وادی سوات اپنی خوب صورتی کے بنا پر پاکستان کا
سوئٹزرلینڈ کہلاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال بڑی تعداد میں ملکی اور غیر
ملکی سیاح اس وادی کا رخ کرتے ہیں اور یہاں کے خوب صورت قدرتی مناظر سے لطف
اندوز ہوتے ہیں لیکن اس خوبصورت علاقے کے باسیوں کو ہمیشہ سے ایک مسئلے کا
سامنا رہا ہے اور وہ مسئلہ ہے روزگار کا۔ یہاں روزگار کے ذرائع اتنے نہیں
ہے جتنے کہ ہونے چاہئیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر اور اس علاقے کے لوگ
دوسرے شہروں یا پھر وطن عزیز سے کوسوں دور دیار غیر میں محنت مزدوری کرنے
پر مجبور ہوتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو یا وہ لوگ جو بڑے پیمانے پر
کاروبار کررہے ہیں ان کو چھوڑ کر دیگر لوگ جو سوات شہر میں محنت مزدوری
کرکے اپنے اہل و عیال کے لیے دو وقت کی روزی کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے
پاس دو آپشنز ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اگر ان کے پاس کچھ روپیہ پیسہ ہے تو اس
سے ایک رکشہ لے لیں اور اسے چلاتا رہے۔ دوسرا یہ کہ اگر کوئی شخص رکشہ
خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ ’’ جو کہ لوگوں کی بڑی تعداد نہیں رکھتا ‘‘
تو وہ کرایہ پر ایک ٹھیلہ لے کر اس پر پھل یا سبزی لگائے اور اسے فروخت
کرکیااپنے اہل و عیال کی پرورش کرتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کے محنت
کش ان دو ذرائع سے اپنے خاندان کی کفالت کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں پر کسی نہ
کسی شکل میں چھوٹے پیمانے پر انڈسڑی بھی موجود ہے۔ لیکن ان کارخانوں میں
لیبر کا جو استحصال کیا جاتا ہے اس کے لیے ایک الگ کالم لکھنے کی ضرورت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک عام آدمی کسی کارخانے میں کام کرنے کی بجائے ٹھیلہ لگانے
کو ترجیح دیتا ہے۔ لیکن ان دنوں سوات کا وہ محنت کش جو ٹھیلے کے کام سے
وابستہ تھا ، عجیب کشمکش کا شکار ہے۔ اسے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ آخر کرے تو
کرے کیا ۔ کیوں کہ ان کاروبار ختم اور پریشانیوں کا دور شروع ہوچکا ہے۔ ان
محنت کشوں کا روزگار ختم کیوں اور کیسے ہوا ؟ ملاحظہ فرمائیں!
ضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ اور اسکے قریبی بازاریں یہاں کے بڑی تجارتیں
مراکز میں سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علی الصبح سے لے کر شام تک یہاں گہما گہمی
کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے سوات شہر کا مرکزی سڑک جو کہ ڈاک خانہ روڈ
سے شروع ہوکر رحیم آباد تک جاتی ہے اتنی کشادہ نہیں ہے کہ وہ بیک وقت
گاڑیوں، پیدل چلنے والوں اور ٹھیلے والوں کا بوجھ برداشت کرسکے۔اسی بناپر
یہاں اکثر ٹریفک جام رہتی ہے۔
آج سے تقریبآ ڈیڑھ دو مہینے پہلے یہاں کے ضلعی انتظامیہ نے مختلف سڑکوں پر
سے تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشن کا آغاز کیا۔ اس آپریشن کے زد میں سب سے
پہلے وہ ٹھیلہ لگاکر محنت کرنے والے مزدور آئے ، اور یوں ان کا کاروبار ختم
ہوکر رہ گیا۔
تجاوزات کیسے بھی ہوں اور کہیں بھی ہو یہ کسی بھی شہر کے سڑکوں اور بازاروں
میں ایک بدنما داغ کی سی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے خاتمے کی جو بھی کوشش
ہوتی ہے اس کوشش کی بلاوجہ مخالفت کوئی بھی باشعور شخص یا مہذب معاشرہ نہیں
کرسکتا۔ اسی بنا پر سوات میں تجاوزات کے خلاف جو آپریشن ہورہا ہے اس کالم
کا مقصد ہرگز اور ہرگز اس کی مخالفت یا اس پر تنقید کرنا نہیں۔ لیکن اس
کالم کا مقسد اتنا ضرور ہے کہ سوات کے ضلعی انتظامیہ اور پاکستان تحریک
انصاف کے صوبائی قیادت کی توجہ اس اہم مسئلے کی طرف دلائے جن سے آج کل سوات
کے مزدور طبقہ پریشان ہے ۔ جیسا کہ اس کالم میں عرض کیا جاچکا ہے کہ سوات
میں عوام کی ایک بڑی تعداد ٹھیلہ لگاکر اس پر پھل سبزیاں فروخت کرکے اس سے
اپنے خاندانون کی معاشی ضروریات کو پورا کرتے تھے۔ اب چونکہ سوات میں
تجاوزات کے خلاف آپریشن کے بعد مذکورہ طبقہ کام سے محروم ہوچکاہے۔ اور اب
ان کے گھروں میں پریشانیوں کا دور دورا ہے۔ جس کی ایک مثال ہم مدنی مسجد
میں دیکھ چکے ہیں۔ اور نہ جانے آگے یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا ۔اس لیے اس
سلسلے کو یہی پر روکنے کے لیے یہاں کے ضلعی انتظامیہ اور پی ٹی آئی کے
مقامی و صوبائی قیادت کو آگے بڑھتے ہوئے ان محنت کشوں کا سہارا بننا
ہوگا۔اور اس کے لیے میرے خیال میں سب سے اہم کام یہ ہوگا کہ ان لوگون کو
ایسے مختلف جگہوں پر کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ جہاں ان کا کام بھی چلتا
رہے اور عام عوام پریشانی سے بھی بچے رہے۔ اگر دل میں درد ہو تو ایسے جگہون
کی تلاش یقینآ کوئی مشکل کام نہیں۔
آخر میں ایک اہم بات یہ کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے اس
مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہ کی تو عین ممکن ہے کہ آنے والے بلدیاتی
انتخابات میں نتائج ان کے حق میں اتنے بہتر نہ ہو جتنا کہ وہ توقع لگائے
بیٹھے ہے۔ |
|