حضرت مولانا یوسف کاندھلوی ؒ
اپنے تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں
حضرت عمر بن خطاب ؓ کو اہل کتاب سے ایک کتاب ملی وہ اس لے کر نبی کریم ؐ کی
خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اﷲؐ ! مجھے اہل کتاب سے ایک بہت
اچھی کتاب ملی ہے ۔یہ سنتے ہی حضورؐ کو غصہ آگیا اور فرمایا اے ابن الخطاب
کیا تم ابھی تک اسلام کے امور کے بارے میں حیران و پریشان ہو ؟اس ذات کی
قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں تمہارے پاس ایسی ملت لے کر آیا ہوں جو
بالکل واضح اور صاف ستھری ہے تم اہل کتاب سے کچھ نہ پوچھو کیونکہ ہو سکتا
ہے کہ وہ جواب میں تمہیں حق بات کہہ دیں اور تم اسے جھٹلا دو یا وہ غلط بات
کہہ دیں اور تم اسے سچا مان لو ( ان کے ہاں حق اور باطل آپس میں ملا ہوا ہے
) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر حضرت موسی ؑ زندہ ہوتے تو
ان کو بھی میرا ہی اتباع کرنا پڑا ( اس کے علاوہ ان کے لیے بھی کامیابی اور
کوئی راستہ نہ ہوتا ) ۔
قارئین آج کے کالم کا عنوان دیکھ کر آ پ نے یقینا یہ سوچا ہو گا کہ آج
انصار نامہ نہ جانے کون سے الزامات کا پنڈورا باکس لے کر اخبار میں چھپا ہے
ہمارے وہ دوست جو روز اول سے ہماری تحریریں پڑھتے رہتے ہیں وہ ایک بات اچھی
طرح جانتے ہیں کہ ہم بغیر کسی لگی لپٹی کے جس چیز کو اپنے تئیں درست سمجھتے
ہیں ہم وہ کہہ دیتے ہیں اظہار کے سلسلے میں ہمیں چاہے ’’ بدو ‘‘ کہہ دیجئے
یا چاہے کسی اور لقب سے نواز دیجئے ہم بغیر کسی الجھاؤ کے سیدھی بات کرنے
اور سننے کے قائل ہیں ویسے بھی ہمیں ہمارے رب نے یہ حکم دے رکھا ہے ’’ کہ
اے ایمان والو سیدھی بات کیا کرو‘‘ ایک وقت تھا کہ جب ہم نے یہ سمجھا کہ
آزادکشمیر کے تینوں میڈیکل کالجز کا وجود شدید ترین خطرے میں آچکا ہے تو ہم
اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر قلم کو تلوار بنا کر میدان میں نکل آئے تھے اس
کی وجہ یہ بنی تھی کہ آزادکشمیر کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی انتھک
کاوشوں سے بننے والے محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل کالج میرپور کے پرنسپل
پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کو اس طریقے سے کالج کی پرنسپل شپ سے فارغ
کیا گیا کہ جیسے کسی سرکاری محکمے سے ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کے ملازم یا
چپڑاسی کو بھی نوکری سے نہیں نکالا جاتا ہم اس بات پر سراپا احتجاج بنے اور
ہم نے صرف دو نکات فیصلہ ساز قوتوں کے سامنے رکھے کہ اگر تو پرنسپل میڈیکل
کالج پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید نے کچھ ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے جو
ناقابل معافی ہیں تو مہربانی فرما کر ان جرائم کی ایک خوبصورت سی ’’ چارج
شیٹ ‘‘ بنا کر تمام کشمیری عوام کے سامنے رکھ دی جائے اور اس کے بعد
پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کر کے ان سے باز
پرس کی جائے اور اگر ایسا نہیں ہے او ر انہیں صرف پی ایم ڈی سی میں حکمرانی
کا خواب دیکھنے والے سابق صدر پاکستان ’’کھپے والی سرکار ‘‘ جناب آصف علی
زرداری کے قریبی ترین دوست ڈاکٹر عاصم کی ’’فرمائش اور شکایت ‘‘ کے نتیجے
میں پرنسپل کے عہدے سے ہٹایا گیا ہے تو یہ انتہا درجے کی زیادتی ہے اور ہم
اس پر اپنا احتجاج جاری رکھیں گے او راس وقت تک خاموش نہیں بیٹھیں گے جب
پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کو بحال نہیں کر دیا جاتا۔
قارئین جب اس سلسلے میں ہم نے جدوجہد شروع کی تو ہم آپ کو بتانے سے قاصر
ہیں کہ کون کون سی مشکلات ہمارے سامنے آئیں اور کن کن ’’ سیاسی گدیوں اور
انتظامی افسروں ‘‘ کی جانب سے راقم کو ’’ بندے دا پتر ‘‘ بنانے کی دھمکیاں
موصول ہوئیں انسانی اور ایمانی کمزوری کی وجہ سے کئی موقعے ایسے آئے کہ ہم
بُری طرح خوفزدہ ہو کر یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ایمان کے دوسرے درجے کی
پیروی چھوڑ کر ایمان کے تیسرے درجے کی طر ف چلے جائیں اور ظلم اور گناہ کو
دل ہی دل میں بُرا سمجھنا شروع کر دیں اور زبان اور ہاتھ سے بُرائی کو
روکنے کی کوشش ترک کر دیں کیونکہ اس میں جان جانے کا خطرہ بھی ہے لیکن
ہمارے نیک والدین کی دعائیں ہمارے ساتھ رہیں اور اﷲ نے ہمیں استقامت کی
برکت سے مالامال کر دیا اس موقع پر ہمارے بزرگ محسن اور شفیق دوست حاجی
محمد سلیم بانی ادارہ کشمیر امراض قلب بھی ہمارے حوصلہ بڑھاتے رہے اور ان
کے بیٹے رافع سلیم نے بھی ہماری ہر طرح سے مدد کی اﷲ اﷲ کر کے برطرف شدہ
پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کو بحال کر دیا گیا اور پی ایم ڈی سی
کی طرف سے محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل کالج میرپور کے سر پر لٹکنے والی
تلوار ہٹ گئی اور پی ایم ڈی سی نے داخلوں پر عائد پابندی ہٹا کر میڈیکل
کالج کو سکھ کا سانس لینے کا موقع دیا یہ وقت بہت مشکل وقت تھا ہم پرنسپل
ڈاکٹر میاں عبدالرشید کی بحالی کی شام ان کے اعزاز میں استقبال کرنے والے
سینکڑوں طلباء وطالبات اور کالج کے اساتذہ کے ہمراہ موجود تھے اور ہماری
بھرپور رہنمائی کرنے والے دو دوست چوہدری محمد شکیل اسٹیشن ڈائریکٹر ایف
ایم 93ریڈیو آزادکشمیر اور ڈاکٹر طارق مغل بھی ہمارے ساتھ موجود تھے ہم نے
سینکڑوں میڈیکل سٹوڈنٹس اور ڈاکٹرز کی موجودگی میں آزادکشمیر کے پہلے ویب
ٹی وی چینل کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی کے لیے پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کا
ایک خصوصی انٹر ویو ریکارڈ کیا اور اس انٹرویو میں انہیں براہ راست مخاطب
کرتے ہوئے کہا کہ راقم اور راقم کے تمام دوست انتہائی ایمانداری اور
دیانتداری سے یہ سمجھتے تھے کہ آپ کے ساتھ زیادتی کی گئی اور اس زیادتی کے
نتیجہ میں پورے پاکستان سے میرپور میڈیکل کالج میں آنے والے پروفیسرز اور
دیگر اساتذہ میں عدم اطمینان کی لہر سے یہ دکھائی دے رہا تھا کہ میڈیکل
کالج کی تمام فیکلٹی اس کالج کو چھوڑ دے گی اور پی ایم ڈی سی ہمیشہ کے لیے
اس کالج کو بند کر دے گی اس لیے ہم نے آپ کا بھرپور ساتھ دیا لیکن اگر کل
ہم نے یہ محسوس کیا کہ آپ پر لگائے جانے والے مخالفین اور ناقدین کے
الزامات درست ہیں تو ہماری دوستی دشمنی میں تبدیل ہو جائے گی اور جس محنت
کے ساتھ ہم نے آپ کو بحال کرانے کی تحریک شروع کر کے اﷲ کی مدد سے اس میں
کامیابی حاصل کی ہے ہماری جدوجہد کا رخ تبدیل ہو جائے گا اور ہماری دوستی
دشمنی میں تبدیل ہو سکتی ہے ہم نے میاں عبدالرشید پرنسپل میڈیکل کالج سے یہ
بھی کہا کہ میڈیکل کالج میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کا تعلیمی معیار دو
حصوں پر مشتمل ہے ایک حصے میں انہیں کتابی علم دیا جاتا ہے اور دوسرے حصے
میں یہ میڈیکل سٹوڈنٹس ٹیچنگ ہسپتال میں جا کر مریضوں کے ساتھ کھڑے ہو کر
پروفیسر صاحبان کی موجودگی میں امراض کی تشخیص اور علاج کی عملی تربیت حاصل
کرتے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ یہ دونوں مراحل اس خوش اسلوبی سے طے
کرینگے کہ آخر میں میڈیکل کالج سے پاس آؤٹ ہونے والے طلبا ء و طالبات ایک
پروفیشنل اور ذمہ دار ڈاکٹر کی حیثیت سے ہاؤس جاب کرنے کے بعد عملی زندگی
میں قدم رکھ کر دکھی انسانیت کے درد کا مداوا کرینگے سینکڑوں طلباء و
طالبات اور ڈاکٹر ز کی موجودگی میں پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید نے
وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کرینگے آج ہم انتہائی افسوس کے ساتھ تمام کشمیری
دوستوں کے سامنے اعلان کر رہے ہیں کہ پرنسپل محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل
کالج پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید اپنے اس وعدے کو نبھانے میں بُری طرح
ناکام رہے ان کی اس ناکامی کی وجوہات ہم آج آپ کے سامنے لے کر آ رہے ہیں آج
ہمارا دل بہت افسردہ ہے ہمیں یوں لگتا ہے کہ ہماری کوئی انتہائی قیمتی متاع
لٹ گئی ہے اور ہم سرِ بازار ننگے ہو گئے ہیں ہمیں یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم
نے جھوٹ اور باطل کو فتح یاب کرنے کے لیے تمام محنت کی تھی اور اصل حقیقت
کچھ اور تھی آج ہم اس ندامت کے اظہا رکر رہے ہیں کہ ہم کشمیری قوم کے لیے
صحت کی جو سہولیات کشمیر کے اندر دیکھنا چاہتے تھے ہم وہ حاصل کرنے میں
ناکام ہو گئے ہیں ۔بقول چچا غالب ہم یہاں یہ کہتے چلیں
ابن مریم ہو ا کر ے کو ئی
میرے دکھ کی دوا کر ے کو ئی
شرع و آئین پرمدارسہی
ایسے قاتل کا کیا کر ے کو ئی
چال جیسے کڑی کما ں تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کو ئی
با ت پر واں زبا ن کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کر ے کو ئی
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کر ے کو ئی
نہ سنو ،گر براکہے کو ئی
نہ کہو گر برا کر ے کو ئی
روک لو گر غلط چلے کو ئی
بخش دو گر خطا کر ے کو ئی
کو ن ہے جو نہیں ہے حا جتمند
کس کی حا جت رواکر ے کو ئی
کیا کیا خضر نے سکندر ہے ؟
اب کسے رہنما کر ے کو ئی
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کر ے کو ئی
قارئین اس وقت میڈیکل کالجز انتہائی خطرناک سٹیج پر کھڑے ہیں مظفرآباد
میڈیکل کالج اور راولاکوٹ میڈیکل کالج میں میڈیکل فیکلٹی نامکمل ہے اور
باوجود شدید کوششوں کے وہاں پر استحکام پیدا نہیں ہو رہا مظفرآباد میڈیکل
کالج کے پہلے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر اقبال اور دوسرے پرنسپل پروفیسر ظہیر
داغ مفارقت دے چکے ہیں اور اسی طرح راولاکوٹ میڈیکل کالج کے پرنسپل صاحب کی
کوششوں کے باوجود وہاں پر فیکلٹی مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہی خیر ہم ان
دونوں میڈیکل کالجز کی بات اگلے کالم میں کرینگے لیکن یہاں محترمہ بے نظیر
بھٹو میڈیکل کالج میرپور کی انتہائی الجھی ہوئی صورتحال کی طرف کچھ اشارے
فیصلہ ساز قوتوں کو دیئے دیتے ہیں پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید اور
منسلک ٹیچنگ ہسپتال ڈویژن ہیڈ کوارٹر ہسپتال میرپور میں کسی بھی قسم کی
ورکنگ ریلیشن شپ چار سال گزرنے کے باوجود نہیں بن سکی پہلے اس کا الزام
ریٹائر ہونے والے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر مشتاق چوہدری کو دیا جاتا تھا کہ
وہ کالج کے انتہائی پڑھے لکھے پروفیسرز کو نا تو پریکٹس کرنے کے لیے مناسب
چیمبر مہیا کر رہے ہیں اور نہ ہی دیگر سہولیات دے رہے ہیں جس کی وجہ سے چار
لاکھ روپے سے لیکر سوا چار لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ حاصل کرنے والے
پروفیسرز نا تو او پی ڈی کے اندر مریضوں کا معائنہ کر رہے تھے اور نہ ہی ان
ڈور سیٹ اپ میں میڈیکل کالج کے طلباء و طالبات کو عملی طبی تعلیم دے رہے
تھے جب کہ دوسرے مکتبہ فکر کا یہ الزام تھا کہ میڈیکل کالج کی فیکلٹی میں
شامل اکثر پروفیسرزاور دیگر ڈاکٹرز پروفیسر ڈاکٹر میاں عبدالرشید کو بلیک
میل کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا کام کرنے کے لیے تیار نہ تھے ہم اس بحث میں
نہیں پڑتے کہ وجہ کیا بنی لیکن آج صورتحال اتنی گھمبیر ہو چکی ہے کہ میڈیکل
کالج میں پڑھنے والے طلبا و طالبات کو وہ مناسب ماحول اور تربیت فراہم نہیں
کی جا رہی کہ جو کسی بھی اعلیٰ درجے کے میڈیکل کالج میں مہیا کی جاتی ہے اس
میں ان طلباء وطالبات کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن احتساب کے کٹہرے میں اس
وقت پروفیسر ڈاکٹرمیاں عبدالرشید اور ان کی میڈیکل فیکلٹی کے پروفیسرز اور
ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے منتظمین کھڑے ہیں اگر وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید اور دیگر تمام فیصلہ ساز قوتوں نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو ہمیں
یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آزادکشمیر کے میڈیکل کالجز سے انسانیت کی
خدمت کرنے ڈاکٹر ز کی بجائے ایسے غیر تربیت یافتہ بچوں کو سوسائٹی میں
ڈاکٹر بنا کر بھیج دیا جائے گا جو زندگی کی روشنی تقسیم کرنے کے بجائے شاید
موت کی سوداگری کا کام شروع کر دینگے اس کی تمام تر ذمہ داری’’ کالی کاہل
بھیڑوں ‘‘ اور ریاست کے سر ہو گی آج کا کالم اس سیریز کا پہلا کالم ہے بہت
جلد دیگر حقائق بھی پڑھنے والوں کی نذر کرینگے ۔آخر میں حسب روایت لطیفہ
پیش خدمت ہے
بیوی نے شوہر سے لاڈ سے پوچھا
’’اگر میں مر گئی تو کیا کرو گے ‘‘
شوہر نے جواب دیا
’’ میں پاگل ہو جاؤنگا ‘‘
بیوی نے کہا
’’ نہیں مجھے پتہ ہے تم دوسری شادی کر لو گے ‘‘
شوہر نے سنجیدگی سے جواب دیا
’’ تمہارے غم میں اتنا بھی زیادہ پاگل نہیں ہونگا کہ دوسری شادی کا خطرہ
مول لوں ‘‘
قارئین غم کی کیفیت میں ہم نے جو بھی باتیں لکھی ہیں وہ سچ ہیں ہم چاہتے
ہیں کہ کشمیر سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے والے تمام میڈیکل سٹوڈنٹس
پوری دنیا میں ہمارے وطن کا نام روشن کریں ہم اس منزل کے حصول کے لیے سر پر
کفن باندھ پر دوبارہ میدان میں اتر آئے ہیں اور انشاء اﷲ کسی کی بھی دوستی
یا دشمنی ہمیں حق کے راستے سے نہیں ہٹا سکتی ۔اﷲ ہم سب کے حال پر رحم کرے
آمین ۔ |