اتّر پردیش پولیس
(Shamim Iqbal Khan, India)
پولیس کا وجود ہرزمانے کے حکمراں
کے یہاں پایا جاتا ہے یہ ایک الگ بات ہے کہ پولیس کی جگہ پر کوئی اور نام
رائج رہا ہو۔ مثال کے طور پر حضرت عمرؓکے دور خلافت میں فوجداری سے متعلق
مقدمات مثلاً زنا اور سرقہ قاضی کے یہاں فیصل ہوتے تھے لیکن اس سلسلہ کی
ابتدائی کارروائیاں پولیس ہی کرتی تھی۔پولیس کا محکمہ مستقل طور پر قائم ہو
گیا تھا اور اُس وقت پولیس کا نام’احداث‘ تھا اور پولیس کے افسران کو ’صاحب
الاحداث‘ کہا جاتا تھا۔
اِس زمانے میں محکمے الگ الگ سربراہوں کے حساب سے بٹے ہوئے تھے۔مثال کے طور
پر تحصیل مالگذاری کی خدمت قدامہ اور حضرت ابو ہریرہؓ کو تصریح کے ساتھ
پولیس کے اختیارات دیے گئے تھے۔احتساب کے متعلق جو کام ہیں مثلاً دوکاندار
ترازو میں دھوکہ نہ دینے پائیں کوئی شخص سڑک پر مکان نہ بنائے، جانوروں پر
زیادہ بوجھ نہ لادا جائے، شراب علانیہ نہ بکنے پائے۔ حضرت عمرؓ نے بازار کی
نگرانی کے لیے عبداﷲ بن غنبہ کو مقرر کیا تھا وغیر ہ ۔
جلا وطنی کی سزا بھی حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں دی گئی۔ ابومحجن کو حضرت
عمرؓ نے یہ سزا دی تھی اور ایک جزیرہ میں بھیج دیا گیا تھا۔عرب میں قیدیوں
کے رکھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی اس لیے سزائیں سخت ہوا کرتی تھیں۔حضرت عمر ؓ
نے پہلی مرتبہ قیدیوں کے رہنے کے لیے جیل کی تعمیر کرائی تھی۔ (الفاروق
ص۲۲۵،۲۲۶)
اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤمیں ۵؍جنوری۲۰۱۴ء سے لیکر ۱۹؍مارچ۲۰۱۴ء تک
یعنی ۷۴؍ ددنوں میں۲۴؍ قتل ہوئے۔صرف قتل ہی کیا ہر جرم اسی رفتار سے ہو رہے
ہیں اور یہ رفتاراس وقت تک بڑھتی رہے گی جب تک تھانوں پر کسی مجرم کی
گرفتاری کے بعد اس کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ہر پارٹی کا نیتا اپنی
اپنی پارٹی کی ٹوپی لگا کرپہنچتا رہے گا اور بے گناہی کے ثبوت میں ’نوٹ‘
پیش کرتا رہے گا۔ کسی بھی جرم پر سیاست قطعاً بند ہونی چاہئے بلکہ سیاسی
لوگوں کا داخلہ تھانہ حدود میں ممنوع ہونا چاہئے۔ اگر سیاسی دباؤ نہ ہو تو
کافی سدھار ہو سکتا ہے۔
انصاف کا مندر کہی جانے والی عدالتوں کا یہ حال ہے کہ فائلیں غائب ہیں،
ملزمان آزاد ٹہل رہے ہیں،مظلوم انصاف کے لیے ایڑیاں رگڑ رہا ہے لیکن انصاف
انسان کو نہیں ملے گا، ’کالے ہرن‘ کو ضرورمل جائے گا۔
یہ کہتا ہے رورو کے انصاف کا خوں
عدالت میں بھی دھاندلی، توبہ توبہ
(شوقؔبہرائچی)
صوبہ اتر پردیش دوسرے صوبوں سے بڑا ہے اس لیے یہاں سرکاری محکمے بھی اُسی
مناسبت سے بڑے ہیں۔ مثال کے طور پر پولیس کا محکمہ لے لیجئے، اسے کے سربراہ
ڈائرکٹر جنرل آف پولیس ہوتے ہیں۔ان کے ماتحت ۲۳؍ ذیلی ادارے ہیں جس کا
سربراہ ڈی․جی․یا اے․ڈی․جی․ہوتا ہے ۔اتر پردیش کو ’سِوِل پولیس‘کے تحت آٹھ
زون (میرٹھ، بریلی، آگرا، کانپور، الہ آباد، لکھنؤ، گورکھپور اور وارانسی)
اور اٹھارہ رینج (سہارنپور، میرٹھ، مراد آباد، بریلی، آگرا، علی گڑھ،
کانپور، جھانسی، الہ آباد، چتر کوٹ دھام، لکھنؤ، فیض آباد، دیوی پاٹن، بستی،
گورکھپور، اعظم گڑھ، وارانسی اور مرزاپور) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ہر زون کا
انچارج آئی․جی․ہوتا ہے اور ہر رینج کا انچارج ڈی․آئی․جی․ ہوتا ہے۔
پچھلی چھٹی ساتویں دہائی تک اتر پر دیش پولیس میں صرف ایک آئی․جی․ ہوا کرتے
تھے،اس کے علاوہ سات رینج کے ڈی․آئی․جی․ ، ایک سی․آئی․ڈیـ کے ڈی․آئی․جی․،
ایک انٹلیجنس کے ڈی․آئی․جی․ اور ایک ڈی․آئی․جی․ پولیس ہیڈ کوارٹر ،الہ
آبادمیں ہوا کرتے تھے۔یہی چند اعلیٰ افسران صوبہ کا نظم سنبھالے ہوئے تھے۔
لیکن آج کے دور میں آبادی بہت تیزی سے بڑھی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ جرائم
کی رفتار بھی بڑھی ہے۔لیکن پولیس کی کارکردگی اور تفتیش کا گراف تیزی سے
نیچے گرا ہے حالا نکہ سائنسی وسائل سے لیس تفتیشی ایجنسیاں بھی کافی
ہیں۔اعلی افسران بھی تفتیش کے معا ملوں میں بھی سنجیدہ رہتے ہیں۔ اس کے با
وجود تفتیش کنندہ ’گڑ کو گوبر‘ اور ’گوبر کو گُڑ‘ کرتے رہتے ہیں۔اعلی
افسران اُس وقت منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں جب تفتیش کنندہ چارج شیٹ کی جگہ
پرفائنل رپورٹ لگاتا ہے اور جھوٹے معاملہ میں ’چارج شیٹ ‘لگا کر ’نقشہ
انعام ‘ بھرتا ہے۔
تفتیش کے معاملہ میں ضلع پولیس کی کارکردگی بہت کمزور ہے، اس کی وجہ ہے کام
کا بوجھ،متفرق ڈیوٹیاں،بھرتی ہوتے وقت جو پیسہ خرچ کیا اس کی وصولیابی کی
فکر، دو طرفہ سیاسی دباؤ کا بوجھ اور اوپربند لفافہ پہنچانے کی
فکروغیرہ۔دوسری ایجنسیوں جیسے ’سی․آئیـ ․ڈی․‘‘ وغیرہ میں تفتیش کنندہ کی
منمانی بہت زیادہ نہیں چلتی کیونکہ ایک تفتیش کنندہ پر کئی نگراں افسران
ہوتے ہیں لہذا ’گڑ‘ اور ’گوبر‘ عام طور پر(اگر حکومت نہ چاہے تو) الگ الگ
ہی رہتا ہے ۔
’ضلع پولیس‘ کا سربراہ پولیس کپتان ہوتا ہے جو ضلع میں نظم و نسق برقرار
رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ضلع کو کئی ’سرکل‘ اور ہر ’سرکل‘ میں کئی تھانے
ہر تھانے میں کئی چوکیاں ہوتی ہیں۔ہر ضلع میں ’پولیس لائنس‘ بھی ہوتی ہے
جسے ضلع کی فوج کا نام دے سکتے ہیں۔
ہندوستان میں ۱۷؍اگست ۱۸۶۵ء کو پہلا ’پولیس کمیشن‘ قائم ہوا تھا جس میں
ہندوستان میں پولیس کی کارکردگی کے رہنما اصول و احکامات برٹش حکومت نے
بنائے تھے جس کے ذریعہ جرم پر قابو رکھا جا تا تھا اورجرائم کا پتہ لگایا
جاتا تھا۔
آزادی سے پہلے پولیس کے اعلی افسران کا تعلق ’امپیرئل پولیس ‘سے ہوتاتھا جن
کی تقرری صوبہ کے سکریٹری مقابلہ کا امتحان لے کر کرتے تھے۔آزادی کے بعد
'IP' (امپیرئل پولیس) کی جگہ 'IPS'(انڈئن پولیس سروسز) نے لے لی۔
صوبہ کی پولیس میں’نان گزٹڈ‘ اہلکاروں کی بھرتی کے لیے صرف دو عہدے ہیں۔
کانسٹبل اورسب انسپکٹر(تھانے دار)۔یہی اہلکارمقابلہ کا امتحان دے کر
بالترتیب ’ہڈ کانسٹبل‘ اور ’انسپکٹر‘ کے عہدے کی ترقی پاتے ہیں۔ترقی کے
امتحانات بڑے سخت ہوا کرتے تھے جس میں اب کچھ نرمی ہوئی ہے اور لوگ کچھ نہ
کچھ ترقی کے زینے چڑھ لیتے ہیں ورنہ سپاہی یا تھانیدار جو بھرتی ہوتا تھا
مستقل مزاجی کے ساتھ اُسی عہدے پرخدمات انجام دیتے ہوئے سبکدوش ہوجاتا تھا۔
ہندوستانی غلاموں کے لیے انگریز آقاؤں کے بنائے ہوئے ۱۴۹؍ سال پرانے ’پولیس
رگولیشن‘،’تھانے‘، ’پولیس لائنس‘ اور ’بیرکیں‘آج بھی ہمارا منہ چڑھاتے ہیں
ان بیرکوں میں آج بھی سپاہی غلاموں کی طرح اپنا ’اقبال‘ دابے پڑے رہتے ہیں۔
جبکہ پولیس میں’ اقبال بلندی‘ کی بڑی اہمیت ہے اس کے لیے کسی بھی طرح کی
تعلیم وتربیت کی ضرورت نہیں ہوتی ’آتم سمّان(Self Respect)ہر انسان کے دِل
و دماغ میں ہوتا ہے لیکن پولیس کا کوئی بھی اہلکار ’سلف رسپکٹ‘ کاپاسدار ،بھرتی
کے لیے لاکھوں روپیہ خرچ کر کے کیسے بن سکتا ہے؟ جو لاکھوں روپیہ خرچ کر کے
پولیس میں بھرتی ہوا ہووہ تو اپنا ضمیر بیچے گا اور روپیہ کمائے گا کیونکہ
وہ جانتا ہے کہ ایک بار بھرتی ہو جانے کے بعد آسانی سے کوئی نکال نہیں سکتا
ہے۔اکبرؔالہ آبادی نے اُسے یہ بھی بتا رکھا ہے کہ ’’رشوت لیکے پھنسا ہے،
رشوت دے کے چھوٹ جا‘‘۔
اتر پردیش پولیس کی خدمات سے اختیاری سبکدوشی لیکر امریکہ میں جا بسنے والے
جناب مقصود احمد صدیقی کی ایک کتاب ’میری پولیس لائف ‘میں انھوں نے ملازمت
کے کچھ دلچسپ واقعات اور قابل ذکر تجربات تحریر کیے ہیں۔ اس کتاب کا اقتباس
پیش ہے:
’’امریکہ اور لندن کی پولیس میں ہمارے یہاں کے مقابلے ’فیزکل فٹنس‘، ’ایفیشینشی‘،
’ایمانداری‘، ’دیانتداری سبھی کچھ زیادہ ہے، پھر بھی چڑ چڑا پن مزاج میں
بالکل نہیں ہے کسی سے بدتمیزی نہیں کرتے نہ ملازمین سے نہ پبلک سے،خلاف
قائدہ پائے جائیں گے تو مروت بالکل نہ کریں گے چاہے کوئی بھی ہولیکن الفاظ
اور لہجہ انتہائی مہذب ، چھوٹا افسر بڑے کو ’سر‘ کہتا اور نام لیتا ہے، بڑا
افسرچھوٹے کو ’سر‘ کہتا اور نام لیتا ہے۔ وہ سگریٹ پیتا ہے تو اُسے بھی
پینے کی اجازت ہے کوئی کسی کو کھانے پینے کی چیز آفر نہیں کرتا لیکن تمہارا
جی چاہے تو لے لو وہ بُرا نہیں مانے گا، یہ ان کا کلچر ہے۔ چھوٹا افسر اپنی
کوئی پرابلم لے کر کسی بڑے کے پاس ملنے جاتا ہے تو نہ صرف یہ اُسے کھڑے ہو
کر ہاتھ ملاتا ہے اور کرسی آفر کی جاتی ہے بلکہ اُس کی پرابلم کو فوراً
اٹینڈ کیا جاتا ہے اور کسی مجبوری سے اس سلسلہ میں مدد کرنی ممکن نہ ہوتو
اُسے صاف بتا دیا جاتا ہے۔بڑا افسر اُٹھ کر گیٹ تک اُسے چھوڑنے جاتا ہے،
ہاتھ ملاکر رخصت کرتا ہے۔ہمارے ملک میں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟یہ بات مجھے
بہت کھلتی ہے۔ یہاں ڈیوٹی آورس محدود ہیں ریگولراکسرسائز ضروری ہے۔ شرافت
اور خوش اخلاقی پر خاص توجہ دی جاتی ہے، بد سلوکی بالکل قابل برداشت نہیں،
ایسا نہیں کہ یہاں کرپشن بالکل نہیں ہے مگر عام زندگی میں نظر نہیں آتا۔
اگر کبھی کوئی افسر کرپشن میں ملوث پایا جاتا ہے تو انتہائی بے دردی سے
دودھ کی مکھی جیسا نکال باہر کیا جاتا ہے یا بے مروتی سے جیل بھیج دیا جاتا
ہے۔ یہاں پولیس کا معمولی افسر صدر امریکہ کی بیٹی کا چالان ’ڈرنک ڈرائیونگ‘
میں کرتا ہے اور یہیں تک نہیں اُسے عدالت سے جرمانہ کروا کے چھوڑتا ہے۔
یہاں افسر جتنا اونچے عہدے پر پہونچتا ہے اُسے اتنا ہی کام کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے یہاں اس کے برعکس افسر جتنا ترقی کرتاجاتا ہے اس کی آرام طلبی اور
عیش و عشرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔‘‘
پولیس فورس کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہوتی ہیں ایک تو نظم و
ضبط(Discipline) جو فورس کا اندرونی معاملہ ہے اور دوسری چیز ہے ’اقبال‘ جو
عوام الناس سے جڑا ہوتا ہے یہ ختم ہو چکا ہے جس کا بحال ہونا بہت ضروری
ہے۔اس کی بحالی کی خواہش تو کی جا سکتی ہے لیکن یہ خواہش ایسی ہے جس پر ’دم
تو نکل سکتا ہے مگر پوری ہونا اس وقت تک مشکل ہے جب تک تھانیداروں کوتھانے
نیلامی میں ملتے رہیں گے اور نیتا انہیں بلیک میل کرتے رہیں گے۔
ڈسپلن شکنی کے تعلق سے مجھے ایک بڑا پرانا واقعہ یاد آ رہا ہے ہو سکتا ہے
کچھ اور لوگوں کے ذہن میں بھی محفوظ ہو۔ ایک سپاہی نے محکمہ سے اجازت لیے
بغیر داڑھی رکھ لی تھی جسے محکمہ جاتی کاروائی کرکے برخاست کر دیا گیا تھا۔
وہ مقدمہ لڑتا رہا لیکن چونکہ معاملہ داڑھی کا تھااس لیے انصاف کے بجائے
اُسے تاریخیں ملتی رہیں۔پچھلی بار جب محترم ملائم سنگھ جی کی حکومت بنی تھی
تو نیتا جی کی خاص مہربانی سے وہ ۲۷؍سال کے بعدمع داڑھی کے بحال ہوا ۔
ایک آئی․پی․ایس․ افسرجو آئی․جی․کے عہدے پرتعینات تھے بھگوا دھوتی اور نتھنی
پہن کر ’رادھا‘ بن گئے اور اسی حالت میں وہ آفس بھی آتے رہے ، ٹھمکے بھی
لگاتے رہے اس وقت کسی کے وقار کو ٹھیس نہیں پہنچی۔ان کے خلاف کوئی کاروائی
نہیں ہوئی بلکہ عزت کے ساتھ ریٹائرکر دیے گئے۔
سپاہی نے داڑھی رکھ کر مردانگی کا ثبوت دیاتو اس پر ڈسپلن شکنی میں برخاست
کر دیا گیا،ایک آئی․پی․ ایس․مرد نے چوڑیاں،نتھنی،جھومر جھالا پہن کر زنانہ
ہونے کا مظاہرہ کیا تو کوئی ڈسپلن شکنی نہیں ہوئی۔
پولیس محکمہ ہی کیا، خرابیاں ہر محکمہ میں ہیں اور رہیں گی جب تک سدھری
ہوئی حکومت کی تشکیل نہیں ہوگی اورسدھری ہوئی حکومت کی تشکیل اُسی وقت ہو
سکتی ہے جب عوام یہ طے کرے اچھی شبیہ کے نمائندے ہی چنیں گے۔ |
|