قارئین کرام !
آیئے آج جانتے ہیں کہ ہمارے سوات میں روز بروز نئے نئے میڈیکل سنٹرز بنتے
جارہے ہیں ، جہاں مختلف علاقوں شہروں سے نئے نئے ڈاکٹرز آکر اپنی دوکانیں
کھول دیتے ہیں اور ڈاکٹر کی روپ دھار کر ڈاکو بنے بیٹھ جاتے ہیں ۔ اور اپنے
جعلی یا اصلی ڈگریوں کے بل بوتے عوام چاہے غریب ہو یا امیر انکو لوٹنے
کیلئے مختلف حربے استعمال کرتے رہتے ہیں ، ، سوات میں قریباً 10سے 15تک
میڈیکل سنٹرز ہیں ، جس میں اہم اہم سنٹرز ’’شفاء میڈیکل، خیبر میڈیکل، شاہ
میڈیکل ، دلارم خان ، سٹی، سینا، سوات کمپلیکس ، اور اسی طرح بے شمار اور
بھی میڈیکل سنٹرز بنائے گئے ہیں ، اسکے علاوہ بھی نئے نئے میڈیکل سنٹرز زیر
تعمیر ہیں ، جس پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے ، جو موجودہ حکمرانوں کیلئے
ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ جتنے بھی میڈیکل سنٹرز بنتے ہیں اس میں بے شمار
ڈاکٹرز آتے ہیں جن میں بے شمار ایسے ڈاکٹرہونگے جنکے پاس جعلی ڈگری ہوگی۔
قارئین کرام !یہ بات ذہن میں رکھئے گا کہ میرے مضمون کا مقصد کسی کو بدنام
کرنا نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے دل کو ٹھیس پہنچانا ہے ، بلکہ حق کی بات
کہنا میرا فرض بنتا ہے اور میں اس فرض کو ادا کرنے کی کوشش کررہا ہوں ،
ڈاکٹر جیسے قابل احترام اور مقدس پیشہ کو پامال کرنے والے جعلی ڈاکٹرز اور
بد اخلاق ڈاکٹر جو اپنی دکانیں کھول کر عوام کو لوٹ گھسیٹ رہے ہیں، میں
انکا ذکر کررہا ہوں ،، ہر ایک ڈاکٹر جانتا ہوگا اپنے بارے میں کہ ہم کتنا
پانی میں ہے ، اور کس طرح عوام کے ساتھ رویہ / سلوک برترہے ہیں ۔ بھاری
بھاری فیس وصول کرنے کیلئے ہر ایکڈاکٹر نے اپنے ساتھ باہر ایک منشی بیٹھایا
رکھا ہوتا ہے جو بلا جھجھک عوام سے بھاری بھاری فیس وصول کرتا ہے ۔ شرم کی
حد ختم ہوگئی ہے ان جیسے لٹیروں کی جو اتنے بھاری فیس وصول کرتے ہیں اور
اوپر سے مہنگے ادویات لکھ دیتے ہیں چاہے وہ مریض خرید سکے یا نہیں ، مگر
مجبوراً انہیں خریدنا پڑتا ہے ۔ اسکے علاوہ جتنے بھی میڈیکل ٹیسٹ کرواتے
ہیں تو وہ اپنے پسند کی لیبارٹریوں سے کرواتے ہیں تاکہ اس میں بھی اِ ن
لٹیروں کو کمیشن مل جائے ، ، ہزار ہاں جگہ اگر انکو کمیشن ملتا رہے تو پھر
ان نام نہاد ڈاکٹروں کی بھوک نہیں مٹتی ۔ کبھی کبھی سننے میں آتا ہے کہ یہ
ڈاکٹر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے نہ جانے کتنے روپے خرچ کرتے ہیں ، اگر
یہ ڈاکٹرز اپنے 5یا 6سالہ میڈیکل تعلیم میں قریباً 10لاکھ روپے خرچ کربھی
لیتے ہیں تو آپ جانتے ہونگے کہ یہ 10لاکھ روپے کس طرح ایک دو مہینوں میں
بٹور لیتے ہیں ۔ جب اپنی دوکان کھول لیتے ہیں تب ان جیسے لٹیروں کو صرف
پیسہ ہی پیسہ نظر آتا ہے اور شاید ان کے دلوں میں یہی خیال ہوگا کہ بھئی
اپنے لگائے ہوئے پیسے واپس بٹور نے ہیں ۔
قارئین کرام !مریض کی آدھی بیماری ڈاکٹر کے حسن اخلاقی اور بہتر رویے سے
ختم ہوتی ، مگر یہاں اگر دیکھا جائے تو صحیح سلامت انسان بھی اگر ان جیسے
ڈاکٹروں کے پاس چلے جاتے ہیں انکے غیر اخلاقی رویے کو دیکھتے ہوئے وہ بھی
ذہنی اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں ، کہ یہ کس قسم کا ڈاکٹر ہے ۔ تو اسی ڈاکٹروں
کی بھرمار نے اب عوام کو ٹھیک ہونے کے بجائے اور بھی بیماری کی اذیتوں میں
مبتلا کرکے رکھ دیا ہے ۔ مریض ایک بار معائنے کیلئے آتا ہے تو ڈاکٹر صاحب
کے حکم پر دوبارہ معائنے کیلئے بھی آئینگے مگر فیس دوبارہ بھی وصول کی
جائیگی ، یہی ان ڈاکٹروں کا نظام ہے ۔ جو انسانیت کے ساتھ ایک کھیل کھیل
رہے ہیں ، نہ مریض کا ٹھیک طریقے سے معائنہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی غریب
مریض کے ساتھ تعاؤن کی جاتی ہے ، اگر غریب مریض سرکاری ہسپتال میں علاج سے
محروم ہوتا ہے تو پھر اس غریب مریض کا کوئی خیر خواہ نہیں ہوتا ۔ کسی بھی
ڈاکٹر کو آج تک نہیں دیکھا میں نے کہ اُس نے اپنے پورے ہفتے میں کوئی ایک
دن غریبوں کیلئے صرف کی ہو اور غریب مریض کیلئے اپنے اوپر تکلیف برداشت کی
ہو ، ایک دن بھی کسی غریب کی خدمت کیلئے اپنے کلینک میں نہیں بیٹھا کہ چلو
ہفتے میں ایک دن غریبوں کیلئے ہی سہی یا پھر فیس کم کرکے غریب مریضوں کیلئے
کوئی خاص دن مقرر کریں ۔ مگر افسوس کہ انکو اس سے کوئی لینا دینا نہیں بس
انہیں تو صرف پیسے بٹورنے ہیں ، کاروبار چلانا ہے ، کوئی دن قضا نہیں کرنا
ہر روز ہزاروں بلکہ لاکھوں تک کمانا ہے ، عیش کرنا ہے ۔ بس ۔۔ یہ ان ڈاکو
ڈاکٹروں کی پہچان ہے ۔ اگر ان باتوں میں آپ قارئین کو جھوٹ نظر آرہا ہے تو
جاکے خود دیکھ لو۔۔۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں بیٹھے ہوئے ان لٹیروں کو۔ میں
نے خود دیکھے ہیں اورجائزہ بھی لیا ہے ۔ آپ جانیں گے تو خود کہیں گے کہ
واقع میری ان باتوں میں حقیقت ہے۔
قارئین کرام! سرکاری ہسپتالوں میں نے ایسے ڈاکٹرز دیکھے جو اپنے جیب میں
اپنے پرائیویٹ کلینک کے اتنے سارے ویزیٹنگ کارڈ ساتھ لاتے ہیں کہ انہیں
تقسیم کرتے کرتے تھک جاتے ہیں انہیں بس یہی سوچ ہوتی ہے کہ کس طرح عوام کو
ورغلا پھنسا کر اپنے کلینک میں آنے کی ہدایت دی جائے اور وہاں پھر اپنے لوٹ
کھسوٹ کی دکان میں انہیں لوٹے، ان سے پیسے بٹورے۔ اگر میرے اس کالم پر کسی
کو غصہ چڑھتا ہے تو صرف وہ لوگ ہونگے جن میں یہ ساری خامیاں موجود ہوں ، جو
دل کا صاف ہو ، مخلص ہو ، ایماندار ہو وہ کبھی بھی میری ان باتوں پر مایوس
نہیں ہونگے کیونکہ وہ باضمیر ، اور ایماندار ہونگے اور انہیں ان باتوں پر
خوشی محسوس ہوگی ۔ کیونکہ اسکا مقصد کسی کا دل دکھانا نہیں بلکہ ان مردہ
ضمیر کو زندہ کرنا جو پیسوں کی حوص میں مر چکے ہیں، اور جعلی ڈگریوں پر کام
کرنے والے یہ بات جان سکے کہ تمہارے جعلی ڈگری یا جعلسازی سے عوام تو بے
خبر ہونگے مگر اﷲ تعالیٰ رب العزت خوب جانتا ہے اور معاشرے میں ایسے لوگ
بھی موجود ہیں جو جانتے ہونگے کہ فلاناں ڈاکٹر کے پاس ڈگری جعلی ہے ۔ اس
طرح حالات میں پردہ پوشی جائز نہیں کیونکہ یہ عوام کی زندگیوں کا سوال ہے
،، جھوٹ اور سچ کا سوال ہے ، ایمانداری اور بہیمانی کا سوال ہے ۔ دھوکہ
دینے والے لوگوں کی عمر بھی کم ہوتی اور کاروبار بھی کم عرصے کی ہوتی ہے ۔
اسلئے اپنے آپ کو اس درجہ پر رکھو جس درجے کے آپ مالک ہیں اپنے درجے سے
اوپر جاؤگے تو پاؤں پھسل کر گر جاؤگے۔ اگر ہے قابلیت اور ذہانت تو اس کو اﷲ
تعالیٰ کے مخلوق کی خدمت کیلئے استعمال کرو تاکہ لوگ تیرے لئے دعائیں کریں
۔
قارئین کرام ! آخر میں ایک نصیحت کرنا چاہوں گا کہ زندگی تو ہر کوئی اپنے
لئے جیتا ہے مگرزندگی کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کیلئے جیے۔۔ اور
ایک دوسرے کے خدمت میں اپنے اوقات صرف کرے ۔ یہ زندگی عارضی ہے یہاں جتنا
بھی مال جمع کروگے ایک روپیہ بھی ساتھ نہیں لے پاؤگے ، بس جو ہے وہ سب کچھ
اس عارضی دنیا میں ضائع ہونا ہے ، ، اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ یہ مال میرے
اولاد کے کام آئیگا ، تو شاید ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ بغیر محنت سے ملنے
والے مال کی قدر نہیں ہوتی وہ محنت آپ نے کی ہوگی یا لوگوں سے بٹور لئے
ہونگے آپ نے اور عیش وعشرت اپکے اولاد کرینگے اس مال پر، ، کماؤں جتنا کما
سکتے ہو مگر طریقہ صحیح ہونا چاہئے ، استعمال کرو جتنا استعمال کرسکتے ہو
مگر طریقہ صحیح ہونا چاہئے ، اولاد پر خرچ کرو مگر انہیں علم دو تاکہ وہ
بھی صحیح اور غلط کی پہچان کرسکیں اور آپکا یا اپنا کمایا ہوا مال صحیح
طریقے سے استعمال کرسکے ۔ یاد رہے کہ کسی فرد کا ایک روپیہ جو ناجائز طریقے
سے حاصل کرلی گئی ہو اسکی معافی نہیں ہے اور اس ایک روپے کے بدلے ہزاروں
روپیہ ضائع ہوجاتے ہیں ، ، جو زیادتی کا صلہ ہوتا ہے ، ،۔ اﷲ تعالیٰ اپنے
بندوں کے سارے ضروریات پورے کرتا ہے،، چاہے جس ذریعہ سے انسان محنت
کرے،،حلال حرام کا حساب اﷲ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ، ، تو کیوں نہ ہم اپنے
ضروریات کے مطابق ایک اچھے طریقے سے کمائیں ۔
قارئیں کرام! ہم عوام ڈاکٹرحضرات کو تین چیزیں دیتے ہیں جن میں پیسہ، عزت،
اور دعاء ، ان تین چیزوں میں سب سے اہم چیز دعا ہے ، اگر ڈاکٹرز حضرات صحیح
طریقے سے عوام کی خدمت کرے تو انہیں عوام سے یہ تینوں چیزیں ملتی ہیں ،،
اگر کوئی ڈاکٹر صحیح طریقے سے معائنہ نہیں کرتا ، مریض کو وقت نہیں دیتا،
زیادہ سے زیادہ مریضوں کا معائنہ کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے یعنی پیسے
بٹورنے کی خواہش رکھتا ہو تو اُ س ڈاکٹر صاحب کو صرف پیسہ ہی ملتا ہے ،،،،،
اور دنیا میں صرف پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہے ، دنیا میں عزت اور دعا پیسوں سے
قیمتی چیزیں ہوتی ہیں ۔ جو کبھی بھی پیسوں سے خریدی نہیں جاسکتی۔۔اﷲ تعالیٰ
ہم سب کو ایکدوسرے کے خیر خواہ بنائیں ۔ آمین ۔ شکریہ ! ۔ وسلام۔
|