اِن خساروں پہ ماتم زدہ کب ہوگا زمانہ....؟؟
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
اَزل ہی اِنسالوں کے ذہنوں میں
خسارے سے متعلق یہ خیال کیا جاتارہا ہے کہ ’’کسی کاروبار میں منی اِنویسٹ
کرنے یا لگانے کے بعد جو نقصان ہوتاہے بس اُسے ہی خسارہ کہاجاتاہے ‘‘مگر
ایسا حقیقی معنوں میں قطعاََ ہوتاہوگا اور بعض مرتبہ اکثراِنسانوں کے ساتھ
ایسانہیں ہوتا ہے جیسا کہ اِنسانوں کے معاشرے میں ہمیشہ سے سوچاسمجھااور
خیال کیا جاتارہاہے دراصل خسارے کی اور بھی سیکڑوں اقسام ہیں جن کی جانب
واضح اشارہ دیتے ہوئے قرآن کریم فرقانِ حمید کی ایک سورہ العصرجومکہ میں
نازل ہوئی جس میں میں اﷲ رب العزت فرماتاہے کہ ’’ زمانے کی قسم ، اِنسان
خسارے /گھاٹے میں ہے ، سوائے اِ ن کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے عمل
کئے ،اورحق کی تاکیدکی اور صبرکی تاکید کی‘ ‘ یعنی یہ واضح ہواکہ کاروبار
کے علاوہ بھی بہت سے معاملاتِ زندگی میں اِنسان کو گھاٹے یا خسارے اُٹھانے
پڑتے ہیں یا پڑسکتے ہیں ۔
اِس سے انکار نہیں کہ ہر زمانے کی ہرتہذیب کے ہر معاشرے کے ہر اِنسان کے
ذہن میں خسارے کی تعریف صرف کاروباری معاملات میں کمی بیشی کے باعث ہونے
والانقصان یا گھاٹہ اور خسارہ کے ہے حالانکہ خسارہ تو یہ بھی ہے کہ ہم بطور
اِنسان اور مسلمان اﷲ کے دیئے ہوئے خوبصورت جسم کے اعضاء کی شکل میں دی
ہوئی یاعطاکی ہوئیں عظیم نعمتوں کو اﷲ کی تعریف بیان کرنے اور اِنہیں نیک
اعمال کرنے اور تبلیغ دین کرنے کے علاوہ اِنہیں منفی اور معاشرے میں فتنہ
فساد کرنے اور کرانے کے لئے استعمال کریں تو یہ ربِ کائنات اﷲ رب العزت کی
دی ہوئیں نعمتوں کا خسارہ اور گھاٹہ ہوگا۔
جیسے کہ ہم اپنی زبان کو اﷲ اور اُس کے پیارے حبیب حضرت محمدمصطفیﷺ کی
حمدوثناء اور تعریف بیان کرنے اور تبلیغ ِ دین کرنے اورعالمِ انسانیت میں
محبت و اخوت وبھائی چارگی کا درسِ عظیم عام کرنے کے بجائے اِسے
بدگوئی،بدزبانی اور معاشرے میں بداخلاقی کو پھیلانے کے لئے استعمال کریں تو
یہ زبان کا خسارہ ہوگااور اگراِسی طرح ہم اپنی پیشانی پر لگی چمکتی ہوئیں
دو آنکھوں کو دنیاکے حسین و جمیل مناظر کا نظارہ کرنے اور اﷲ کی نعمتوں کی
تعریفیں کرنے کے بجائے اِن آنکھوں کو غلط کاموں جیسے فحاش مناظراور اخلاق
سے گری ہوئی فلمیں اور عریاں تصاویردیکھنے میں لگائے رکھیں تو یہ آنکھوں کا
خسارہ ہوگا ہمیں جس کا روزِ قیامت ضرورحساب دیناہوگا ،اوراگرا پنے کانوں کو
کلام الٰہی اور سیرتِ محمدﷺ کو سُننے کے بجائے ہم اِنہیں ڈھول باجے اور ناچ
گانے سُننے میں مصروف رکھیں تو یہ کانوں اور ہماری سماعت کا خسارہ ہوگا
اوراِسی طرح ہم اپنے ہاتھوں کو راہے خدامیں جہادکرنے ا ور اﷲ کے لئے نیک
کاموں اور اِنسانوں کی فلاح وبہبود اور صدقہ وخیرات اور یتیمو ں کے سروں پر
پھیرنے اور کسمپرسی اور بھوک وافلاس سے بدحال اِنسانوں کی دادرسی کرنے جیسے
کاموں کے لئے استعمال کرنے کے بجائے اِنہیں معاشرے میں کرپشن ، قتل وغارت
گری، لوٹ ماراورفتنہ فساد کرنے اور کرانے کے لئے استعمال کریں تو یہ ہاتھوں
کا خسارہ ہے اور جب ہم اپنے پیروں کو راہ خداپر نکالنے اور چلانے کے بجائے
غلط کاموں اور بھٹکادینے والی راہ پر چلنے کے لئے اُٹھائیں تو یہ پاؤں کا
خسارہ ہے اوراِسی طرح جب ہم اپنے دل کو اﷲ اور اُس کے پیارے حبیب حضرت
محمدمصطفیٰ ﷺ کے ذکر سے خالی رکھیں اوراِسے دنیاوی عیش وطر ب اور خواہشات
کا مسکن بنالیں تو یہ دل کا خسارہ ہے اورجب ہم اپنے دماغ کوبحیثیت مسلمان
اور اﷲ کے بندے ہونے کے ناطے دین ِ اسلام کی ترویج وتندوین کے بجائے اِسے
دنیاوی خواہشات کے ساتھ ساتھ منفی سوچوں اور وسوسوں کا گھڑبنالیں تو یہ
دماغ کا خسارہ ہے یوں ہمارے جسم کے اندر دو گوشت کے لوتھڑے ایسے ہیں جو ’’
د/دال‘‘ سے شروع ہوتے ہیں ویسے یہ ہیں تو بہت چھوٹے مگراِن کے کام بہت بڑے
ہیں اگر ہم اِن کااستعمال درست طریقے سے کریں یعنی کہ اﷲ اور اِس کے رسول
ﷺکی تعلیمات اور قرآنی احکاما ت کی روشنی میں خودکو ڈھال کر اپنی زندگی
گزارکے لئے تیارکرلیں تو یقینی طورپر پر ہم اپنے جسم کے اعضاء کو بہت سے
خساروں سے بچا سکتے ہیں کیوں کہ ہم نے نہ تو اپنے جسم کے اعضاء کے غلط
استعمال اور غلط سوچوں اور وسوسوں سے دنیااور اپنے مُلک اور اپنے معاشرے
میں پھیلنے والی بُرائیوں اور رویوں سے پیداہونے والے خساروں سے متعلق کبھی
سوچااور نہ ہی اپنے آپ کے ٹھیک کرنے کی کبھی خود سے کوشش کی ہے اور اِسی
طرح نہ ہی ہم اپنے دل و دماغ کو منفی سوچوں اور کاموں کے لئے روکنے کے بارے
میں کچھ دیر کے لئے خیال کرتے ہیں۔
اَب ایسے میں آج ہمیں اپنی دنیااور اپنے مُلک اور اپنے معاشرے سے تعلق
رکھنے والے ہر بھائی بہن سے یہ شکوہ اور سوال ہے کہ آخرہم اِن خساروں پر کب
غوروفکر یں گے جن کا ہم اُوپری سطور میں تذکرہ کرچکے ہیں ....؟؟اور اپنے
جیسے اپنی دنیااور اپنے مُلک اور اپنے معاشرے کے لوگوں سے یہ سوال کرتے ہیں
کہ’’اِن خساروں پر ماتم زدہ کب ہوگازمانہ....؟؟‘‘۔ہمیں یقین ہے کہ آج بھی
اگر ہم اپنا احتساب کرناشروع کردیں اور اپنے دماغ کو اپنے دل ہاوی کرلیں
اور اپنے دل کو اپنے دماغ کے ماتحت کردیں اور اپنے دل کو دنیاوی خواہشات سے
خالی کرلیں اور اپنے دماغ کو مثبت و تعمیری سوچوں اور عالمِ اِنسانیت کی
فلاح و بہبود کے کاموں کے لئے تیارکرلیں تو ہم اپنے جسمانی اعضاء کے غلط
استعمال سے ہونے والے بہت سے ایسے خساروں سے بچ سکتے ہیں ہمیں جن کا روزِ
قیامت اﷲ کے سامنے حساب دیناآسان ہوجائے گااور ہم اپنے پیارے
آقاحضورپُرنورحضرت محمدمصطفیﷺ کی شفاعتِ خاص سے بہرامندہوں گے آج بس ضرورت
اِس امر کی ہے کہ ہمیں اور ہماری دنیااور ہمارے مُلک اور ہمارے معاشرے کے
ہر اِنسان کو اِن خساروں پر ماتم کرنے اور غوروفکرکرنے کی عادت ہوجائے جن
کی وجہ سے ہمیں خساروں کا منہ دیکھناپڑتاہے۔(ختم شُد)
محمداعظم عظیم اعظم [email protected]
|
|