پولیس اور کوے
(Muhammad Nasir Iqbal Khan, Lahore)
حضرت انسان کو عزت اس کے منصب
یاحسب نسب کی بنیادپرنہیں ملتی بلکہ اس کاراستہ انسان کے افکاراورکردارسے
ہوکرجاتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں عزت کامعیارتبدیل ہوگیا ہے ۔انسان
ضمیرفروش ہے یاسرفروش اس بات کافیصلہ اس کے فیصلوں سے ہوتا ہے۔عدالت عظمیٰ
کے سابق چیف جسٹس (ر)افتخارچودھری کاپرویزمشرف کے روبروانکاران کیلئے
سرمایہ افتخاربن گیا اورپھر ایک وہ وقت آیا جب عوام نے ان کی گاڑی
چومناشروع کردی ۔ چیف جسٹس (ر)افتخار چودھری عوامی طاقت سے منصب پر''بحال''
ہوئے تواپنے فیصلوں سے اپنے آپ کو''بے حال ''کردیا ۔آج ا ن کے پاس حکومت کی
طرف سے ملی بلٹ پروف گاڑی سمیت سب کچھ ہے مگرشایدعزت نہیں ہے ۔بلٹ پروف
گاڑی ملے نہ ملے مگرگالی نہ ملے۔حکومت یاکسی مخصوص شخصیت کی غلامی سے انسان
کو حمیت کی نیلامی اوربدنامی کے سواکچھ نہیں ملتا ،انسان کی وفاداری ریاست
کے ساتھ ہو اوروہ حکمرانوں سے زیادہ اپنے ضمیر کی سنے تواس کی عزت پرکبھی
آنچ نہیں آتی۔بعض افراد بڑی بصیرت ،قابلیت اور بہادری کامظاہرہ کرتے ہوئے
اعلیٰ منصب تک پہنچتے ہیں مگر پھراسے بچانے کیلئے بزدلی،چاپلوسی،مصلحت
پسندی اورمنافقت کی انتہاکردیتے ہیں۔آج کے دورمیں جس نے عزت بچالی اس سے سب
کچھ بچالیا ،کوئی عہدکسی انسان کواس کے عہدے کی بنیادپریادنہیں رکھتا۔ہمارے
سیاستدانوں نے حکومت اوراپوزیشن کیلئے الگ الگ اصول بنائے ہوئے ہیں ۔
''اصول پرست''سیاستدان اگرحکومت میں ہوں توآئین کی پاسداری کی دہائی دی
جاتی ہے جبکہ اندرون خانہ اپنے اقتدار کے ودام واستحکام کیلئے ماورائے آئین
احکامات د یتے ہیں اورجوکوئی ان کی بجاآوری نہیں کرتااسے اسلام آباد پولیس
کے سابق آئی جی آفتاب چیمہ اورسابق ایس ایس پی محمدعلی نیکوکارا کوان کی
نیک نامی اورشاندارٹریک ریکارڈ کے باوجود نشان عبرت بنادیا جاتا ہے لیکن یہ
اپوزیشن میں ہوں توان کی طرف سے پولیس سمیت انتظامیہ کوحکومت وقت کے
انتظامی احکامات تسلیم نہ کرنے کے بیانات منظرعام پرآتے ہیں پھرسجاد بھٹہ
اوراطہروحید کوحکومت وقت کی نافرمانی پرسینے سے لگایا اوران
کاماتھاچوماجاتا ہے ۔نام نہادجمہوری حکمران اپنے دورمیں اپنے چہیتوں
کوبغیرکسی میرٹ کے مختلف عہدوں اورمراعات سے نوازتے ہیں جبکہ ان کے
بعدآنیوالی حکومت میں انہیں پچھلی حکومت سے وفاداری کی بنیادپر برطرف
کردیاجاتا ہے اس کے بعدپھرسابقہ حکمران اقتدارمیں آکراپنے برطرف ہونیوالے
چہیتوں کومراعات سمیت بحال کردیتے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے دورمیں مسلم لیگ (ن)
اورمسلم لیگ (ن) کے دورمیں پیپلزپارٹی کے رہنماؤں سمیت کارکنوں کیخلاف درج
ہونیوالے مقدمات ایک حکم پر خارج ہو جاتے ہیں ۔ تحریک نجات میں میاں
نوازشریف اورمیاں شہبازشریف نے اپنے کارکنان کوہراساں اورگرفتارکرنیوالے
پولیس آفیسرز اور اہلکاروں کی فہرستیں بنانے کی ہدایات دیں اورپھرحکومت میں
آنے کے بعدان فہرستوں کی روشنی میں متعدد پولیس آفیسرزاوراہلکاروں کوانتقام
کانشانہ بنایا گیا ۔پولیس والے تو فٹ بال کی مانند ہیں، انہیں تو دونوں
ٹیموں یعنی حکومت اوراپوزیشن کی طرف سے ٹھوکر ہی لگتی ہے مگر شایدیہ خودبھی
اپنے اس حال سے خوش ہیں اوراس کیفیت سے نجات کی کوشش نہیں کرتے ۔
کئی افرادنے زندگی میں کئی باروہ منظردیکھا ہوگاجب ایک کوا مرتا ہے توباقی
کوے اپنے مخصوص اندازمیں شورمچانے یااپنے ساتھی کی موت کاماتم کرنے لگتے
ہیں اوراس مردہ کوے کے آس پاس ہوامیں مسلسل کئی گھنٹوں تک اڑتے اورکائیں
کائیں کرتے رہتے ہیں ۔ انسان کواشرف المخلوقات کہا جاتا ہے مگرہم ان کوؤں
سے بھی بدترہیں جودوسرے انسان کی تکلیف پراحتجاج تودرکناراظہارافسوس تک
نہیں کرتے مگر پھرہماری باری بھی آجاتی ہے ۔جہاں خوشی غمی کی سانجھ نہیں
ہوتی وہاں زندگی بانجھ اوربوجھ بن جاتی ہے ۔ 2000ء میں اے ایس پی
کیپٹن(ر)مبین سے واسطہ پڑاتوپولیس کے بارے میں مشہورمحاورہ سمجھ آگیا ''کتے
ایک دوسرے کاگوشت نہیں کھاتے مگرپولیس والے ایک وسرے کاگوشت نگل جاتے
ہیں''۔آفرین ہے مظفرآباد پولیس کے دبنگ ایس ایس پی عرفان مسعود پرجس نے
اپنے حلف اورقانون کی پاسداری کرتے ہوئے آزادکشمیر کی حکمران جماعت کے ایک
بااثرحامی شخص کوقانون شکنی پرگرفتارکیا مگراس فرض شناسی کامظاہرہ کرنے پر
انہیں انعام واکرام کی بجائے تبادلے کاپروانہ تھمادیا گیامگر ان کے غیور
ماتحت اہلکاروں نے تھانوں کوتالے لگائے اورپرامن احتجاج کرتے ہوئے شاہراہوں
پرآگئے جس پرحکومت نے باامرمجبوری ا پنا فیصلہ واپس لے لیا ۔اگروزیراعظم کی
برطرفی پرپرتشدداحتجاجی مظاہرے ہوسکتے ہیں توایس ایس پی محمدعلی نیکوکاراکی
برطرفی پربھی پرامن احتجاج ہوسکتا ہے ۔ ایس ایس پی شعیب خرم جانباز جن دنوں
ایس پی صدرگجرانوالہ تھے توان دنوں خرم دستگیرخان وفاقی وزیرکاحلف اٹھانے
کے بعد پہلی باراپنے حلقہ میں آئے جہاں جشن منانے کی آڑمیں ان کے حامیوں نے
ہوائی فائرنگ شروع کردی جس پرفرض شناس شعیب خرم جانباز نے ملزمان
کوگرفتارکرلیا اورانہیں قانون کی پاسداری کرنے کی پاداش میں راتوں رات وہاں
سے تبدیل کردیا گیا ۔پولیس آفیسرزاوراہلکاروں کوقانون شکنی کی بجائے قانون
کی پاسداری کرنے پرزیادہ سزائیں ملتی ہیں۔
اگر عدلیہ آزاد ہے توبروقت انصاف کیوں نہیں ملتا،طاقتورکمزوروں کااستحصال
کیوں کررہے ہیں۔اس ملک میں آئین کاحکم چلنا ہے یاحکمرانی کی من مانی
اورمرضی کے مطابق فیصلے ہوں گے ۔اگراس ملک میں آئین وقانون کی حکمرانی ہے
توباضمیراور باکردار محمدعلی نیکوکارا کوانتقام کانشانہ کیوں بنایا گیا،ان
کی برطرفی انتظامی نے انتقامی فیصلہ ہے۔کہاجاتا ہے انسان کے ضمیر سے بہتر
کوئی منصف اورایڈوائزر نہیں ہوتا۔محمدعلی نیکوکار نے اپنے ضمیر کی آوازسنی
اورسیاسی کارکنوں کے خون سے ہولی کھیلنے سے انکارکردیا۔محمدعلی نیکوکارانے
کوئی قانون شکنی کی اورنہ اپنے حلف پرآنچ آنے دی۔آفتاب چیمہ کی جبری
ریٹائرمنٹ اور محمدعلی نیکوکارا کی برطر فی ایک آمرانہ اقدام ہے اوراس قسم
کے متعصبانہ فیصلوں سے نہ صرف پولیس آفیسرزاوراہلکاروں میں بددلی پیداہو ئی
ہے بلکہ بحالی امن کی کوشش پربھی منفی اثرپڑے گا۔سرکاری
آفیسرزاوراہلکارحکومت وقت نہیں ریاست کی وفاداری کاحلف اٹھاتے ہیں۔محمدعلی
نیکوکارا حکومت کے غلام نہیں ریاست کے ملازم تھے،انہوں نے بحیثیت ایس ایس
پی اسلام آباد حکومت کے ماورائے قانون احکامات کی بجاآوری سے انکار
کیاتھااورایساکرنا کوئی گناہ کبیرہ نہیں،آزاد عدلیہ نے اب تک اس ناانصافی
کیخلاف سوموٹوایکشن نہیں لیا۔جوحکمرانوں کے دباؤپر سانحہ ماڈل ٹاؤن طرزپر
عوام کے خون سے ہولی نہیں کھیلتے انہیں محمدعلی نیکوکاراکی طرح فورس سے
''باہر'' جبکہ جو کھیلیں انہیں ''اندر'' کردیا جاتا ہے ۔ جوسرکاری آفیسر
کسی ہنگامی صورتحال میں تدبر،دوراندیشی اورسمجھداری سے کام نہ لے بلکہ
حکومت کے ہرجائزوناجائز احکامات کی پاسداری کویقینی بنائے وہ ترقی کامستحق
قرارپاتا ہے لیکن اگرکوئی محمدعلی نیکوکاراکی طرح ان کی خواہشات کی تکمیل
کیلئے قانون ہاتھ میں نہ لے تواسے ناکارہ سمجھ کرنکال دیا جاتا ہے۔ محمدعلی
نیکوکاراسمیت کئی نیک نام آفیسرزہیں جو اپنے ضمیر کی آواز پرآئین اورقانون
کی پاسداری پرڈٹ گئے اوراس پاداش میں حکمرانوں کے عتاب اورعذاب کانشانہ بنے
جبکہ انہیں قابلیت اورہلیت کے باوجودملازمت سے محروم کردیاگیا ۔ پنجاب
پولیس کی اسٹیبلشمنٹ نے بھی محمدعلی نیکوکاراکے حق میں سٹینڈ لیااورنہ کسی
آفیسرنے احتجاجااستعفیٰ دیا۔اگرحکومت وقت کے جائزو ناجائزاحکامات کی
پاسداری ناگزیر ہے توپھر شریف برادران چودھری شفقات سے خفاکیوں ہوئے تھے
۔اگرسابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے دورگورنرراج میں شاہراہوں
پرکنٹینرزکھڑے کرنا جائز نہیں تھا ،مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کوہراساں یاان
پرتشدد کرنا ماورائے آئین اقدام تھا توپھرپی ٹی آئی اورپی اے ٹی کے مارچ
کاراستہ روکنے کیلئے کنٹینرز لگانادرست تھا اورنہ ان کے حامیوں پرڈنڈے
برسانااورانہیں منتشربلکہ مشتعل کرنے کیلئے آنسوگیس کے استعمال کاکوئی
جوازتھا۔
باریش اوردرویش حاجی حبیب الرحمن نے آئی جی کا منصب پانے کیلئے دوڑ لگائی
اورنہ اپناعہدہ برقراررکھنے کیلئے حکمرانوں کی خوشامدکاسہارا لیا۔بظاہرنرم
اورحلیم حاجی حبیب الرحمن اپنی فورس کے وقارکی حفاظت کیلئے ہردباؤ کاڈٹ
کرمقابلہ کیا کرتے تھے،انہوں نے رزق،منصب اورعزت کیلئے صرف اﷲ تعالیٰ سے
رجوع کیا۔ حاجی حبیب الرحمن کسی بھی ناجائزحکم کی صورت میں جہاں ارباب
اقتدارکواپناموقف سناتے وہاں ان کے فیصلے کا منفی پہلوبھی ضرور
اجاگرکرتے۔انہوں نے بڑے جرأتمندانہ اندازسے پنجاب پولیس کوکمانڈکیا
اورانتہائی آبرومندانہ اندازسے رخصت ہوئے۔ان کے بعد خان بیگ کب آئے اورکب
چلے گئے کسی کویادنہیں۔ حاجی حبیب الرحمن کی ریٹائرمنٹ کے باوجودآج بھی ان
کا احترام ان کے عمدہ کام اوران کی دوررس اصلاحات کامرہون منت ہے۔آئی جی
پنجاب مشتاق احمدسکھیرانے بھی ایک دن ریٹائرڈہوناہے،انہوں نے ماضی میں بھی
کئی باراپنے ادارے کے مفادات جبکہ اپنے ٹیم ممبرز کے حقوق کاڈٹ کردفاع کیا
ہے۔یہ طے کرنے ہوگا پولیس نے حکومت اورریاست میں سے کس کے مفادات کی حفاظت
کرنا ہے ،اگرآج حاجی حبیب الرحمن آئی جی پنجاب ہوتے تو اپنے سابق اورقابل
پی ایس اومحمد علی نیکوکاراکے دفاع میں ڈٹ جاتے یااحتجاجاًاستعفیٰ دے دیتے
۔ مگران دنوں ایک باریش پولیس آفیسر جس طرح آئی جی پنجاب کے منصب کیلئے
شارٹ کٹ تلاش کررہے ہیں اورجس طرح اپنے ادارے کاوقارملیا میٹ جبکہ محمدعلی
نیکوکاراکی صورت میں اپنے نیک نام ساتھیوں کی گرد ن پرپاؤں رکھ رہے اس سے
ان کامستقبل چاہے روشن ہوجائے مگرضمیریقینا سیاہ ہوجائے گا۔ اگراس طرح کسی
کومنصب مل بھی جائے توعزت نہیں ملتی ۔ حضرت علی ؓ نے فرمایاتھا ،''رزق کے
پیچھے اپنی عزت کاسودانہ کروکیونکہ نصیب کارزق انسان کواس طرح تلاش کرتا ہے
جس طرح مرنے والے کوموت''۔بلاشبہ رزق کی طرح عزت اورذلت بھی اﷲ تعالیٰ کے
اختیار میں ہے ،وہ چاہے تومنصب والے کوعزت سے محروم اورچاہے تومنصب سے
محروم شخص کوعزت سے ہمکنار کردے ،انسانی تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری
پڑی ہے۔ آج محمدعلی نیکوکارا کے پاس عہدہ نہیں ہے مگر وہ اپنے
افکاروکردارکی بنیادپر اس عہد کاسرمایہ افتخاربن گئے ہیں۔ |
|