پیغام مصطفیﷺ سے انحراف اور دہشت گردی
(Prof Masood Akhter Hazarvi, )
ربیع الاول شریف کے بابرکت مہینہ
کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ وہ ماہ مبارک میں جس میں مرشد قلب و نظر، ہمارے آقا
و مولا حضور سرور کائنات ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ ایسے حالات میں اس
عالم رنگ و بو میں جلوہ افروز ہوئے جبکہ پوری انسانیت پنجہ ظلم و استبداد
میں جکڑی ہوئی تھی۔ شرق سے غرب تک اور شمال سے جنوب تک مظلوموں کا کوئی
پرسان حال نہ تھا۔ روم و ایران کی ساسانی اور بازنطینی سلطنتوں کے شہنشاہانِ
وقت عیاشیوں میں مست ہو کر اولاد آدمؑ کو اپنا زر خرید غلام بنائے ہوئے تھے۔
عورت سر بازار بکتی تھی اورعزت و وقار سے سرا سر محروم تھی۔ غلاموں کے ساتھ
جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جا رہا تھا۔ حرم کعبہ کے گرد و نواح میں
بچیاں والدین اور اعزہ و اقارب کے ھاتھوں زندہ در گور ہورہی تھیں ۔ انسانوں
کے دل اس حد تک سخت ہو چکے تھے کہ اس ظلم و ستم کو دیکھ کر بھی قومی
راہنماؤں کے ماتھے پہ اک بوند پسینہ نظر نہ آتا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جس میں
ہمارے پیارے نبیﷺ ’’رحمۃ اللعالمین‘‘ بن کر اس کائنات میں رونق افروز ہوئے۔
عربی لغت میں عالَم کی جمع عالمین ہے۔ جس کا معنی ہے’’ جہان‘‘۔ اﷲ کی ذات
کے سوا ہر چیز کو’’ عالَم‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ’’عالَمین‘‘ کی تفسیر
میں علماء محققین نے لکھا ہے کہ کئی عالَم ہیں مثلا عالَم دنیا، عالم برزخ،
عالم لاحوت، عالم ملکوت ، عالم امر اور عالم نور وغیرہ۔ کچھ محققین نے ان
کی تعداد اٹھارہ ہزار تک بیان کی ہے۔ جب نبی کریمﷺ سارے جہانوں کیلئے رحمت
ہیں لیکن آپ ﷺ کی تشریف آوری کے لیے انتخاب’’ عالم دنیا‘‘ کا ہوتا ہے تو
یقینا یہ ان کی کرم نوازی ہے۔
وہ ہر عالَم کی رحمت تھے کسی عالَم میں رہ جاتے یہ ان کی مہربانی ہے کہ یہ
عالَم پسند آیا
آپ باعث تخلیق کائنات ہیں۔ کئی احادیث قدسیہ میں ارشاد گرامی ہے کہ ’’ اگر
اﷲ تعالی نے نبی کریمﷺ کو مبعوث نہ کرنا ہوتا تو اپنی ربوبیت کا اظہار ہی
نہ فرماتا‘‘ ایک دوسری حدیث قدسی کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ اگر اﷲ تعالی نے آپ
کو پیدا نہ فرمانا ہوتا تو ان افلاک کو عدم سے وجود نہ دیتا‘‘۔
کتاب فطرت کے سرورق پر جو نام احمد رقم نہ ہوتا یہ نقش ہستی ابھر نہ سکتا
وجود لوح و قلم نہ ہوتا
یہ محفل کن فکاں نہ ہوتی جو وہ امام امم نہ ہوتا زمیں نہ ہوتی فلک نہ ہوتا،
عرب نہ ہوتا عجم نہ ہوتا
آپ نے بھر پور انداز میں مکہ مکرمہ میں اپنی عمر کے چالیس سال گزارے ۔ جب
آپ کی امانت و دیانت اور حسن اخلاق کا شہرہ عام ہو گیاتو حکم الہی کی تعمیل
میں آپ نے اظہار نبوت فرمایا۔ اولاد آدم کو حقیقی معنوں میں شرف انسانیت سے
آگاہ کیا۔ آہستہ آہستہ ظلم و ستم کے نشاں مٹتے چلے گئے۔ تیرہ سال مکہ مکرمہ
میں رہ کر انتہائی دشوار حالات میں اصلاح انسانیت کا مشن جاری رکھا۔ بعد از
ہجرت اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ حد درجہ حکمت اور دانائی کے ساتھ معاملات
کو سرانجام دیا۔ بوقت ضرورت دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بھی عہد و میثاق
کر کے معاشرہ کو قتل و غارت سے بچانے کی بھرپور کوشش کی۔آپﷺ نے ان معاہدوں
کی ہمیشہ مکمل پاسداری کی۔
جب جہاد کی فرضیت کا حکم نازل ہوا تو اس کی وجہ بھی یہی بیان فرمائی کہ ’’
اور ان کے ساتھ جہاد و قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ و فساد (دہشت گردی) مٹ
جائے اور اﷲ کا دیں خالص اسی کا ہو کے رہ جائے‘‘ گویا اسلامی جہاد و قتال
کا بنیادی مقصد ہی فساد اور دہشت گردی کا معاشرے سے قلع قمع کرنا ہے۔جہاد
کا حکم نازل ہونے کے بعد اپنے جان نثاروں کو یہ نصیحت فرما ئی کہ ’’دوران
جہاد بھی کسی کی عبادت گاہوں کو نقصان نہیں پہنچانا۔عورتوں اور بچوں کو قتل
نہیں کرنا۔پھل دار درختوں اور اناج والے پودوں کو بھی نقصان نہیں پہنچانا‘‘۔
آج ربیع الاول شریف کے اس مہینے میں پوری قوم دہشت گردوں کے ہاتھوں ظلم و
ستم کی کاروائیوں پر دل گرفتہ ہے۔ مساجد، امام بارگاہوں ، جی ایچ کیو اور
ائر پورٹس پر ہزارہا انسانوں کا خونِ ناحق بہانے کے بعد اب بات معصوم اور
پھول جیسے نو نہالان وطن کی گردنیں کاٹنے تک جا پہنچی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پیغام مصطفی ﷺ کو سمجھیں اورعملی طور پر اسے لاگو
کر کے معاشرے کو جنت نظیر بنائیں۔ آپﷺ تو جلوہ گر ہی اسی لئے ہوئے کہ لوگوں
کے دلوں کو جوڑیں۔ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’ یاد کرو اﷲ
تعالیٰ کی اس نعمت کو جب تم آپس میں دشمن ہوا کرتے تھے۔ پس اﷲ تعالیٰ نے (
نبی کریمﷺ کو مبعوث فرما کر) تمہارے دلوں میں الفت و محبت ڈال دی اور تم
آپس میں بھائی بھائی بن گئے‘‘۔
ربیع ا لا ول کے مہینے میں میلاد مصطفی ﷺ کا ذکرخیر کرتے اور آپکی یاد
مناتے ہوئے امت مسلمہ کے فرد کے طور پر ہمیں اس بات کا احساس کرنے کی بھی
ضرورت ہے کہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں آپﷺ کے بتائے ہوئے زریں
اصولوں کو اپنائیں۔ آج امت مسلمہ ذبوں حالی کا شکار ہے۔ ان حالات میں غور و
تدبر اور فکر کی ضرورت ہے۔ حضورﷺ کے ایک ایک نقش پا کو اپنا کے ہی ہم عزت و
وقار اور عظمت رفتہ کو بحال کر سکتے ہیں۔آج اسلام کے نام پر فساد فی سبیل
اﷲ کا بازار گرم ہے۔ دہشت گردی کے اس عفریت کو شکست دینے کے لئے جس طرح
پوری قوم متحد ہے اس اتحاد کو مزید تقویت دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نبی کے
بتائے ہوئے طریقے میں تو کسی غیر مسلم کے خون ناحق کو بہانے کی بھی اجازت
نہیں ہے۔ اسلامی سلطنت میں ایک ذمی (غیر مسلم جو اسلامی سلطنت میں رہ رہا
ہو) کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت بھی حکومت اسلامیہ پر فرض ہوتی
ہے۔ اگر کوئی مسلمان اس ذمی کا خون ناحق کرے تو ْ قصاص کے طور پر اس سے
بدلہ لیا جائے گا۔اسلامی اصولوں کے مطابق کسی ناحق جان کو تلف کرنے کی
اجازت نہیں۔ یہاں تک کہ اپنی جان کو تلف کرنا بھی خود کشی ہے جو کہ ایک بہت
بڑا گناہ ہے چہ جائیکہ اسلام کا جعلی لیبل لگا کے بے رحمانہ طریقے سے سکول
کے معصوم بچوں کو بے رحمانہ انداز میں قتل کردیا جائے۔
ہمارے نبی کریمﷺ نے تو اپنے بدترین دشمنوں تک کو معاف کیا اور انہیں پناہ
دی کہ شاید ان کی آنے والی نسلیں راہ راست پر آجائیں۔
ہمیں اس ماہ مبارک میں یہ پیمان وفا باندھنا ہو گا کہ ہم اپنے نبی کے دین
سے وفادار رہیں گے۔ دھوکہ بازوں اور ظالمان کے ہاتھوں اس دین متین کو
یرغمال نہیں بننیں گے۔ دہشت گردی اور فساد کو ختم کر نے کیلئے اپنا اپنا
بھر پور کردار ادا کریں گے۔ جو لوگ بھی اسلام کا نام استعمال کر کے دہشت
گردی کر رہے ہیں وہ اسلام کی بد نامی کا سبب ہیں۔ وہ مسلمانوں کو مصیبت میں
ڈال رہے ہیں ۔ان کا قلع قمع اسی طرح ضروری ہے جس طرح کے موذی جانواروں کا
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ کیونکہ ان کے کرتوتوں کے سامنے درندوں کی حرکات بھی
ماند پڑ تی جا رہی ہیں۔ |
|