تعصب کا ناسور۔۔۔!

متعصب زدہ رویوں کو ختم کرنے کی چاہے لاکھ کوشش ہی کیوں نہ کی جائے لیکن یہ ہماری فطرے میں اتنی بُری طرح رچ بس چکے ہیں کے ان سے دور ہونا شاید بے حد ملال ہے۔کہنے کو یکجہتی ہمارا پلس پوائنٹ ہے اور بظاہر ہم باحیثیت ایک قوم یکجا بھی ہیں لیکن کیا کیجیے کہ لاسانیت ہمارے ذہنوں ہر ہاوی ہے اسے اپنی نفسیات سے کھرچنے کی ہر کوشش ماند ثابت ہوتی ہے۔قومی اسمبلی پارلیمنٹ میں ہر رنگ نسل روپ کے لوگ موجود ہیں جو انفرادی ونیم اجتماعی طور پر اپنی ذات پات کے متعلق صدا بلند کرتے ہیں اور ان کا مقصد ایوان میں اقلیتوں کے جذبات کی سچی ترجمانی کرنا ہوتا ہے لیکن افسوس کا مقام بہت پست لگتا ہے کہ چند ایک رہنماؤ ں کے علاوہ اقلیتی رہنما بھی اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اور اس اقلیتی دھڑے کو کچھ فوائد و ثمرات حاصل حصول نہیں رہتے۔یہ بات بھی اپنی جگہ بجا ہے کہ ملکِ عزیز کو سچے بے عیب لیڈران کی اشد ضرورت ہے ورنہ ایسا اندیشہ بھی ہے کہ ہم نیم غریب ہوچکے ہیں پر کہیں مفلوک الحالی خدانہ خواستہ ہمارا مقدر نہ بن جائے اور ہم حیران کن طریقے سے اس سب کو خاموشی سے دیکھتے ہی رہ جائیں۔قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں یمن و سعودی عرب کی صورتحال پرہر کسی نے کھلم کھلا اپنی اراء کا اظہار کیا اور بالاخر غیرجانبداررہنے کا ارادہ کیا گیا۔بعض مفکر پاکستان کی جانب سے موجودہ صورتحال کے پیش نظر سامنے آنے والے بیانات کو اپنے تناظر مں تنہا چھوڑنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔تجزیہ کاروں کی یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہم نے یمن سے تو محصورپاکستانیوں کو نکالا اور یہ سعی اب بھی جاری ہے پرسعودی میں موجود ملازمت پیشہ اشخاص کا والی وارث کون بنے گا؟ اور عقل سے آشکار صاحبان یہ بھی بتائیں کہ کس وجہ کی بناء پر ہمیں ثالث کا کردارادا نہیں کرنا چاہیے اور ایسی کیا نوبت آپہنچی ہے کہ اس گھمبیر، ہیجانی ،اور دشوار کیفیت میں چپ سادھ لینی چاہیے۔لوگ متعصب پن کی روش کو اس قدر اپنے اوپر بھاری کر چکے ہیں کے پاکستانیوں کی آپسی چپقلش ہی درستگی کی سمت نہیں جا رہی اور ہم خود ذات ،فرقے اور لسانیت کی بھینٹ چڑے ہوئے ہیں ۔ہم اس ڈگر پر ہیں کہ ہر رنگ روپ نسل میں شدید فرق رکھتے ہیں ہماری پاکستانیت سے سرشاری کا حال جانتے ہوئے دُکھ ہوتا ہے کہ ہماپنے آپ کو اتنا سیانا سمجھداراور عقل و دا نش کا امتزاج سمجھ چکے ہیں اورہر وہ سوچ جو ہمارے ذہنوں پر غلبا پالیتی ہے اور مجھ جیسے خام عقل والے لوگ اسے خرفِ آؒخر گردان لیتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کی ہر ذات اپنے آپ میں رعونت ،تکبر کو کثیر پاتی ہے اور بابائے قوم کے فرمودات کا بھلا چکی ہے کہ یہ ملک تمہارا ہے تم نہ سندھی ہو نہ پنجابی ہو نہ تم پٹھان ہو اور نہ ہی تم بلوچ ہو یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے خود کو مختلف قبائل و گروہ میں بُری طرح تقسیم کر لیا ہے۔نامور گلوکار جواد احمد سے چند مواقع پر ملاقات ہوئی کیونکہ وہ یکجہتی کا پیغاماپنے اکثر گانوں ترانوں میں دیتے ہیں لیکن میں نے انہیں بھی لسانی تصورات میں پایا میں نے دیکھا کہ تکبر تو ان کی حسین ذات میں نہیں تھا لیکن ایک کپکپی ایک گھبراہٹ ان کے اندربھی موجود تھی وہ کہتے توہیں کہ ہم سب ایک ہیں لیکن اند ر ہی اند ر وہ زبانوں نسلوں طور طریقوں سے برملا نہ سہی لیکن اکتاہٹ ضرور رکھتے ہیں ہم ایک وطن کہ باشندے ضرور کہلوانا چاہتے ہیں مگرکدورت کا لفظ مجھے نہیں معلوم کے مناسب ہے یا نہیں پر ہم ایک دوسرے کو سمجھنے سے عاری ہیں میری یونیورسٹی میں پاکستان بھر سے طلبا ء وطالبات اپنے گھر والوں سے دور رہ کر باکمال تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے آتے ہیں کچھ بہت بگڑ جاتے ہیں اور بہت کم ایسے ہوتے ہیں جن سے کچھ بدتمیزبات چیت کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔بلاشبہ بے آسروں کی سے اظہارِ الفت کر کہ انہیں کچھ پل کے لیے بہلا لیا جاتا ہے لیکن تنہائی کے وہ لمحات دستبردار نہیں کیے جاسکتے یہ وہ حقیقت ہے جس سے دوچار ہونا ہی پڑتا ہے۔فراغت کے لمحات لائبریری میں بسر کیے جاتے ہیں ایک ایسی درسگاہ جہاں خیبرسے لے کر کراچی تک تمام تر طالبعلم سر توڑ کوشش کرتے ہیں کہ ان کا اس درسگاہ میں داخلہ ہوجائے اور انہیں رفاقت کے لمحات میسر آتے ہیں۔ہر رنگ روپ نسل کے نوجوان جو تعلیم کا حصول چاہتے ہیں دور دراز علاقہ جات یعنی اپنے آبائی گھر چھوڑ کر آتے ہیں میرے ڈھیر سے دوست مختلف قبائل کے ہیں ان کی باتیں بہت سازگار ہوتی ہیں۔میرا تعلق فقہ حنفیہ سے ہے لیکن میرے چند دوست فقہ جعفریہ سے ہیں لیکن میں ان پاک مطہرات ہستیوں کا ذکر کرنا مناب اس لیے نہیں سمجھتا کہ نہ میری اور نہ ہی میرے رفقاء کی اوقات حیثیت ہے کہ ان طاہر وپاکیز ہ بلند و بالا شخصیات کا تذکرہ کریں۔چیخ وپکار کرنے والے مولانا حضرات جو ان تمام مسائل کو شیعہ سنی مسئلہ کہتے ہیں انہیں اپنے تدبر اور تقدس کا خیال رکھتے ہوئے بھائی چارے کا درس دینا چاہیے ۔ان تمام زمانہ شناس اور تجربہ کار لوگوں سے معذرت جو کسی ایک پٹھان ،ایک مہاجر ،ایک سندھی،ایک پنجابی،ایک بلوچی کے ہاتھوں کوئی نقصان اٹھا چکے ہیں اوراجتماعی طور پر پوری متعلقہ قوم سے کوئی نقصان اٹھا چکے ہیں متحد قوم ہی ملک کی خوشحالی کی ضامن ہے لیکن اگر ہم نے ایسی دقیانوسی روایات کا گلہ نہ گھونٹا تو مخصوص قومیت کا ناسور ہمارے پیارے وطن کو بدحالی کی طرف دھکیلے گا۔ خدارا یہ جانیں کہ دنیا کے چلنے کی وجہ ہے کہ اس میں تھوڑے نہیں بہت اچھے لوگ ہیں نفسا نفسی ہے لیکن محدود ،صاحب رجائیت بھی کسی شے کا نام ہے جسے آپ کے ذہنوں میں پنپنا چاہیے ضروری نہیں کہ کسی ایک پشت و نسل والا واحد فرد پوری اس نسل کی ترجمانی کرے بلکہ ہرفرد کا انفرادی فعل ہے اس لئے اجتماعی رائے قائم کرنے پہلے سمجھ بوجھ استعمال کرنی چاہیے۔ برائیوں سے بچنا چاہیے اس دنیا فانی کی جو محض چند فسادو تفرقہ برپا کرنے والوں کی اماجگاہ ہے ہمیں فرقہ ورانہ ریت کو مٹی تلے دبا نا ہے اور اس فضول روایت کو سرائیت کرنے سے روکنا ہے تاکہ اسلام کے بتائے ہوئے اصول بھائی چارے کو فروغ ملے اور یکجہتی کافقدان اس نظام سے مٹانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ اس سے ہم نے کوچ کرجانا ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ہم سندھی،پنجابی ،بلوچی اور پٹھان بننے سے پہلے انسان بنیں پھر مسلمان بنیں پھر پاکستانی بنیں تاکہ روزِمحشر اﷲ کے حضور سرخرو ہو سکیں۔
Waqar Butt
About the Author: Waqar Butt Read More Articles by Waqar Butt: 31 Articles with 25323 views I am student at Government College University Lahore plus freelance columnist .. View More