ٹریفک جام۔۔ ۔۔!

گذشتہ ہفتے ایک ادبی محفل میں جانے کا اتفاق ہوا تقریب کا آغازشام چار بجے شروع ہونا تھا اورہماری کوشش تھی کہ ہم وقتِ مقررہ پر لازمی پہنچ جائیں لیکن کراچی کی شاہراہوں کی صوتحال سے کون واقف نہیں ہے ایک عجیب گہماگہمی ایک عجیب بے ہنگمی کی صورتحال ،جہاں دیکھو ٹریفک کی یلغارجدھر دیکھوہر چھوٹی بڑی شاہراہ پر ٹریفک کا اجتماع تندو تیز بجتے ہارنوں کے ساتھ خان صاحب کے میوزیکل دھرنے کی یاد تازہ کر رہا تھا۔ ہم آٹو رکشہ میں سوار اِس کبھی نہ ختم ہونے والے دھرنے میں شامل تھے اورجاوید ہاشمی کی طرح بڑی بے صبری سے اِس دھرنے سے نکلنے کی تدبیریں لڑارہے تھے لیکن کوئی تدبیر نہ بن پارہی تھی ۔ ابھی ہم شور کرتی گاڑیوں کے رش میں پھنسے اضترابی کیفیت میں مبتلا تھے کہ ہم نے دیکھا ایک شخص جس کے ہاتھ میں نائلون کے دھاگے سے بنا ایک پنجرہ نماتھیلاتھا جس میں پانچ چھ چڑیا قید تھیں وہ شخص رش میں موجود ایک کار کے قریب آیا اور کار کے مالک سے پنجرے میں موجود چڑیاؤں کے بارے کچھ بولنے لگا جس پر کار کے مالک نے ایک سو کا نوٹ اُس پنجرے والے کو دیا اور پنجرے میں موجود تمام چڑیاؤں کو آزاد کرنے کو کہا۔ اُس شخص نے فوراً سو کا نوٹ اپنی جیب میں ڈالا اور اُس نائلون کے تار سے بنے پنجرے میں موجود اُن تمام چڑیاؤں کو آزاد کردیا ۔ہم آزاد ی حاصل کرنے والی چڑیاؤں کو اُڑتا دیکھ کرمسرور ہونے لگے ، اور یقینا دوسری جانب ثوابِ دارین حاصل کرنے والے کار کے مالک بھی یہ سب دیکھ کر مسحورہوئے ہونگے اور خود کو کافی ہلکا محسوس کررہے ہونگے، صرف ایک سو کے نوٹ سے اپنے لئے جنت میں جانے کیا کیا نہ بناڈالاہوگا۔ہم اُن اُڑتی چڑیاؤں کو دیکھتے رہے باغور دیکھنے پر پتا چلا وہ ٹھیک سے اُڑ نہیں پارہی ہیں وہ اُڑتی اُرتی شاہراہوں کے درمیان لگے سبزے کی ایک نچلی ٹہنی پر بیٹھ گئیں شاید وہ زیادہ اوپر اڑھ نہیں پارہی تھیں کچھ ہی دیر بعدکیا دیکھتے ہیں کہ وہ پنجرے والا شخص دوبارہ اُن چڑیاؤں کے قریب آیا اور ایک مخصوص آوازکے ساتھ سیٹی بجاتے ہوئے اُن چڑیاؤں کوپھر سے پکڑنے کی کوشش کرنے لگا ۔وہ اُن چڑیاؤں کو دوبارہ پکڑ سکا یا نہیں اور کسی اور موصوف کو ثوابِ دارین حاصل کرنے کا موقع فراہم کرسکا یا نہیں یہ ہم نہیں بتا سکتے کیونکہ ٹریفک دھرنا کافی آگے نکل چکا تھا ،ابھی کار کے مالک پوری طرح مسحور ہونے بھی نہ پائے تھے کہ ایک بوڑھی عورت اُس کار والے کے پاس آئی دھوپ گرمی سے جُلسے ہاتھوں کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی مفلسی کی فریاد سنانے لگی مفلس عورت کی فریاد سن کر ثوابِ دارین حاصل کرنے والے کار کے مالک نے بوڑھی عورت کے ہاتھ میں پانچ کا سکہ تھمادیا جسے خاموشی سے لیکر وہ بوڑھی عورت سکے کو اُلٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے چلی گئی۔ ہم یہ بات آج تک نہ سمجھ پائے کہ چڑیاؤں کا دانہ زیادہ مہنگا تھا یا اُس بوڑھی عورت کے پیٹ کی آگ بجھانے والی روٹی زیادہ مہنگی تھی یاپھرچڑیاؤں کی وہ آزادی جو کہ درحقیقت ایک فریب تھی۔۔۔؟؟خیر چھوڑیں میں بولوں گا توبولو گے کہ بولتا ہے۔

تِل مانِک بڑھتا سسکتا کھسکتا ٹریفک کا یہ اجتماع ایک دردِسر بننے لگا تھا ٹریفک کے شور کے ساتھ اچانک انسانی شور بھی سنائی دینے لگا ، شور کی آواز آنے پر ہم نے آٹو رکشہ سے اپنی گردن کو باہر نکالا تو پتا لگا چورنگی پر گاڑیاں ایک دوسرے سے متصادم ہیں اور سیاست دانوں کی طرح پہلے میں پہلے میں پر بضد ہیں جبکہ بے چارہ ٹریفک سارجنت پاکستانی عوام کی طرح ملے گا ملے گا سب کو موقع ملے گا کی رَٹ لگائے عجیب کشمکش میں مبتلا نظر آرہا تھا ۔جلدبازی اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے نااہلوں نے سڑک کو بری طرح جام کر رکھا تھا۔ قارئین ٹریفک جام کی مین اوربڑی وجہ ٹریفک قوانین پر عمل نہ کرنا ہی ہے ،ہمیں یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی کہ لوگ گاڑی چلاتے وقت ٹریفک قوانین کا احترام کیوں نہیں کرتے ، آخر کیوں اپنا نقصان آپ کرتے ہیں ہم پوچھتے ہیں آخر کیا چلا جائے گا اگر رولز کو فالو کرتے ہوئے ڈرائیو کریں، ٹریفک قوانین کا احترام کرنے سے آپ خود کوبہت بڑے نقصان سے بچاسکتے ہیں ۔ صرف چند منٹ بچانے کے لئے غلط ڈرائیو کرتے ہوئے گھنٹوں کا انتظار خود بھی کرتے ہیں اور دوسروں کے قیمتی وقت کے ضیاء کا باعث بنتے ہیں،یہ بھول جاتے ہیں کہ پانچ دس منٹ کی جلدبازی صدیوں کی تاخیر میں بدل سکتی ہے۔ خاص کر آج کے منچلے نوجوان جو انتہائی کم عقلی کا مطاہرہ کرتے ہوئے سڑکوں پر اپنی موت کو دعوت دیتے ہیں ایسے نوجوانوں کے والدین کو سوچنا چاہیئے کہ وہ اپنی الادوں کو اس جہالت گردی سے روکیں اور انھیں صحیح معاشرتی اقدار سمجھائیں۔قارئین اگر آج ہم اِن چیدہ چیدہ اصولوں کو اپنانا شروع کردیں معاشرے کی بگڑتی اقداروں کو سنوانا شروع کردیں آج سے یہ عہد کرلیں کہ اب ہم نے ایک پڑھے لکھے مہذب لوگوں کی طرح اپنی گاڑی کو ڈرائیو کرنا ہے ٹریفک قوانین کی پابندی کرنی ہے سنگنلز کو فالو کرنا ہے اپنے گھروں سے بے شک پانچ دس منٹ پہلے نکل جائیں لیکن سڑکوں پر شاہراہوں پر ہم نے کسی سنگنلز کو نہیں توڑنا کسی گاڑی کو اورٹیک نہیں کرنا۔ اگر ہم واقعی ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یقینا ہم اپنی نسلوں کو ایک مہذب معاشرہ دے کر جائیں گے اپنے ملک سے غربت مفلسی اور حقیقی روح کی تسکین کے زرائع فراہم کرجائیں گے ۔
علی راج
About the Author: علی راج Read More Articles by علی راج: 128 Articles with 115831 views کالم نگار/بلاگر.. View More