اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
(شکیل اختر رانا, karachi)
ہمارے محلے کی مسجد گاؤں کی سب
سے پرانی مسجد تھی اور اپنی عمر کے اعتبار سے پاکستان سے 10 سال بڑی
تهی،1937 میں تعمیر ہونے والی یہ مسجد گاؤں کے تمام گھروں اور گھروندوں سے
پرانی اور خستہ حال تھی،1996 میں ایک ریٹائرڈ فوجی نے مبلغ 10000 روپے خرچ
کر اس کو عارضی طور پر چمکا دیا تها،مگر چند ماہ بعد ہی نقوش رفتگان چونے
کی اوٹ سے پهر جھانکنے لگے تھے،ایک مرتبہ کسی نے یہ بات اڑادی کہ مسجد
چونکہ خستہ حالی کا شکار ہو چکی ہے،اور اس کی دیواریں کھڑی کرنے والے مستری
صادق اور چهت کی لکڑیوں میں کیلیں ٹھونکنے والے قادر ترکهان دونوں کی قبریں
بهی اپنا نشان کهو چکی ہیں اس لیے اب اس مسجد کو شہید کر کے،نئی مسجد تعمیر
کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے کی اشد ضرورت ہے....یہ بات سنتے ہی
محلے کے مرد تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے,
پہلا گروپ ان بزرگ افراد پر مشتمل تھا جن کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا
گیا ہے، لکیلا یعلم بعد علم شیئا، یعنی وہ عمر کے اس حصے میں پہنچے تهے جب
انسان کی کھوپڑی میں عقل کا بیلنس ختم ہوجاتا ہے،اور انسان اگلی زندگی سے
کچھ لمحے ادھار لے کر اپنی زندگی کی گاڑی کھینچنے کی کوشش کرتا ہے،سب سے
قلیل تعداد پر مشتمل اس گروہ کے ٹوٹل دو افراد کا موقف یہ تها کہ یہ مسجد
ہمارے باب دادا کی نشانی ہے،اور ہمارے جیتے جی کوئی مائی کا لال اس کی ایک
اینٹ بهی ادھر سے ادھر نہیں کرسکتا،اور اگر کسی نے ایسی کوئی غلطی کی تو وہ
اپنے انجام کا خود ذمہ دار ہوگا،ان دوبزرگوں کو کچھ آخرت پلٹ قسم کی خواتین
بزرگنوں کی حمایت بهی حاصل تهی،یہ ایک ایسی سوچ کی ترجمانی تهی کہ کسی کے
دماغ کے گڑھے میں عقل کا ایک گھونٹ پانی بهی موجود ہوتا تو اس سوچ کی حمایت
نہیں کرسکتا تها......
دوسرا گروہ ادهیڑ عمر افراد پر مشتمل تها،جو اس بات پہ تو متفق تهے کہ مسجد
قابل رحم ہے،اس کی جگہ ایک نئی مسجد تعمیر بهی کرنی چاہیے مگر سوال یہ ہے
کہ نئی مسجد پر کم از کم 15 لاکھ کے اخراجات کا تخمینہ ہے،اس کو کہاں سے
پورا کیا جائے گا،کیونکہ گائوں کی اکثریت تو امام صاحب کو ماہانہ 20 روپے
دینے سے بهی گریزاں ہے،چہ جائیکہ وہ تعمیر کے لیے ہزاروں یا لاکھوں کا چندہ
دینے پر راضی ہوں،ان کی سوچ یا تو اس نیک کام سے فرار کا ذریعہ تهی،یا شاید
ان کی ذہنی تربیت میں اس قدر کجی تهی کہ وہ کن فیکون سے اتنی بڑی دنیا
بنانے والے خدا کو بهی خود پر قیاس کررہے تھے،حالانکہ اس گروہ میں کچھ ایسے
افراد بهی موجود تهے،جو بغیر کسی پریشانی کے 15 لاکھ روپے عطیہ کرکے پوری
مسجد اکیلے تعمیر کرواسکتے تهے،مگر ایں طاقت بزور بازو نیست..........
تیسرا گروپ نوجوانوں پر مشتمل تها،جن کی سرپرستی چند نوجوانوں علماء کررہے
تھے،ان کا موقف تھا کہ مسجد سے شرقاً،غرباً،شمالاً اور جنوبا ہر کسی نے
اپنا نیا مکان تعمیر کروایا ہے،ان نئے گھروں کے بیچوں بیچ خدا کا یہ گهر
آثار قدیمہ کی کوئی عمارت معلوم ہوتی ہے،یہ انتہائی شرم کی بات ہے،اپنے
اپنے گھروں کو پتهر اور سمینٹ کی اینٹوں سے تعمیر کرکے مختلف اقسام کے
رنگوں سے رنگتے وقت اس خانہ خدا کا خیال اگر دل میں جاگزیں نہ بهی ہوا
ہو،تو کم از کم اس کی تلافی کے لیے تمام محلہ داروں کو حسب توفیق حصہ ملاکر
اس گهر کی تعمیر شروع کرنی چاہیے،جو کچھ ہمارے بس میں ہے ہم کر گزریں اور
بات جب ہمارے بس سے باہر ہوجائے تو ہم اس کے مکلف نہیں،خدا اپنے گھر کی
تعمیر کے لیے خود اسباب پیدا کرے گا.......
ان تین گروہوں کے باہمی اختلاف کی وجہ سے نئی مسجد کی تعمیر کا منصوبہ
گهٹائی میں پڑ گیا،اور دو صنف کے بزرگوں کے دباؤ کی وجہ سے نوجوان بهی اپنا
حوصلہ کهو بیٹھے، نتیجتا نئی مسجد کا معاملہ سرد مہری کا شکار ہو گیا،
یہ آج سے دو سال قبل کی بات ہے کہ پہلے گروہ کے دونوں بزرگ حیات عارضی کے
کی قید سے مخلصی پاکر یکے بعد دیگرے قبر کی پاتال میں اتر گئے،ان کے جانے
کے بعد جگهڑے کا ایک طاقتور فریق آپ ہی آپ ختم ہوچکا تھا، یہ صورت حال دیکھ
کر مسجد بناو کمیٹی کے نوجوان پهر سرگرم ہوگئے،فریق ثانی کے کچھ افراد نے
مزاحمت ضرور کی مگر نوجوان اپنے رب پر بھروسہ کرکے کام میں لگ گئے،نہ کوئی
چندہ مہم شروع ہوئی اور نہ ہی تعاون کے لیے بورڈ اور بینر لگے،بس اس یقین
کے ساتھ پرانی مسجد کو شہید کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا کہ اللہ کا گھر ہے
اور اللہ تعالی اپنے گھر کی تعمیر خود مکمل کروالے گا،یہ خبر جب محلے کے
گھروں میں پہنچی تو دادی اور نانی قسم کی چند خواتین نے سخت احتجاج کرتے
ہوئے یہ تنبیہ کی کہ اللہ کا گھر گرانے والوں پہ اللہ کا عذاب آجاتا ہے،اس
لیے کام سے فورا رجوع کرنا چاہیے مگر ان کی آواز حیثیت کے اعتبار سے نقار
خانے میں طوطی کی آوز سے آگے نہ بڑھ سکی، خیر پرانی مسجد کو شہید کرنے کا
سلسلہ مزید تیز ہوگیا-
ابهی مسجد مکمل طور پر شیہد نہیں ہوئی تھی کہ محلے کے ایک نوجوان آفیسر نے
50 بوری سمینٹ مسجد کے لیے اپنی طرف سے عطیہ کرنے کا اعلان کردیا،یہ اعلان
سن کر نوجوانوں میں عقابی روح بیدار ہو گئی اور ان کو اپنی منزل ایک
عالیشان مسجد کی صورت میں نظر آنےلگی،مسجد شہید کردی گئی،نئی مسجد کا نقشہ
تیار ہوا،محلے کے تمام نوجوان اور بزرگ اپنے سارے کام ملتوی کرکے مسجد کے
کام میں جت گئے،مستریوں نے اپنے اوزار سنبھال لیے،نوجوان ان کی مدد کرنے
لگے،بزرگ اینٹوں کو پانی دینے لگے، بچے چھوٹے موٹے کاموں میں لگ گئے،
خواتین گھروں میں کھانے پکانے میں مگن ہوئیں، مردوں سے لے کر خواتین تک
بچوں سے جوانوں تک، نوجوانوں سے بزرگوں تک سب کے سب شدت جوش سے شاد و فرحاں
دکھائی دے رہے تھے۔۔
یہ جوش و خروش دیکھ کر مالداروں کے سر سے بخل کا سایہ بھی اٹھ گیا،اور حاتم
طائی کی قبر لاتوں کی شدت برداشت نہ کرسکی،کسی نے سریا اپنے ذمے لیاکوئی
ریتی بجری دینے بہم پہنچاتا رہا،اسی دوراں شہر کے ایک صاحب حیثیت شخص نے
چهت کا پورا خرچہ اپنے ذمہ لینے کی نوید سنائی......نتیجتا جس کام کو
بزرگوں کی نشانی اور فنڈ کی کمی کا بہانہ بناکر ایک عرصہ دراز سے ٹالا
جارہا تها وہ کام چند نوجوانوں کی محنت اور خلوص کی وجہ سے اس قدر جلد
انجام پزیر ہوا کہ جس دن پرانی مسجد کی پہلی اینٹ اکھاڑ دی گئ تهی،اس سے
ٹھیک 8 ماہ بعد گائوں کی سب سے بڑی اور سب سے پہلی آر سی سی مسجد میں پورے
گاؤں کے لوگ ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد محلے والوں کی جانب سے کی گئی
ضیافت سے مستفید ہورہے تھے...... |
|