بچپن کا روزہ اور والدین کی محبت

ہمارے گاؤں کے45سال سے اوپر کے تمام بزرگ مردوں اور خواتین کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب رمضان کے مہینے میں کوئی نابالغ بچہ دن کے 12 بجے تک روزہ رکھے،تو اس کے بعد اسے روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ہے،گاؤں والوں کی خودساختہ روایات کے مطابق 12 بجے تک نفلی روزہ رکھنے کے بعد اس نابالغ بچے پر روزہ فرض ہوجاتا ہے،جب روزہ فرض ہوا تو ہھر روزہ توڑنے کا کیا سوال؟

ایک مرتبہ میں بھی اس من گھڑت اجماع کی بھینٹ چڑھ گیاتھا،ہوا یوں کہ اپنے ہم عمر بچوں کو روزہ رکھتے اور پھر افطار کے وقت ان پہ ہونے والی مہربانیاں دیکھ کر ایک دن میرا بھی جی چاہا کہ کیوں نہ روزہ رکھ کر اپنا نام روشن کیا جائے،چانچہ اس رات اہتمام کے ساتھ سحری کے لیے جاگا اور دیسی گھی،اںڈے، پراٹھے وغیرہ سے خوب جی بھر کر سحری کی،اور صبح افطار کی حسین یادیں دل میں سماکر اسکول پہنچا،کسی نہ کسی طرح تمام استادوں اور طالب علموں کے کانوں میں بھی یہ بات ڈال دی کہ آج میرا روزہ ہے،استادوں سے بھرپور داد و تحسین سمیٹنے کے بعد اندر ہی اندر خوشی سے نہال ہوا، اور اسکول سے چھٹی کرکے جب گھر لوٹ رہا تھا، تو راستے میں محسوس کیا کہ میرے عین سر کے اوپر کھڑا سورج میرے روزے کی فرضیت کا اعلان کررہا تھا،یہ خیال دل میں آتے ہی پیٹ کے کیڑوں نے احتجاجی مظاہرہ شروع کردیا،گلہ خشک ہوکر پانی کی بلائیں لینے لگا،زبان تالو سے لگ گئی اور افطار کے لیے باقی چند گھنٹے شمار کرکے ٹانگوں نے بھی جواب دیا،گرتے پڑتے، ہانپتے کانپتے،لرزتے لڑکھڑاتے گھر پہنچا تو اماں جان گھر کے صحن کے بیچوں بیچ بہنے والی نہر پہ نماز ظہر کے لیے وضو کررہی تھی...

اماں کو دیکھتے ہی جسم میں باقی تمام تر قوت مجتمع کرکے چنےلانے لگا،اماں جان وضو ادھورا چھوڑ کر دوڑے دوڑے میرے پاس آئی، کیا ہوا میرے بچے کو،پھر میرا ہاتھ تھام کر نہر کے اس پار بٹھاکر وضو سے فارغ ہوگئیں اور گھر کے صحن میں مصلی بچھاکر نماز کی نیت باندھنے لگی،میں نے کہا اماں مجھے بھوک لگی ہے،میں روزہ نہیں رکھ سکتا،یہ سن کر اماں نے کانوں کو ہاتھ لگایا،توبہ کر بیٹا ابھی تو ایک بجے ہیں، تو جانتا ہے کہ 12 بجے کے بعد روزہ توڑنا گناہ ہے،میں نے کہا اماں میں گناہ ثواب کچھ نہیں جانتا میں تو بس یہ جانتا ہوں کہ میں بھوک اور پیاس کی شدت سے نڈھال ہورہا ہوں،ماں نے مجھے بہت سمجھایا مگر میں نے سمجھنا ہی نہیں تھا، کیوں کہ سامنے ناشپاتی کےدرخت پر لٹکتے ناشپاتی میرا منہ چڑارہے تھے،اتنے میں اماں نے نماز کا ایک مرحلہ مقرر کیا، اب کی بار میں مصلے پہ لیٹ گیا، میں نے کہا اماں آپ خود کہا کرتی ہیں کہ نماز میں ہم اللہ میاں سے باتیں کرتے ہیں، آپ اللہ میاں سے اجازت لے لو نا اس کو تو پتہ ہوگا کہ مجھے کتی بھوک لگی ہے،آپ ہی تو بتایا کرتی ہیں کہ اللہ تعالی دلوں کے بھید کو بھی جانتا ہے، یہ باتیں سن کر کچھ دیر تک تو اماں خاموش رہی اور پھر کہنے لگی، بیٹا بات یہ ہے کہ اس وقت ساری دنیا اللہ تعالی سے باتیں کررہی ہے،پتہ نہیں مجھ گناہ کار کی بات اللہ تک پہنچ بھی جائے گی یا نہیں، ہاں رات کے آخری پہر میں اللہ تعالی سب کی آواز کو غور سے سنتا ہے،میں اس وقت پوچھ لوں گی، بس بیٹا کچھ گھنٹے انتظار کر، میرا وعدہ ہے آج سحری کے وقت اللہ تعالی سے پوچھ لوں گی....

یہ باتیں کرنے کے بعد اماں پھر نماز مین مشغول ہوگئ، تو میں نے کہا، ٹھیک ہے اماں اگر آپ اجازت نہیں دیتی ہیں تو میں نالے میں چھلانگ لگاکر خود کشی کرتا ہوں، یہ کہنے کے بعد میں اٹھ گیا اور ایک پتھر ناشپاتی کے درخت کی جانب اچھال دیا تو دو عدد ناشپاتی میری قدم بوسی کرنے لگے،دونوں کو اٹھا یااور نالے کی جانب ڈھلوان میں اتر کر گائوں والوں کے اجماع کی ایسی کی تیسی کرنے لگا،ابھی بمشکل تمام ایک ناشپاتی کو کیفر کردار تک پہنچایا تھا کہ اوپر صحن کی جانب سے چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگی،یہ آوازیں سن کر میں نے سوچا شاید ابا جان نے کسی غلطی پر چھوٹی بہن کو پیٹ دیا ہوگا، کیوں کہ اباجان کا غصہ رمضان میں 100 سے ضرب کھاتا ہے،مگر ہر گزرتے لمحے چینخنے چلانے کی آوازیں بلندسے بلندتر ہوتی گئیں،صورت حال جاننے کے لیے میں نے سر اٹھا کر صحن کی جانب دیکھا تو میں مبہوت ہوکر رہ گیا ،اماں جان دیوانہ وار صحن کے اس کونے سے اس کونے تک بھاگ رہی تھیں،سر سے دوپٹہ بھی گر چکا ہے،کبھی ادھر جھانک رہی ہیں کبھی ادھر،ہم اس وقت جس گھر میں رہتے تھے اس کا صحن بہت وسیع تھا،اور نشیب کی طرف نالہ بہتا تھا،بعض جگہیں اتنی خطرناک تھیں کہ انسان وہاں سے پھسل جاتا تو بچنے کا کائی امکان نہیں تھا،والدہ کو کو نماز کے دوران ہی خوف لاحق ہوگیا تھا کہ مبادا میں کوئی ایسی ویسی حرکت کر بیٹھوں،اس خوف کی وجہ سے وہ نماز توڑ کر میرے تلاش میں نکل کھڑی ہوئی تھی،اتنے میں والد صاحب اور دیگر بہن بھائی بھی وہاں جمع ہوگئے اور مختلف اطراف میں پھیل کر مجھے تلاشنے لگے،جس جانب میں چھپا ہوا تھا، اس جانب والد صاحب آگئے، میں تمام تر صورت حال کو سمجھ ایک کونے میں دبکا بیٹھا تھا، والد صاحب مزاج کے اتنے سخت ہیں کہ ان کو دیکھ کر قریب تھا کہ میں نالے کی جانب پھسل جاتا،مجھے دیکھتے ہی والد صاحب کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے،پھر وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوئے: بیٹا اوپر آکر کھاؤ نا یہ کیا بات ہوئی بھلا کہ ناشپاتی کھانے کے لیے اتنا نیچے اتر گئے،والد صاحب کے اس سلوک کو دیکھ کر میرا خوف ختم ہوا، اور میں اوپر آیا،اتنے میں والدہ اور دیگر گھر والے بھی وہاں پہنچ گئے،والدہ مجھے دیکھتے ہی جھپٹ پڑی اور سینے سے لگاکر خدا معلوم کتنی دیر تک روتی رہی....اور اس وقت کسی کو یاد نہ رہا کہ گائوں والوں کے اجماع کا جنازہ نکل چکا ہے.......
Shakeel Akhtar Rana
About the Author: Shakeel Akhtar Rana Read More Articles by Shakeel Akhtar Rana: 36 Articles with 50596 views Shakeel Rana is a regular columnis at Daily Islam pakistan, he writs almost about social and religious affairs, and sometimes about other topics as we.. View More