امن کے لیے علم کی ضرورت

آج کل یورپ میں زیر بحث موضوعات میں موسمیاتی تبدیلیاں ایک اہم اور بنیادی موضوع ہے۔وہاں کا میڈیا اور سیاستدان دنیا کو درپیش اس چیلنج پر گفتگو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان کی تمام تر فکر اور نظر عالمی درجہ حرارت میں اضافے پر مرکوز ہے۔وہ اس بات پر فکر مند ہیں کہ اگر موسمی درجہ حرارت میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو آنے والے وقتوں میں موسم کی شدت اور اس کے ناموافق اثرات سے کس طرح نمٹا جائے گا۔ان کے ہاں عالمی امن پر گفتگو اور مباحثے کم ہی ہوتے ہیں ایشیا میں سلگتے ہوئے جنگ کے شعلوں کی تپش سے وہ خود کو میلوں دور محسوس کرتے ہیں ۔مسلم ممالک میں ہونے والی خون ریزی کے متعلق ان کی سفارتی تشویش تو سامنے آتی ہے مگر بطور ریاست وہ ان سارے امور سے الگ تھلگ ہیں۔ہاں البتہ جہاں امریکہ کو ضرورت محسوس ہو وہاں وہ مذاکرات کے لیے دستیاب ہوتے ہیں اور اپنی تجارت کی فکر میں ایران کے ساتھ معاملات بھی طے کر لیتے ہیں ۔جب تک ان کی تجارت اور معیشت ترقی کر رہی ہے انہیں کسی اور جانب توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔باقی براعظموں کے معاملات میں براہ راست الجھنے سے گریز کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یورپی معاشرہ انسانی جان کے حوالے سے پر امن معاشرہ ہے اور وہاں زندگی پر سکون ہے ۔

اگر ہم ایشیائی ممالک پر نظر ڈالیں تو یہاں بھی کچھ ممالک میں زندگیاں محفوظ اور انسانی جان کی قدر و قیمت باقی ہے ۔جنوبی کو ریا ،چین ،ملائشیا،سنگاپور ،تائیوان،چین ، جاپان،سری لنکا اور کسی حد تک ترکی وغیرہ ایسے ممالک ہیں جہاں زندگی خوبصورت ہے اور وہاں کے معاشرے پر امن ہیں ۔

اگر موجودہ دور میں مسلم ممالک کو دیکھا جاے تو بڑے دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان کے معاشرے انتشار اور بد امنی کا شکار ہیں ۔ان معاشروں میں انسانی جان کی وہ قدر و منزلت نہیں جو دوسروں کے ہاں ہے۔ جنگ و جدل اور مسلح جدو جہد ان کا شوق بنتا جا رہا ہے ۔قتال اور جہاد کے نظریات پروان چڑھ رہے ہیں ۔فرقے کی بنیاد پر ایک دوسرے کو مارنے کی باتیں اب عام ہوتی جا رہی ہیں تاریخ کے پرانے اوراق نکال کر اپنی اپنی فضیلت اور حقِ ملکیت کوثابت کیا جانے لگا ہے۔قبائلی سوچ اجتماعی سوچ پر غالب آنے لگی ہے۔ ایک دوسرے کو کافر ،مرتد اور خارج از اسلام ثابت کرنے کے لیے خون کے دریا عبور کر لیے جاتے ہیں۔ایک دوسرے پر فوقیت اور برتری صرف لاشوں کے ڈھیر پر چڑھ کر ہی ثابت کی جا سکتی ہے۔عام لوگ تو ایک طرف اب حکومتیں بھی اس کھیل میں شامل ہو چکی ہیں ۔پرانے وقتوں میں جھانکنے کی ضرورت نہیں 1980کی دہائی سے شروع ہونے والی ایران او رعراق کی جنگ سے لیکر اب یمن سعودی انتشار تک فرزندانِ توحید کی ایک بڑی تعداد اپنی زندگی جیسی خوبصورت نعمت سے محروم ہو ئی۔ایک بڑی تعداد زخمی ہو کر اپاہج ہوئی اور لاکھوں عورتیں بے آسراء ہوئی۔یہ سب کس کی وجہ سے اور کیوں ہوا؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے مگر اس کا جواب صرف اور صرف مذاکرے اور مطالعہ کے ذریعے ہی تلاش کیا جانا چاہیے۔سب کچھ اغیار اور استعمار پر ڈال دینا ہی کافی نہیں ہے ۔اس کشت و خون میں اپنوں کے بھی ہاتھ رنگین ہیں ۔مسلم معاشرے کو تدبر اور فکر کی آج جتنی ضرورت ہے شاہد ہی تاریخ میں اس سے قبل اتنی کبھی ہو۔

آج کا مسلم معاشرہ تیزی سے ایک نئی جنگ کا شکار ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔لاشوں کا بنتا ہوا پہاڑ اور خون کابہتا ہوا دریا ہر آنکھ دیکھ رہی ہے۔ایسے میں اہل علم،ادیب اور دانشور طبقے کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے وہ مسلم امہ کی رہنمائی کر سکتے ہیں علماء اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں انسانی جان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے یورپ سے بھی رہنمائی لی جا سکتی ہے وہاں انسانی جان کی حد درجہ قدر و منزلت پائی جاتی ہے۔کسی کی جان لینے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ہے انہوں نے امن علم کی بدولت حاصل کیا ہے۔ انہوں نے خطبہ حجتہ الواداع پر خلوص کے ساتھ عمل کیا ہے اور مسلمان اس سے دور ہوتے چلے گئے ہیں وہ اسلامی تعلیمات کے قریب ہو کر امن کی منزل پا گے اور مسلمان اپنی تعلیمات سے دور ہو کر دنیا کو اپنے لیے جہنم بنا بیٹھے ہیں ۔ مسلم معاشرے میں اس حکم کو دوبارہ اپنی زندگی کامنشور قرار دینے کی ضرورت ہے جس میں کہا گیا کہ آج کے بعد کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فوقیت نہیں ۔جان مال اور عزت کی حرمت کا حکم پھر سے یاد کرنے کا وقت ہے ۔ جہاں علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیا گیا ہو وہاں جہالت کا کیا کام ہے۔ مسلم امہ کو آج شہر علم میں داخل ہونے کی ضرورت ہے ۔دروازہِ علم سے ہی علم کی خیرات مل سکتی ہے اسی دروازے سے امن اور انسانی جان کی قدر معلوم کی جا سکتی ہے ۔جہاں اپنے قاتل کو بھی شربت پلایا جاتا ہو وہاں سے نفرت کبھی بھی نہیں پھوٹ سکتی ہے۔لہذا مسلم معاشرے کو اپنی اصل کی ہی طرف لوٹنا ہو گا اور علم کے ہتھیار سے جہالت کے دشمن پر وار کرنا ہو گا اسی حربے سے وہ سرخرو ہو سکتے ہیں۔
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 61658 views i am columnist and write on national and international issues... View More