مسلم نوجوانوں میں الحاد کیوں بڑھ رہا ہے؟

مولانا عبدالماجد دریاآبادی رحمۃ اللہ علیہ(متوفی 1976ء) کئی اردو اور انگلش کتابوں کے مصنف ہیں...اور اردو و انگلش میں قرآن مجید کی تفسیر بهی لکه چکے ہیں......اپنی آب بیتی میں فرماتے ہیں کہ میری پیدائش ایک مذہبی گھرانے میں ہوئی....اور تربیت دینی ماحول میں.....ماں اور بڑی بہن کو تہجد گزار پایا.....اور والد محترم کو بھی پابند صوم و صلوۃ اور خاصا دیندار پایا.....دینداری کے ساتھ علم دین کا چرچا بھی گھر میں تھا.......

یہ تو ان کا گھریلو ماحول تھا.....اور اچھا خاصا مطالعہ وہ میٹرک پاس کرنے تک کرچکے تھے...
اب آگے سنیے!!!!

یہ جب کالج جانے لگے تو مطالعے کا شوق انہیں مختلف لائبریریوں میں لے گیا.....اور فرنگی فلسفیوں، دیسی و فرنگی ملحدین کے کتابوں کا مطالعہ کرتے کرتے یہ الحاد کی طرف مائل ہوگئے.....اور ایک کٹر ملحد بن گئے......تقریبا 10 سال کا عرصہ اسی الحاد میں گزارا.....بعد میں دیگر مذاہب کا مطالعہ کرتے کرتے علامہ شبلی رحمہ اللہ کی کتاب" سیرت النبی صؒلی اللہ علیہ وسلم و دیگر کتابوں کا مطالعہ کرنے بعد آہستہ آہستہ اتنے بدل گئے گئے کہ الحاد سے توبہ تائب ہوکر مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے مرید بن کر مرتے دم تک اسلام کی ایسی خدمت کی آج علماء کی صفوں میں ان کا نام عقیدت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے....اور سینکڑوں کتابیں تصنیف کرنے کے بعد1976ء میں راہی دار بقا ہوگئے....

ملحدین کی کونسی باتوں نے انہیں متاثر کیا،اس بحث کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا کر رکھتے ہوئے یہاں پر یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مولانا نے کن اسباب کے تحت الحاد اختیار کیا؟

جس کے بارے میں مولانا کے اپنے الفاظ یہاں بیان کرتا ہوں ، تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ آج کل کے مسلمان الحاد سے متاثر کیوں ہوجاتے ہیں، مولانا فرماتے ہیں کہ
" مذہبی مطالعہ اس وقت بھی کچھ ایسا کم نہ تھا، لیکن فرنگی الحاد کے جس سیلاب عظیم سے ٹکراو تھا اس سے مقابلہ کے لیے وہ مطالعہ ہرگز کافی نہیں تھا"

ابتدا میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ مولانا کس طرح کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے، اور مطالعہ کا شوق انہیں بچپن سے ہی تھا، مگر اس کے باوجود الحاد کی جانب مائل ہونے کی سب سے بڑی وجہ انہوں نے اسلامی مواد کے مطالعے کی کمی کو قرار دیا ہے...

اب آپ گزشتہ باتوں کی روشنی آج کے مسلمانوں کی حالت زار کا جا ئزہ لیں تو یہ بات بہ آسانی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آج کے اس دور کے مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ مسلمان گھرانوں میں اسلامی تعلیمات اور قران و حدیث کے علوم کا پرچار نہیں ہوتا.....بچپن سے انگریزی تعلیم میں پڑنے کی وجہ سے یہ کسی کو فرصت ہی نہیں ملتی کہ قران و حدیث کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کرے....جب مسلمان سن شعور کو پہنچتے ہیں تو بلا ججک و بے دھڑک ایسی کتابوں کا مطالعہ کرتا شروع کردیتے ہیں.....جن میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمیت مذہبی تعلیمات کے خلاف زہر بهرا ہوتا ہے....اب خود کو حقیقت معلوم تو ہے نہیں....کیونکہ کبهی اس حوالے سے مطالعے کا اتفاق ہی نہیں ہوا.....لهذا وہی زہر دماغ میں سرایت کرنے لگتا ہے....جو اس کتاب میں بیان ہوا ہے.....نتیجتاً عقلیت پرستی کا شکار ہوکر....یہ لوگ اسلام سے کنارہ کشی اختیار کر تے ہیں...آپ ایک نظر اپنے اردگرد کے ماحول کی طرف دوڑا دیں...تو ایسی مثالیں آج ہر جانب نظر آئیں گی... کہ اسلام پہ اعتراض کرنے والے روشن خیال اور جدت پسند طبقے میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو فلسفہ و منطق پر تو عبور رکھتے ہیں مگر اکثریت کو کلمہ شہادت کا مفہوم بھی معلوم نہیں....

دوسراالمیہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے ماضی سے بالکل بے خبر ہوچکے ہیں، ایک صدی قبل کے مسلمانوں کے بارے میں انہیں کوئی خبر نہیں کہ مسلمان اس وقت کن حالات میں زندگی گزار رہے تھے،اگرمسلمان عروج پر تھے تو اس کی وجوہات کیا تھیں اور اگر مسلمان زوال کا شکار تھے تو کن اسباب کی بنا پر،جب تک ہم اس چیز کو نہیں سمجھیں گے، ہم کامیابی کے طریقہ کار کا چناو ہر گز نہیں کرسکتے...

تیسرا المیہ یہ ہے کہ آج ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لوگوں کو علماء سے بدظن کیا جارہا ہے، عوام دن بدن علماء سے دور ہوتے جارہے ہیں....اور دوسری جانب متجددین ایک نئے دین کا جال بچھا کر عوام کے ایمان کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں، اور بہت سارے مسلمان متجددیں اور لبرلز کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر غیر شعوری طور پر اسلام کے دائرے سے نکل جاتے ہیں..

چوتها المیہ یہ ہے کہ ہماری مسجدوں جو ائمہ حضرات ہیں ان میں سے ایک اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہے...جنہیں نماز کے فرائض بهی معلوم نہیں...چہ جائیکہ وہ عوام کی رہنمائی کریں....ضرورت اس امر کی ہے کہ جید علماء آپس میں مل کر سب سے پہلے تمام مساجد میں ایسے علماء کی تعیناتی کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں جو نمازیں پڑهانے کے ساتھ عقائد اور معاملات میں بهی لوگوں کی رہنمائی کرسکیں....
ان چار خرابیوں کی وجہ سے آج کا مسلمان کبھی ملحدین سے متاثر ہوجاتا ہے، کبھی لبرلز اور سیکولرز کی باتیں اسے اچھی لگتی ہیں تو کبھی، متجددین کی تاویلات اسے بھاتی ہیں،وجہ یہ ہے کہ وہ نہ اسلامی تعلیمات سے باخبر ہوتا ہے، اور نہ ہی اسلامی تاریخ سے بہرور....

اگر ہر مسلمان پہلے مکمل طور پر اسلامی تعلیمات اور تاریخ کا مطالعہ کرے، علماء کرام سے اپنا تعلق مضبوط رکھے،اور اس کے بعد پھر جاکر کسی بھی نظام کا جائزہ لے تو یہ بات وہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ راہ نجات صرف وہی ہے جو اسلام نے بتائی ہے، اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا بہتر طریقہ وہی ہے جو نسل در نسل اسناد صحیح کے واسطے سے آُپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رض تک، صحابہ کرام سے تابعین اور تبع تابعین سے ہوتے ہوئے آج ہم تک پہنچا ہے.....

اس وقت تمام طبقات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ خدا را اپنی اپمی ذمہ داریوں کا احساس کریں..... سنتے ہیں کہ الحاد اس وقت دنیا کا تیسرا بڑا مذہب بن چکا ہے......اور مسلم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آئے روز اس اندھے کنویں میں چھلانگ رہی ہے.....

اگر آج بهی ہمیں ہوش نہیں آیا.......تو اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں وہ ابابیل بهیج کر بهی اپنے دشمنوں کو کو برباد کرنے پر قادر ہے........

مگر من حیث القوم ہم تمام مسلمان کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟؟؟
Shakeel Akhtar Rana
About the Author: Shakeel Akhtar Rana Read More Articles by Shakeel Akhtar Rana: 36 Articles with 47436 views Shakeel Rana is a regular columnis at Daily Islam pakistan, he writs almost about social and religious affairs, and sometimes about other topics as we.. View More