مدارس کے اساتذہ کے تنخواہوں کا مسئلہ
(شکیل اختر رانا, karachi)
گزشتہ دنوں جنگ اخبار میں سلیم
صافی صاحب کے کالم میں جناب امیر جان حقانی صاحب کے ایک خط کے مندرجات شائع
ہونے کے بعد مدارس کے اساتذہ اور طلباء میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوچکا ہے.......اس
کے علاوہ سوشل میڈیا پر اس خط کو ہر طرح کا طبقہ اپنے مقصد کے لیے دلیل
بنانے کی کوشش کررہا ہے.....امیر جان حقانی صاحب کو میں ذاتی طور پر
جانتاہوں......اس کے علاوہ زندگی کا ایک طویل عرصہ مختلف مدارس میں گزارنے
کی وجہ سے مدارس کے احوال سے بخوبی واقفیت بهی رکھتا ہوں..... تو میری کوشش
ہوگی کہ جس بات کو میں حق سمجھتا ہوں اس کو حق کہتے ہوئے لومتہ لائم کی
پروا نہ کروں.... اور جس بات کو غلط سمجھتا ہوں اس کو غلط کہتے ہوئے اپنا
فرض کو پورا کرنے کی کوشش کروں...
اس وقت سلیم صافی صاحب کا کالم میرے سامنے ہے......
اس کالم کا دو پہلو سے جائزہ لینا ضروری ہے....سب سے پہلے ہمیں سیلم صافی
صاحب اور امیر جان حقانی صاحب کے ذاتی کردار کو ایک نظر دیکهنا ہوگا اور
دوسرے نمبر پر یہ دیکهنا ہوگا کہ موجودہ حالات میں اس موضوع کو اٹھانا نیک
نیتی پر مبنی ہے یا مدارس کے خلاف بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے مترادف
ہے.....
امیرجان حقانی صاحب میرے دستیاب معلومات کے مطابق علماء اور مدارس سے محبت
رکھنے والے انسان ہیں....اور مختلف مقامات پر مدارس اور علماء کے دفاع میں
پیش پیش رہے ہیں ....اور اس وقت بهی گلگت بلتستان کے سب سے بڑے مدرسے کے
ساتھ منسلک ہیں اور مدرسے کے سہہ ماہی میگزین کے مدیر بھی ہیں....اس لیے ان
کی نیک نیتی پر شک نہیں کیا جاسکتا......
البتہ ان کی جانب سے پیش کیے گئے مندرجات پر دو وجوہات کی بنا پر تنقید کی
جا سکتی ہے...... اب میں اس پورے خط کو یہاں لکھنے سے تو رہا ....مگر جو
حضرات اس خط کو دیکھ چکے ہیں وہ یہ بات بخوبی جان سکتے ہیں کہ اس خط کو نہ
مکمل طور پر رد کیا جاسکتا ہے......اور نہ ہی اس کو من عن قبول کیا جاسکتا
ہے.........
اس خط میں پورے نیٹ ورک اور اس سے منسلک افراد کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے
کی کوشش کی گئی ہے.... اس خط کو دیکھنے کے بعد ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ
تاثر ضرور ابھرا ہوگا کہ جو صورت حال مہتممین اور اساتذہ کی اس خط میں بیان
کی گئی ہے ....شاید اس پورے نظام کی بنیاد ہی اس قاعدے پر قائم ہے کہ مہتمم
اور اس کے بیٹے مرسڈٰیز میں گھومتے ہیں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کھانا
کھاتے ہیں جب کہ دیگر اساتذہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگ گزار رہے
ہیں حالانکہ یہ سراسر خلاف واقعہ ہے.........
پاکستان میں موجود بڑے مدارس میں سے کسی ایک پر ان مثالوں کو منطبق کرنا
بهی مشکل ہے... چہ جائے کہ سب کو اس میں شامل کیا جائے.....اگر اکا دکا
کوئی واقعہ ہوا بهی ہو تو اتنے وسیع نظام میں ایک واقعے کی بنیاد پر اتنا
پورے سسٹم کو ہدف تنقید بنانا ہرگز قرین قیاس نہیں ہے.....
تنخواہوں کے حوالے سے جو بات کی گئی ہے اس کو بعض درمیانے درجے کے مدارس
اور چھوٹے مدارس کے حوالے سے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں.....اس
حوالے سے ضروری اقدامات کرنے کی سخت ضرورت ہے.... جب کہ بڑے مدارس میں
اساتذہ کے تمام ضروریات کا خیال رکھا جا تا ہے....باقی مرسڈیز اور بنگلوں
والی بات مبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں.....
دوسرا پہلو یہ ہے میری معلومات کے مطابق حقانی صاحب کا یہ خط کافی پرانا
ہے....اس خط کو اگر ایک سال پیچھے جاکر دیکها جائے تو تھوڑا بہت اختلاف تو
ہوسکتا ہے....مگر اتنی شدت اس وقت نہیں ہوسکتی تهی جتنی کہ اب ہے ...
کیونکہ موجودہ نازک صورتحال میں جب مدارس اپنی دفاع کی جنگ لڑرہے ہیں اور
ساری مشینری ان کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے میں مصروف ہے... اس موقع پر
سلیم صافی کی جانب سے اس خط کو ملک کے سب سے کثیرا لاشاعت روزنامے میں ذکر
کرنا مدارس کو مزید متنازعہ بنانے کی ایک مذموم کوشش ہے.... کیونکہ ماضی
قریب کے پس منظر میں اگر سلیم صافی صاحب کا کردار دیکها جائے تو یہ سمجھنا
چنداں مشکل نہیں کہ یہ کس مائنڈ سیٹ کی نمائندگی کررہے ہیں..... یہ وہی
سلیم صافی ہیں جس نے جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن صاحب اور لال
مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز صاحب کو اپنے پروگرام میں بلاکر الٹے سیدھے
سوالات کے ذریعے مدارس اور دینی طبقات کو بدنام کرنے کی ایک بهرپور کو شش
کی تهی....... سلیم صافی صاحب سے میرا سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے نیک نیتی کی
بنیاد پر اس خط کو اپنے کالم میں شامل کیا ہے تو ایک سال تک آپ انتظار کیوں
کرتے رہے.... یقینا آپ اس طرح کے کسی موقع کے تلاش میں ...
اس کے علاوہ ایک اہم بات کی طرف توجہ مبذول کروانا بهی ضروری ہے کہ مدارس
کے نام پر ملک کے مختلف حصوں میں کاروبار کا جو جال بچھایا گیا ہے.... بڑے
مدارس کے منتظمین اور وفاق المدارس کے اکابرین کو چاہیے کہ اس حوالے سے
اپنا نقطہ نظر واضح کرتے ہوئے الحاق پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت
ہے..... محض داڑھی اور ٹوپی کے بل بوتے پر کرائے کے مکانات میں اپنا
کاروبار چلا نے والے کچھ لوگ ایسے بهی ہیں جو بذات خود دینی تعلیمات سے دور
کا بهی تعلق نہیں رکھتے ہیں.. اور گائوں دیہات سے تین چار غریب بچوں کو
سیمپل کے طور مدرسے میں رکھتے ہیں اور پورا دن گلی کوچوں میں جاکر بهیک
مانگتے ہیں اور مدارس اور علماء کو بدنام کر رہے ہیں.....اور بورڈ لگا رکها
ہے.... ملحق وفاق المدارس.....یا بنوری ٹائون وغیرہ وغیرہ... |
|