آزادی نسواں کا تصور حجاب کے
شرعی احکام کے ساتھ متصادم تصور کیا جاتا ہے.تو ہم اپنے موضو ع میں حجاب کو
بھی شامل کریں گے.پہلے ہم ان الزامات کا جائزہ لیتے ہیں جنکا اظہار اکثر
مغربی پروپگینڈہ میں کیا جاتا ہے.جیسے کہ اسلام میں عورتوں کو نقاب یا پردے
کے سخت احکام کے ساتھ چار دیواری میں قید کردیا گیا ہے.وہ مردوں کی طرح
تعلیم حاصل نہیں کرسکتیں.انکے لیئے لباس کی بھی سخت پابندیاں ہیں.وہ مردوں
کے شانہ بشانہ مختلف کارہائے زندگی میں حصہ نہیں لے سکتیں اور نہ ہی
کارنامے انجام دے سکتی ہیں...وغیرہ وغیرہ
بہرحال یہ ایک طویل بحث ہے.مگر یہ ہماری موجودہ مسلمہ امت کا المیہ ہے کہ
ماسوائے چند پڑھے لکھے اور دین کی بنیادیات سے قدرے آگاہ طبقات کے علاوہ
دوسرے نچلے طبقات کے پاس علم اور بنیادی معلومات کا فقدان ہے.یہی وجہ ہے جب
ہم سے اکثر غیر مسلم جب یہ سوال کرتے ہیں تو ہمارے پاس دینے کے لیئے کوئ
مدلل جواب نہیں ہوتا...
اسکے لیئے میری حکومت وقت اور علماء اور مشائخ سے عاجزانہ اپیل ہے کہ وہ
اسکے سدباب کے لیئے بہتر اصطلاحات تجویز کریں اور عمل بھی.........
ہمارا اس بات پر ایمان محکم ہےکہ اس کائنات کو پیدا کرنے والا اللہ تعالی
ہے.اب چاہے وہ انسان ہو یا دنیا کی اور کوئ بھی جاندار ذی روح تمام مخلوقات
کا پیدا کرنے والا اور نظام کائنات چلانے والا میرا رب ہی ہے.گذرتے وقت کے
ساتھ بہت سی نشانیاں ایسی سامنے آرہی ہیں جس سے اسلام کے حلقہ میں روز بروز
اضافہ ہورہا ہے....
اگر آپکا ایمان اپنے رب پر قائم ہے ..تو کیوں نہ اس کا کا جواب بھی اس ہی
پاک ذات سے طلب کرتے ہیں...
مرد اور عورت کو اسی نے پیدا کیا تو انکی پیدائش کا مقصد بھی اس سے بہتر
کون واضح کر سکتا ہے؟؟؟؟
میری اس بات سے آپ یقیننا الجھ گئے ہوں گے. بھلا ہمارے سوال کا اللہ تعالی
براہ راست جواب کیسے دے سکتا ہے؟؟؟؟تو چلیئے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے
ہیں......
یہ نعرہ تو بڑے زور و شور سے لگایا جاتا ہے کہ عورتوں اور مردوں کو برابری
کی بنیاد پر کام کرنا چاہیئے.اور معاشرے کی بتدریج بدلتی صورتحال اس بات کی
طرف واضح اشارہ کرتی ہے کہ ہم مغرب کے اس تصور کو تیزی کے ساتھ اپنا رہے
ہیں.
کیا خوب قیامت کی نشانی ہو کیا کوئ اور
سورج بھی نکلتا ہے مغرب کی سمت سے
حیاء غزل
جب مرد اور عورت ایک ہی کام کے لیئے پیدا کیئے گئے تو دونوں کا جسمانی
نظام، مزاج، ساخت، صلاحیتیں جدا کیوں ہیں؟؟؟؟؟؟
میں یہ نہیں کہتی ہے عورتیں وہ سب نہین کر سکتیں جو مرد کرسکتے ہیں.پر کیا
یہ ضروری ہے کہ اس فرق کو مٹانے کے لیئے ایک جیسا لباس پہنا جائے، ایک جیسا
ہیئر اسٹائل اپنایا جائے.یا اپنی چال کو تبدیل کیا جائے یا پھر ضرورت سے
زیادہ بے باکی اپنائ جائے جو درحقیقت صنف نازک کے قدرتی خواص کو تقریبا
تباہ کردیتی ہے...
اکثر خواتین یہ سوال کرتی نظر آتیں ہیں.....اللہ تعالی نے انسان اور اپنے
رابطے کے لیئے بہت سارے راستے تجویز کیئے ہیں.
کیا آپ میرے ساتھ ان راستوں کو کھوجنا چاہیں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
قر آن کریم اصلاح اور ہدایت کے لیئے ایک بہترین ذریعہ ہدایت
سب سے پہلے تو جو الہامی کتابین اتاریں گئیں ان میں بڑی واضح ہدایات درج
ہیں پر افسوس سوائے قرآن مجید کے اب کوئ بھی کتاب اصلی حالت میں موجود نہیں
ماسوائے ان شقوں کے جو قرآن مجید میں دوبارہ اختصار کے ساتھ بیان کردیں
گئیں.باوضو ہوکر غیر جانبدارانہ طور پر یہ اسلیئے کہا کہ اگر آپ مسلمان
نہیں بھی ہیں تب بھی ایک بار اپنی زبان کے ترجمے کے ساتھ اس کا تفصیلی
مطالعہ ضرور کیجئے سو فی صد سوالوں کا جواب آپ بنا کسی عالم کی مدد کے خود
ڈھونڈ لیں گے...قرآن میں آپ کا مخاطب خود ذات باری تعالی ہے اور یقیننا اس
سے بہتر اور مدلل جواب کوئ نہیں دے سکتا....
آپ سورت النساء کا مطالعہ کریں یا سورہ طلاق یا سورہ المائدہ غرض ابتداء سے
لے کر اواخر تک آپکے کافی سوالوں کے جواب آپ کو باآ سانی مل جائیں گے....
اللہ تعالی سے رابطے کا بہترین طریقہ اسکی طرف سے بھیجے گئے پیغمبر اور
رسول
اللہ تعالی نے ایک اور بہترین راستہ انسانوں کو دیا ہے آپسی رابطے کو قائم
رکھنے کے لیئے.انسانوں میں سے ہی کچھ خاص ہستیاں اس کام کے لیئے منتخب کی
گئیں یا یوں کہہ لیں انھیں مبعوث کیا گیا تاکہ وہ مزید واضح طریقے سے اسکی
تعلیمات کو عام ذہنوں میں اجاگر کریں.اسکی بہترین مثال خود ہمارے نبی کریم
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ہستی ہے جنکی پوری زندگی قرآن
مجید کی اور اللہ تعالی کے احکامات کا نچوڑ ہے.اور اس بات سے غیر مسلم بھی
انکار نہین کر سکتے کہ وہ کوئ فرضی انسان نہیں آج بھی دنیا کی بہترین
شخصیات کے انتخاب میں ماشا ء اللہ سر فہرست ہیں.اور تا قیامت رہیں گے.
عورت کی آزادی سے متعلق اور حقوق و فرائض اور دیگر احکامات کی بہترین تشریح
اور مسائل کا بیان آپ اسوہ حسنہ کے مطالعے سے حاصل کر سکتے ہیں.اب یہ ہماری
ذہنی نا پختہ گری کہہ لیں یا بھیڑ چال کہ ہم آج بھی اپنی تقریرون میں
شیکسپیئر اور سگمنڈ فرائڈ کے بیان کردہ اصول ہائے زندگی کا تو فخریہ ذکر
کرتے ہین اور اسے اپنا علمی تدبر خیال کرتے ہین پر اس شخصیت کے اقوال کو
اور پوری زندگی کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہین جو بلاشبہ سب سے بہتر اور
مدلل تجزیہ پیش کرتی ہے.
کیا آپ یہ بات جانتے ہیں جس مغرب کا آپ ڈھول پیٹتے ہیں وہاں بھی قرآن اور
اسوہ ء حسنہ کا تفصیلی اور تجر باتی جائزہ لیا جارہا ہے بلکہ اسے اپنانے کی
کوشش بھی کی جارہی ہے.... آگے ہم مغربی معاشرے میں خود انکے قائم کردہ
مروجہ اصولوں کی روشنی میں نوجوانوں پر مرتب ہونے والے اثرات کا بھی جائزہ
لیں گے.
جبتک کے لیئے الوداع
بہرحال یہ ایک نشست کی بحث نہیں.اپکی آراء اور سوالات کا انتطار رہے گا
شکریہ
حیاء غزل |