دنیا میں جنگی اخلاقیات کی تنفیذ
(Dr Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
یمن ،عراق ،شام،فلسطین اور
افغانستان میں جنگیں ہورہی ہیں ،جہاں جنگی اخلاقیات اورآداب کی کچھ جگہوں
پر تنفیذنہیں ہوتی،جس کی وجہ سے وہاں المناک وقعات رونماہو رہے ہیں،ہم اس
موضوع کوایک نئےزاویے سے لیتے ہیں ،شاید زاویہ بھی نیا نہ ہو ،البتہ اس کی
طرف توجہ اور اھتمام نہ ہو ،اس پر فوکس نہ کیا گیا ہو۔وہ یہ کہ اسلام نے
قرآن و سنت کی زبان میں پندرہ صدیاں قبل دشمن سے پیار ، جنگ میں امن ،یا
جنگ برائے امن ،حالت غضب میں بھی برداشت،حلم وبردباری اور گردن زدنی (قصاص)
میں سب کی حیات وزندگی کا تصور اوردرس دیاہے ، اسلام میں ناحق خون بہانے کی
قطعاً اجازت نہیں دی گئی؛ بلکہ جو بالمقابل ہے اسی سے لڑو، لاشوں کو مثلہ
نہ کرو، شب خون نہ مارو، اذیت دے کر قتل نہ کرو، راہبوں، گوشہ نشینوں،
معذوروں، عورتوں، بچوں بوڑھوں کو نہ چھیڑو، عمارت نہ ڈھاؤ، پھلدار درخت نہ
کاٹو، جو لوگ تمہارے قیدی بن جائیں ،ان سے حسن سلوک کا معاملہ کرو، ان کو
کھانا کھلاؤ اور لباس کا خیال رکھو۔ صلح پر کوئی قوم آمادہ ہو تو تم بھی
پیغام صلح قبول کرو۔قرآن نے قیدیوں کے کھانا کھلانے کو بہترین عمل قرار دیا
ہے۔ پھر ارشاد ہوا ،آبادی کو نہ اجاڑو ،یہاں تک کہ فخر و غرور پر مشتمل
نعرے بازی سے بھی منع فرمایا۔ گویا اسلام نے جنگ کو مخالفین کےلئےایک
تادیبی عمل قرار دیا ہے اورحالت جنگ میں بھی اہل اسلام کوتقوی ،خشیت ،خوف
خدا اورکثرت سے اللہ تعالی کی یاد کا حکم حیوانیت ونفسانیت کی واضح نفی
کرتاہے:
( 45) مومنو! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو
اور خدا کو بہت یاد کرو تاکہ مراد حاصل کرو ۔
( 46 ) نيز خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ
(ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا اور صبر
سے کام لو۔ کہ خدا صبر کرنے والوں کا مددگار ہے .
( 47 ) اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو اِتراتے ہوئے (یعنی حق کا مقابلہ کرنے
کے لیے) اور لوگوں کو دکھانے کے لیے گھروں سے نکل آئے اور لوگوں کو خدا کی
راہ سے روکتے ہیں۔ اور جو اعمال یہ کرتے ہیں خدا ان پر احاطہ کئے ہوئے ہے
۔(الانفال)۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص)نے فرمایا:دشمن سے
جنگ کی تمنا نہ کرو،ہاں جب سر پر آجاۓ،توپھر ڈٹے رہواور اللہ کو
یادرکھو،اگردوران کارزار دشمن شوروغل اور طبلے بجانا شروع کریں ،تو تم
خاموش ہی رہنا۔
حدیث میں ہے : اللہ تعالی کو تین مواقع پر خاموشی بہت پسند ہے،قرآن کی
تلاوت ،دوران جنگ اور جنازے کے وقت۔
ایک اور جگہ مروی ہے:میرا مکمل بندہ وہ ہے جو دشمن سے مڈھ بھیڑ کے وقت بھی
ہمیں یاد رکھے۔
یہ بطور اصول وکلیات اسلامی علوم وتاریخ کا حصہ ہیں،جن پر ایمان لانا ہر
مسلمان کا فرض ہے ، جب اسلام نےان درخشاں اصولوں میں پہل کی تھی،تب اس
زمانے میں کوئی اقوام متحدہ ، حقوق انسانی کمیشن ، بین الاقوامی عدالت
انصاف ،icrc اور آداب القتال پر مشتمل کتب ومقالات کا تصور بھی نہ تھا ، اب
یہ سب کام ہو چکا ہے ، غیر مسلموں نے بھی ان کلیات کو اپنا لیا ہے ، اِن کی
تعلیم دی جارہی ہے ، ان کی اشاعت ہو رہی ہے ، انہیں عام کیا جارہاہے ،پھر
بھی جنگوں میں انسانی ،معاشرتی اور سماجی اخلاق اور حقوق کا جنازہ نکالا
جاتاہے ،بڑی بے دردی سے ان قوانین کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ، تعجب کی بات
یہ ہے کہ آج کے مسلمان بھی ان کا خیال نہیں رکھتا اور اس سے زیادہ تعجب کی
بات یہ ہے کہ دنیا میں مھذب کہلانے والی اقوام بھی من حیث الافراد و
الاقوام ان اخلاقیات کو در خور اعتناء نہیں سمجھتیں ، دھڑلے سے ان اخلاقیات
کوپامال کر تی ہیں ، غیر جنگی لوگوں کو ہدف بنایاجاتاہے ،بچوں اور خواتین
کو نہ صرف مارا جاتاہے، بلکہ نشان عبرت بنایاجاتاہے ،بوڑھوں ، بیماروں اور
عام شہریوں کوٹارگٹ کیاجاتاہے ،مساجد،مدارس ،عبادت خانوں
،ہسپتالوں،کارخارنوں تک کو نشانہ بنایاجاتاہے ، آزادی اور جمہوریت لانے کے
نام پر یہ سب کچھ کیا جاتاہے ،جب آپ نئی نسل کو ماردینگے ،خواتین کو ظلم کا
نشانہ بنا دینگے ، اسکولوں ،مدرسوں اور مساجد و معابد کو ویران کردینگے تو
آزادی کن کیلئے ،حریت کن کیلئے ، جمہوریت اور ترقی کن کیلئے ،ملکوں کو تباہ
کرکے، ان میں شرفاء کو قید یا قتل کرکے وہاں جب آپ نو آبادیات یا کٹھ
پتلیاں قائم کردینگے ،وہاں کے ذخائر پر قبضہ جما دینگے ، وہاں آپس میں
نفرتیں اور کدورتیں بو دیں گے ، وہاں دجالی انداز میں کسی کو تخت پر کسی کو
دار پر لے آئینگے، تو یہ ڈیموکریسی کس بات کی ؟
امریکہ نےویت نام،افغانستان اور عراق میں،برطانیہ نے اپنے مستعمرات
میں،فرانس نے مشرق عربی اور مالی میں،چین نے سنکیانگ اور تبت میں اور روس
نے ما تحت جمہوریات،کریمیا،چیچنیااورشام میں یہی تو کیا ہےاورتاحال ظلم
وستم کایہ منحوس بازارگرم ہے ،درحقیقت یہ جنگ نہیں بلکہ ظلم وعدوان اور
انسانیت سوزی کی آخری شکل ہے، ان لوگوں کی سفاکیت کی مختصر روداد یہ ہے کہ
ان کی دونوں عظیم جنگوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق چارکروڑ انسانی
جانیں تلف ہوئیں،ستم ظریفی دیکھئے انہیں پھر بھی عقل نہ آئی۔
مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں یا ملکوں اور ا ان کی فواج کے سر براہوں
کو اخلاقیات ضرب وحرب کا پتہ نہیں ہے ،یا انہیں معلوم نہیں ہیں ،زیادہ
ترمسئلہ اپنے اوپر اور جارحیت کرنے والوں کے اوپر ان اخلاقیات کو لا گو
کرنے کا ہے ، ان کی تنفیذ اور نفاذ کا ہے ، اب بڑی اور با اثر طاقتیں
کیاکرتی ہیں ، وہ اقوام متحدہ ،بین الاقوامی عدالت انصاف اور حقوق انسانی
کمیشنز کے پلیٹ فارمز پر پہلے تو کسی جنگی جرم کا اعتراف نہیں کرتیں اور
اگر کہیں کرلیتی ہیں ، تو پھر خودہی اپنی خطاؤں کی وکالت کرتی ہیں ، خود ہی
وکیل بن جاتی ہیں ، چھوٹے لوگ غلطی کریں یا نہ کریں ،ان پر ناکردہ جرائم
تھوپ دئے جاتے ہیں ،پھریہ طاقتیں ان پر جج بن کربراجمان ہو جاتی ہیں ، مدعی
بھی خود اور جج وقاضی بھی خود، اب اے صاحبان عقل ودانش ،آپ ہی بتائیے گا ،
کہ انسان جب اپنی اخطاء واغلاط کا وکیل بن جائے اور مخالفین کی غلطیوں
وخطاؤں کا جج ، تو کیا فیصلے قانون وانصاف کے مطابق ہوں گے ، یا { انا} کے
مطابق ، ظاہر سی بات ہے کہ عمومی طورپر انا کو ترجیح دی جاتی ہے ،اسی دوغلے
پن سے چھوٹی قومیں بد اعتمادی کا شکار ہوجاتی ہیں ، جنگل کا قانون دیکھ کر
وہ بھی جنگل کے قانون پر اترآتی ہیں ، پھر دھشت گردی ہوتی ہے اور دہشت گرد
پیداہوتے ہیں ،جب بھی معاشرے میں فصل بہار کے بجائے فصل خزاں کا راج شروع
ہوتاہے اور لوگ فلسفۂ قانون واخلاق سے نکل کرلاقانونیت اوربد اخلاقی پر آتے
ہیں ،یا اس کے شکار ہوتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں
کہ وہاں مساوات ، عدل اور انصاف کا فقدان ہوتاہے ۔
"بہر حال قانونِ اسلام یا احکامِ الٰہی میں سے ہر حکم کی بنیادی طور پر دو
جہتیں ہیں: مصالح کا حصول، مفاسد کا دفع۔ مثلاً کسب حلال کروتو چوری ڈکیتی
اور حرام کاری سے بچوگے۔ چوری ڈکیتی میں گرفتار ہوئے تو مستحق سزا۔
جس طرح انسانی زندگی میں معمولی مرض کا قبل از وقت علاج کیا جاتاہے اور جب
چھوٹی سی پھنسی جان لیوا پھوڑے کی صورت اختیار کرلیتی ہے ،تو اس حالت میں
پورے جسم کو دائمی سکون پہنچانے کے لئے انسانی بدن کے اس حصہ پر نشتر لگانا
ناگزیر ہوجاتا ہے، کبھی تو مریض خود یہ کام انجام دیتا ہے اور کبھی اس کی
معاونت کے لیے پورے خاندان کی محنتیں اس کے ساتھ لگی ہوتی ہیں۔ انسانی
معاشرہ کی مثال بھی جسم انسانی ہی کی سی ہے، اگر جسم صحت مند ہے تو سوچ،
فکر اور عمل کی قوتیں بھی صحت مند رہیں گی ورنہ وہ چلتا پھرتا ہڈیوں کا
ڈھانچہ کہلائے گا۔
انسان کی معاشرتی زندگی میں اس کے جان ومال، عزت وآبرو، ایمان و اعمال
وغیرہ کو جو چیز بھی آزمائش وخطرے میں ڈالے ،وہ فتنہ ہے اور اس کی زندگی
میں جو شئے ناہمواری پیدا کردے وہ فساد ہے، ان دونوں کا سدّباب ایک ایسا
انسانی فریضہ ہے جس کا کوئی عقلمند انکار نہیں کرسکتا، اور اس کے لیے تگ و
دو اور طاقت و قوت کا استعمال بھی عین فطرت کے مطابق ہے۔ قرآن کہتا ہے:
فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے۔ اس لیے کہ کسی کا قتل اس کی ذات سے متعلق ہوتا ہے
،لیکن فتنہ کا تعلق اجتماعیت سے ہے اور اس سےپورے معاشرے کے خطرے میں
پڑجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
غور و خوض کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ طاقت وہتھیار کے صحیح استعمال پر
اپنی انسانی زندگی کا مدار ہے۔ انسان اگر اپنی روزمرہ کی زندگی کا بنظر
غائر مطالعہ کرے تو اس کا زاویہٴ فکر اسی نقطہ پر پہنچے گا کہ ہر مثبت شے
اپنے بالمقابل منفی شے سے آمادۂ جنگ اور برسرِ پیکار ہے، جیسے دوا کا
استعمال جسمانی بیماریوں کے خلاف ایک جنگ ہے۔ اسی طرح تہذیب وتمدن کی دنیا
میں جہالت وناشائستگی کا قلع قمع کرنے کے لیے تعلیم و تربیت سب سے بڑا
ہتھیار ہے۔
اب اس تمہید کے مطابق جو جنگ فطرت کے موافق انسانی معاشرہ کے جانی ومالی
اور اخلاقی تحفظ کے لیے فتنہ وفساد کی سرکوبی کرتی ہے اس کو فطری جنگ کہا
جائے گا، اوراس کو جہاد اسلامی سے بھی تعبیر کیا جائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ تعلیمات نبوی سے ملنے والے اس اصول کو بھی پیش نظر رکھنا
چاہئے کہ فطری جنگ کا اصل ہدف کیا ہے؟ اس کے مقاصد دولت و اقتدار کا حصول،
جذبہٴ انتقام کی تسکین، یا نفسانی خواہشات کی تکمیل اور نسل کشی نہیں ،بلکہ
اس کا ہدف اعظم صرف اور صرف انسانیت کی سربلندی، آدمیت کا قیام اور اخلاقی
قدروں کی حمایت ہے اورانسان کو اس کا پیدائشی حق ”جیو اور جینے دو“ فراہم
کرنا ہے۔ درحقیقت اسلام کا پورا نظام ہی انسانی زندگی کی بقا اور اس کی
شادابی کے لیے ہے۔
اسی کے ساتھ غیراخلاقی جنگ کا منظرنامہ بھی دیکھتے جائیے، اس جنگ میں
بہیمیت کا انتہائی گہرا رنگ ہوتا ہے، انسانی قدریں مفقود ہوتی ہیں اور حرص
وہوس، نفسانیت اور حصول اقتدار ہی کا غلبہ ہوتا ہے، پھر عورت کیا، بچے کیا،
بوڑھے، معذور اور بیمار کیا ہر ایک کو تختۂ مشق بنایا جاتا ہے، ہر طرف خون
خرابہ کا دور دورہ ہوتا ہے، وقت کی کوئی قید نہ حملوں کا کوئی اصول ، اور
نہ ہی کسی مقدس مقام کا کوئی احترام۔ اس کی بے ضابطگی کو قرآن نے انتہائی
مدلل انداز میں ذکر کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے : (اگر مالک ارض وسما اور رب
حکیم اخلاقی جنگوں کے ذریعے فسادیوں اور شرانگیزوں کوبیخ وبن سے اکھاڑ
پھینکنے کا انتظام نہ فرماتے ،تو نہ کوئی دیروکلیسہ، چرچ وگرجا گھر، اور نہ
ہی کوئی عبادت گاہ و سجدہ گاہ محفوظ رہ پاتی اور یہ شرپسند لوگ زمین کی
خوشگواریوں کو خاک میں ملاکر فتنہ وفساد سے اسے آلودہ کرڈالتے)یوں انسانیت
میں امن وسلامتی تباہ وبرباد ہوجاتی"۔ (ملخص ازماہنامہ دارالعلوم دیوبند)۔
ان اخلاقیات کی تنفیذ کیسے کی جائے ، icrc اس کے لئے کوشا ں ہے،لیکن و ہ
توایک واعظ اور مبلغ ادارہ ہے، کوئی قوت حاکمہ یا منفذہ نہیں ہے،ہاں اس کی
آواز بازگشت مقتدر ایوانوں تک پہنچتی ہے،لہذا ہم بڑی طاقتوں کی خدمت میں
چند تجاویزپیش کرنا چاہینگے، جو مندرجہ ذیل ہیں:
(1) انسانی اخلاقیات کی تعلیم کا ہرسطح پر اھتمام۔
(2) جنگی اخلاقیات کی تعلیم کا سیکورٹی اداروں میں بندوبست۔
(3) عرب فلموں کی طرح میڈیا میں جنگی اخلاقیات پر فلمسازی ۔
(4) ماردھاڑ اور خطرناک وخونخوار فلموں پر پابندی ۔
() بین الاقوامی عدالت انصاف میں حقیقی عدل وانصاف پر عمل درآمد ۔
() اقوام متحدہ اور سیکورٹی کو نسل میں بے لاگ اصلاحات ۔
(7) اخلاقیات جنگ پامال کرنے والے ممالک وشخصیات کی سخت گرفت۔
(8) اخلاقیات جنگ کی رعایت نہ کرنے والوں پر بھاری بھر کم جرمانے اور
سزائیں ۔
(9) جاپانی حکومت کے طرز پر عام اخلاقیات کو تعلیم کا حصہ بنایا جائے۔
(10) اخلاقیات جنگ کے متعلق شعور وآگہی کےلئے عالمی سطح پر کام ۔
(11) مذہب پر یقین رکھنے والے جنگوں وآپریشنوں سے قبل اپنے پیغبروں کا
کردار ،تقوی صلاح ، خشیت ،خوف الہی اور فرامیں مذھب کا از خوداستحضار
وتجدید کریں ،اور ورکشاپس وغیرہ کے ذریعے دوسروں کو بھی کرائیں ۔
(12) لا دین تہذیب وثقافت کے تناظر میں یہ کام کریں ۔
(13) جنگ کوعبادت یا خدمت سمجھاجائے۔
(14) ٹارگٹڈتربیت کی جائے ، بدن کےبیمار حصے کے کاٹنے کی طرح صرف دشمن ہدف
ہو ۔
(15) احمقانہ جنگوں اور ان کے کرداروںپرمزاحیہ کارٹون بنا ئے جائیں۔
گر قبول افتد ز ہے قسمت ۔
|
|