پروفیسر محمد سرور شفقت حکیم
الامت‘ شاعر مشرق‘ دانائے راز‘ مفکّر پاکستان‘ مردقلندر علامہ ڈاکٹر محمد
اقبال کا دل نور مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے روشن‘ زبان مدحت نبی صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار اور عشق ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔اقبال علیہ
الرحمہ نے حبیب کبریا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جتنا عقل سے سمجھا اس سے
کہیں زیادہ عشق و محبت کی عینک سے دیکھا ۔ان کے لئے یہ تصور ہی راحت بخش
تھا کہ آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہادی اور
راہنما ہیں۔ مفکّر اسلام‘ عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں اس قدر
مستغرق ہوئے کہ وہ ہر بات کو عشق محمدی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے
دیکھتے تھے اور تو اور وہ ربّ کائنات کو ربّ محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہی
کی حیثیت سے پہچانتے تھے۔ ایک بار علامہ محمد اقبال سے اللہ تعالیٰ کے وجود
کے عقلی دلائل کے بارے میں پوچھا گیا۔ علامہ اقبال نے جواب دیا کہ عقلی
دلائل تو جتنے باری تعالیٰ کے وجود کے دیئے جا سکتے ہیں اتنے ہی عدم وجود
کے بھی.... سوال کرنے والے نے حیران ہو کر پوچھا تو پھر آپ اللہ تعالیٰ کے
وجود کے قائل کیونکر ہیں؟
علامہ اقبال نے برجستہ جواب دیا کہ میں تو اللہ کے وجود کا اس وجہ سے قائل
ہوں کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”اللہ تعالیٰ موجود
ہے۔“ علامہ اقبال نے اپنے اردو اور فارسی کلام کے ذریعے عشق مصطفی صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلمکے پیغام کو عام کرنے کی سعی فرمائی ہے۔ ان کی ایک ہی خواہش
ہے کہ ملت کا ہر فرد ہر وقت جلال و جمال محمدی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو
اپنا معیار اور آئیڈیل سمجھے۔
علامہ اقبال کے کلام کے علاوہ ان کے مکتوبات میں بھی ایمانی حرارت‘ دینی
حمیت اور مسلمانوں کی اصلاح کا جذبہ نمایاں ہے۔ عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کی بعض کیفیات نہایت اثرانگیز ہیں۔ نیازالدین خان کے نام ۲۔مارچ ۷۱۹۱ء
کے ایک خط میں علامہ محمد اقبال اپنے قلبی احساسات کا یوں اظہار فرماتے ہیں:
”میں لاہور کے ہجوم میں رہتا ہوں مگر زندگی تنہائی کی بسر کرتا ہوں‘ مشاغل
ضروریہ سے فارغ ہوا تو قرآن یا عالم تخیل میں قرون اولیٰ کی سیر‘ مگر خیال
کیجئے جس زمانے کا تخیل اس قدر حسین و جمیل و روح افزاء ہے وہ زمانہ خود
کیسا ہو گا۔“
۵۰۹۱ءمیں اعلیٰ تعلیم کےلئے یورپ جاتے ہوئے ”ملوجا“ نامی بحری جہاز سے ساحل
عدن سے ۲۔دسمبر کو مولوی انشاءاللہ خان مدیر ”ہفت روزہ وطن“ کے نام لکھتے
ہیں: ”اب ساحل قریب آتا جارہا ہے اور چند گھنٹوں میں ہمارا جہاز عدن
جاپہنچے گا۔ ساحل عرب کے تصور نے جو ذوق و شوق اس وقت پیدا کر دیا ہے اس کی
داستان کیا عرض کروں‘ بس دل یہی چاہتا ہے کہ زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور
کروں۔
اللہ رے خاکِ پاک مدینہ کی آبرو
خورشید بھی گیا تو ادھر سر کے بل گیا
اے عرب کی مقدس سرزمین تجھ کو مبارک ہو! تو ایک پتھر تھی جس کو دنیا کے
معماروں نے رد کر دیا تھا مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا فسوں
پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی۔ تیرے
ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقش قدم دیکھے ہیں اور تیری کھجوروں کے سائے نے
ہزاروں ولیوں اور سلیمانوں کو تمازت آفتاب سے محفوظ رکھا ہے۔ کاش میرے
بدکردار جسم کی خاک تیری ریت کے ذروں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اڑتی
پھرے اور یہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو! کاش میں تیرے
صحراﺅں میں لٹ جاﺅں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر تیری تیز دھوپ
میں جلتا ہوا اور پاﺅں کے آبلوں کی پروا نہ کرتا ہوا اس پاک سرزمین میں جا
پہنچوں‘ جہاں کی گلیوں میں اذان بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی عاشقانہ آواز
گونجتی تھی۔“
علامہ اقبال ۶۱۔اکتوبر۱۱۹۱ءکو لسان العصر اکبر الہ آبادی کے نام ایک خط میں
روضہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کےلئے اپنی بےتابی کا یوں اظہار
فرماتے ہیں۔ ”خواجہ حسن نظامی واپس تشریف لے آئے‘ مجھے بھی ان سے محبت ہے
اور ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتا ہوں‘ خدا عزّوجل آپ کو اور مجھ کو بھی
زیارت روضہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نصیب کرے۔ مدت سے یہ آرزو دل میں
پرورش پارہی ہے۔ دیکھئے کب جوان ہوتی ہے۔“
علامہ اقبال ایک سچے عاشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ حضور اکرم صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عقیدت و محبت کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ اس کا
اظہار ان کی شاعری سے تو بخوبی ہو جاتا ہے مگر بےشمار واقعات ایسے ہیں جن
سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے
ساتھ کس قدر محبت رکھتے تھے۔ جب کبھی سرور کائناتصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا
نام نامی اسم گرامی آپ کے سامنے آتا تو آنکھوں سے آنسوﺅں کی جھڑی لگ جاتی
تھی۔ فقیر وحید الدین تحریر فرماتے ہیں:”زندگی بھر ڈاکٹر صاحب صرف ایک
مرتبہ مجھ سے ناراض ہوئے۔ آپ کو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
سے ان کی عقیدت عشق کی حد تک پہنچی ہوئی تھی۔ آنحضرتصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کا نام نامی اسم گرامی زبان پر آتا تو ان کی آنکھیں پرنم ہو جاتی تھیں۔ ایک
روز میں نے جرات کر کے پوچھا: ”آپ نے کبھی حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
زیارت بھی کی ہے؟“
یہ سنتے ہی مارے غصے کے ان کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ابرو پر بل پڑ گئے۔ پھر
کہنے لگے: ”ایسے سوال نہیں کیا کرتے۔“ایک مرتبہ وحید الدین صاحب سے سیرت
نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر علامہ مرحوم کی گفتگو ہو رہی تھی۔ حضرت
علامہ نے ایک واقعہ خاص انداز میں سنایا کہ ایک معرکہ میں مسلمان سپہ سالار
کا گھوڑا زخمی ہو گیا۔ زخموں کی یہ حالت تھی کہ گھوڑے کا میدان کارزار میں
کھڑا ہونا دشوار تھا۔ وہ بیٹھا جاتا تھا۔ دوسری طرف کافر یلغار کرتے چلے
آرہے تھے۔ اس عالم میں امیر عسکر نے گھوڑے کو مخاطب کر کے کہا: ”اگر تم نے
اس موقع پر میرا ساتھ چھوڑ دیا تو اس جہان فانی سے رخصت ہونے کے بعد رسول
اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے تمہاری شکایت کروں گا۔“ یہ واقعہ بیان کر کے
ڈاکٹر صاحب زاروقطار رونے لگے اور ان کی آنکھوں سے آنسوﺅں کی جھڑی لگ گئی۔
روزگار فقیر جلد دوم مرتبہ سید وحیدالدین میں ہے کہ
”۰۲۹۱ءکے ابتدائی ایام میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے نام ایک گمنام خط آیا
جس میں تحریر تھا کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں تمہاری
ایک خاص جگہ ہے جس کا تم کو علم نہیں۔ اگر تم فلاں وظیفہ پڑھ لیا کرو تو تم
کو بھی اس کا علم ہو جائے گا۔ خط میں وظیفہ لکھا تھا مگر علامہ اقبال نے یہ
سوچ کر کہ راقم نے اپنا نام نہیں لکھا‘ اس کی طرف توجہ نہ دی اور خط ضائع
ہو گیا۔ خط کے تین چار ماہ بعد کشمیر سے ایک پیرزادہ صاحب علامہ اقبال سے
ملنے آئے۔ عمر تیس چالیس سال کی تھی‘ بشرے سے شرافت اور چہرے مہرے سے ذہانت
ٹپک رہی تھی۔ پیرزادہ صاحب نے علامہ اقبال کو دیکھتے ہی رونا شروع کر دیا۔
آنسوﺅں کی ایسی جھڑی لگی کہ تھمنے میں نہ آتی تھی۔ علامہ اقبال نے یہ سوچ
کر کہ یہ شخص شاید مصیبت زدہ اور پریشان حال ہے اور میرے پاس کسی ضرورت سے
آیا ہے‘ شفقت آمیز لہجے میں استفسار کیا تو اس نے جواب دیا کہ مجھے کسی مدد
کی ضرورت نہیں۔ مجھ پر اللہ عزوجل کا بڑا فضل ہے۔ میرے بزرگوں نے اللہ
تعالیٰ کی ملازمت کی اور میں ان کی پنشن کھا رہا ہوں۔ میرے اس بے اختیار
رونے کی وجہ خوشی ہے نہ کہ کوئی غم.... ڈاکٹر علامہ اقبال کے مزید استفسار
پر اس نے کہا کہ میں سری نگر کے قریب ایک گاﺅں کا رہنے والا ہوں۔ ایک دن
عالم کشف میں‘ میں نے حضور رسالت مآب حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا
دربار دیکھا۔ جب نماز کے لئے صف کھڑی ہوئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
دریافت فرمایا کہ اقبال آیا یا نہیں؟ معلوم ہوا کہ نہیں آیا۔ اس پر ایک
بزرگ کو بلانے کےلئے بھیجا۔ تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نوجوان
بزرگ کے ساتھ نمازیوں کی صف میں داخل ہو کر حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کے دائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ پیرزادہ نے علامہ اقبال سے کہا میں
نے آج سے پہلے نہ تو آپ کی شکل دیکھی تھی اور نہ ہی آپ کا نام اور پتہ
جانتا تھا۔ کشمیر میں ایک بزرگ مولانا نجم الدین صاحب ہیں، ان کی خدمت میں
حاضر ہو کر میں نے یہ ماجرا بیان کیا تو انہوں نے آپ کا نام لے کر آپ کی
بہت تعریف کی۔ اگرچہ انہوں نے بھی آپ کو کبھی نہ دیکھا تھا مگر وہ آپ کی
تحریروں کے ذریعے آپ کو جانتے تھے۔ اس کے بعد ملنے کا شوق پیدا ہوا اور آپ
سے ملاقات کے واسطے کشمیر سے لاہور تک کا سفر کیا۔ آپ کی صورت دیکھتے ہی
میری آنکھیں اشکبار ہو گئیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے کشف کی عالم
بیداری میں تصدیق ہو گئی کیونکہ جو شکل میں نے عالم کشف میں دیکھی تھی آپ
کی شکل و شباہت عین اس کے مطابق ہے۔ سرِموفرق نہیں۔ کشمیری پیرزادہ صاحب اس
ملاقات کے بعد چلے گئے۔
اب ڈاکٹر علامہ اقبال کو وہ گمنام خط بہت یاد آیا۔ مضطرب ہو گئے۔ اس میں
مرقوم وظیفہ یاد نہ رہا تھا‘ پوری واردات کی تفصیل اپنے والد بزرگوار کو
لکھی اور اس امر کا اظہار کیا کہ مجھے شدید ندامت ہو رہی ہے اور روح شدید
کرب میں مبتلا ہے کہ میں نے وہ خط کیوں ضائع کر دیا۔ آپ ہی اس کی تلافی کی
کوئی صورت بتائیں کیونکہ پیرزادہ صاحب یہ بھی کہتے تھے کہ میں نے آپ کے
بارے میں جو کچھ دیکھا ہے وہ آپ کے والدین کی دعاﺅں کا نتیجہ ہے۔ اس لئے آپ
یا تو کوئی علاج اور تدبیر بتائیں یا خاص طور پر دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ
اس گرہ کو کھول دے کیونکہ اگر پیرزادہ صاحب کا کشف درست ہے تو میرے لئے بے
خبری اور لاعلمی کی حالت سخت تکلیف دہ ہے۔“
پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب اپنے مضمون ”اقبا ل اور عشق رسول صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم “ میں رقمطراز ہیں: ”مجھے ۵۲۹۱ءسے ۸۳۹۱ءتک ان کی خدمت میں
حاضر ہونے کا موقع ملتا رہا۔ میں ذاتی مشاہدے کی بناء پر کہتا ہوں کہ جب
بھی سرکار عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی ان کی زبان پر
آتا‘ معاً ان کی آنکھیں پُرنَم ہوجاتیں۔ علامہ اقبال عشق رسول صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ جب بھی عاشقان رسول صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کا تذکرہ کرتے تو آبدیدہ ہوجاتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن
غازی علم الدین شہید کا ذکر چلا تو علامہ اقبال فرط عقیدت سے اٹھ کر بیٹھ
گئے۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور کہنے لگے: ”اسی گلاں کردے رہے تے ترکھان
دا منڈا بازی لے گیا۔“(یعنی ہم محض باتیں ہی کرتے رہے اور بڑھی کا بیٹا
بازی لے گیا)
غازی علم الدین شہید کی شہادت کے واقعہ نے ہر مسلمان کے دل کو متاثر کیا۔
کچھ حضرات ڈاکٹر محمد اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ آیا
علم الدین کی موت شہادت ہے یا نہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا اس کا انحصار نیت
پر ہے۔ اگر یہ حقیقت ذہن میں ہو کہ حملہ آور کا اصل مقصد پیغمبر کے لائے
ہوئے پیغام کو مجروح اور اس ایمان محکم کو متزلزل کرنا ہے جو اس پیغام
رشدوہدایت پر استوار ہے تو یہ صرف انسانی یا پیغمبرانہ وقار کا قتل نہیں
بلکہ اس ایمان اور عقیدہ کا قتل بن جاتا ہے۔ اس کوشش یا اقدام کیخلاف ہر
مدافعت یقینا صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کےلئے ہوتی ہے اور وہی اس کا ٹھیک
ٹھیک اجر دینے والا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ کہہ کر نہایت رقت انگیز لہجے میں
کہا میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص میرے پاس آکر کہے کہ
تمہارے پیغمبر نے ایک دن میلے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔
غازی علم الدین شہید کی مانند کراچی میں غازی عبدالقیوم نے اپنے عشق رسول
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا مظاہرہ کیا اور ایک آریہ سماج نتھورام کو جہنم
رسید کیا۔ عبدالقیوم پر مقدمہ چلا اور انہوں نے قتل کا اعتراف کیا اور
عدالت کی طرف سے ان کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ فیصلے کیخلاف ہائیکورٹ
میں رٹ دائر کی گئی۔ عدالت عالیہ نے بھی سزائے موت کا حکم برقرار رکھا۔
سندھ کے مسلمانوں میں ایک جوش تھا جو روکے نہیں رکتا تھا۔ بالآخر مسلمانوں
کا ایک وفد علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ وہ وائسرائے سے سفارش کر
کے اس کی جان بچانے کی کوشش کریں۔ جب یہ وفد علامہ اقبال کے پاس پہنچا اور
اپنا مدعا بیان کیا تو علامہ اقبال کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے: کیا
عبدالقیوم کمزور پڑ گیا ہے؟ ارکان وفد نے بتلایا کہ نہیں وہ تو اعلانیہ
کہتا ہے کہ میں نے جنت خرید لی ہے۔ تو علامہ نے جواب دیا کہ پھر میں اس کے
اجروثواب کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں ایسے
مسلمانوں کے لئے وائسرائے کی خوشامد کروں جو زندہ رہا تو غازی اور مر گیا
تو شہید ہے؟
نظر اللہ پر رکھتا ہے مسلمان غیور
موت کیا شے ہے فقط عالم معنی کا سفر
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدروقیمت میں ہے خون جن کا حرم سے بڑھ کر
ایک بار پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے قانونی مشورہ کے لئے سر فضل حسین‘
علامہ اقبال اور ایک دو مشہور قانون دان اصحاب کو بلایا اور اپنی شاندار
کوٹھی میں ان کو ٹھہرایا۔ رات کو جس وقت ڈاکٹر صاحب آرام کرنے کےلئے اپنے
کمرے میں گئے تو ہر طرف آرام و راحت کے سامان نظر آئے۔ اتنے اچھے نرم نرم
اور قیمتی بستر پاکر ان کو معاً خیال آیا کہ جس رسول پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کی نعلینِ پاک کے صدقے ہم کو یہ مرتبہ نصیب ہوا‘ انہوں نے بوریئے پر
سو کر زندگی گزاری تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوﺅں کی جھڑی لگ گئی اور
مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلا کر ایک
چارپائی غسل خانے میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہے‘ اسی غسل خانہ میں
سوتے رہے۔
پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا نام آتے ہی علامہ اقبال بچوں کی طرح
بلک بلک کر رونا شروع کر دیتے تھے اور ان میں سوزوگداز کی ایسی کیفیت پیدا
ہو جاتی تھی جس کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا
تذکرہ کرتے ہیں تو ان کا شعری وجدان جوش مارنے لگتا ہے اور مدحیہ اشعار
ابلنے لگتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے محبت و عقیدت کے چشمے پھوٹ پڑے
ہوں‘ اس سلسلہ میں چند اشعار پیش خدمت ہیں جن سے اقبال کے محبت بھرے جذبات
کا قدرے اندازہ ہوتا ہے۔
در دلِ مسلم مقامِ مصطفی است
آبروئے ما زِ نام مصطفی است
بوریا ممنون خواب راحتش
تاجِ کسریٰ زیرِ پائے اُمتش
در شبستانِ حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید
علامہ اقبال کے ہاں روزانہ شام کو محفل سجتی تھی جس میں دوست احباب شرکت
کرتے تھے اور علمی و ادبی گفتگو ہوتی تھی۔ ایک دن جب ملاقاتی آپ کے گھر
حاضر ہوئے تو علامہ اقبال رو رہے تھے اور ان کی ہچکی بندھ چکی تھی۔ احباب
بڑے فکرمند ہوئے اور حقیقت پوچھی تو علامہ اقبال نے فرمایا ابھی ایک نوجوان
میرے پاس آیا اور دوران گفتگو بار بار نبی اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کو جناب محمد جناب محمد(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کہتا رہا۔
مجھے یہ غم کھائے جارہا ہے کہ جس قوم کے نوجوانوں کی یہ حالت ہو اس قوم کا
مستقبل کیا ہو گا؟
علامہ اقبال کو تصوف سے لگن‘ رومی‘ جامی‘ داتا گنج بخش‘ خواجہ غریب نواز‘
بابا گنج شکر اور نظام الدین اولیا کے افکاروفرمودات سے میسر آئی۔ڈاکٹر این
میری شمل رقم طراز ہیں کہ علامہ اقبال حضرت داتا گنج بخش کے عقیدت مندوں
میں سے تھے اورصبح کی نماز مسجد داتا دربار میں روحانی سکون اور عرفان
کےلئے ادا کرتے تھے۔ پروفیسر مسعود الحسن صاحب کی تصنیف داتا گنج بخش میں
پروفیسر صاحب نے یوں لکھا ہے کہ مسلمانوں کےلئے ایک علیحدہ ریاست کا خیال
انہیں اسی مسجد میں نماز کی ادائیگی سے حاصل ہوا۔
ایک دفعہ علامہ اقبال حضرت میاں شیر محمد شرقپوری سے ملنے گئے تو میاں شیر
محمد شرقپوری نے اپنے احباب سے فرمایا کہ قطب وقت ملنے آرہے ہیں۔ لوگ دیکھ
کر حیران ہوئے کہ داڑھی صاف‘ بڑی بڑی مونچھوں والا‘ ترکی ٹوپی پہنے‘ کالی
اچکن اور سیاہ جوتی والا یہ شخص کیسے قطب ہو سکتا ہے؟ لیکن باطن کی آنکھ نے
جو دیکھا وہ ظاہر کی آنکھ سے مختلف تھا۔ غرضیکہ عرفان نے اقبال کو وجدان سے
نوازا۔”اقبال کامل“ کے مصنف لکھتے ہیں کہ حج کی ادائیگی کا خیال آخر عمر
میں پیدا ہوا اور روز بروز بڑھتا گیا۔ جب ۲۲۹۱ء میں موتمر اسلامی میں شرکت
کےلئے دمشق پہنچے تو سفر حج کا سامان مکمل تھا لیکن دل نے گوارا نہ کیا کہ
دربار حبیب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں ضمناً حاضری دی جائے‘ اس لئے اس وقت
شوق پورا نہ ہو سکا۔
علامہ اقبال خواجہ حسن نظامی کو ۱۱۔جنوری۸۱۹۱ءکو ایک خط میں لکھتے ہیں:”جن
لوگوں کے عقائد و عمل کا ماخذ کتاب و سنت ہے اقبال() ان کے قدموں پر ٹوپی
کیا سر رکھنے کو تیار ہے اور ان کی صحبت کے ایک لحظہ کو دنیا کی تمام عزت و
آبرو پر ترجیح دیتا ہے۔“
علامہ اقبال نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر ہر وقت درود بھیجنے کی
تلقین فرمایا کرتے تھے۔ ان کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ظاہری علاج کے
علاوہ باطنی علاج درود شریف کو سمجھتے تھے۔ روحانی ترقی کے لحاظ سے اقبال
ایسے مقام پر فائز تھے کہ جس پر عظیم بزرگان دین فائز ہیں۔
مشہور صحافی سابق ایڈیٹر ”اقدام لاہور“ میاں محمد شفیع(م۔ش) حضرت علامہ
اقبال کے لقب ”حکیم الامت“ کے ضمن میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”۷۳۹۱ءمیں
گرمیوں کے دن تھے۔ ڈاکٹر عبدالحمید ملک مرحوم (سابق پروفیسر ایڈورڈ میڈیکل
کالج لاہور) علامہ اقبال کے پاس تشریف لائے۔ علامہ اقبال نے ان کا خیر مقدم
کرتے ہوئے ان کی خیریت دریافت کی۔ پھر گفتگو کا دور چلا۔ دفعتاً ڈاکٹر
عبدالحمید ملک مرحوم نے سلسلہ کلام کا رخ پھیرتے ہوئے نہایت بے تکلفی سے
پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ حکیم الامت کیسے بنے؟ علامہ اقبال نے بلاتوقف
فرمایا یہ تو کوئی مشکل نہیں۔ آپ چاہیں تو آپ بھی حکیم الامت بن سکتے ہیں۔
ملک صاحب نے استعجاب سے پوچھا وہ کیسے؟ علامہ اقبال نے فرمایا میں نے گن کر
ایک کروڑ مرتبہ درود شریف کا ورد کیا ہے‘ آپ بھی اس نسخہ پر عمل کریں تو آپ
بھی حکیم الامت بن سکتے ہیں۔
وہ مقام محمدی کی کیفیات سے آگاہ تھے اور تجلیات روحانی سے مکمل بہرہ ور
تھے۔ ان کا سینہ سورج کی طرح روشن تھا۔ ان کی بصیرت مستقبل سے متعلق
انتہائی تکمیل یافتہ تھی۔ انہوں نے قرآن کریم پر ہر لحظہ غوروفکر کرنے کا
شروع دن سے وظیفہ اپنی زندگی کا جزو بنا لیا تھا۔ وہ اسلامی اخلاق کے صحیح
معنوں میں پیکر تھے۔“
مشہور مسلم لیگی لیڈر راجا احسن اختر مرحوم نے علامہ اقبال کے علمی تجربہ
کے متعلق ایک دفعہ ازراہِ عقیدت علامہ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو
مشرق و مغرب کے علوم کا جامع بنایا۔ علامہ فرمانے لگے ان علوم نے مجھے
چنداں نفع نہیں پہنچایا۔ مجھے نفع تو صرف اس بات نے پہنچایا ہے جو میرے
والد گرامی نے بتائی تھی۔ مجھے جستجو ہو گئی کہ اس عظیم راز کو کس طرح
معلوم کروں جس نے اقبال کو اقبال بنادیا۔ آخر دل کو مضبوط کر کے عرض کیا کہ
وہ بات پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں؟ علامہ اقبال فرمانے لگے کہ رسول اللہ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰة و درود۔
مولانا محمد سعید احمد مجددی، گوجرانوالہ نے معروف ماہر امراض قلب ڈاکٹر
رﺅف یوسف لاہور کے حوالے سے لکھا ہے کہ علامہ اقبال نے انہیں بتایا کہ آلو
مہار شریف کے خواجہ سید محمد امین شاہ نے انہیں روزانہ کثرت سے درود شریف
خضری پڑھنے کو کہا تھا۔ میرا معمول ہے کہ روزانہ دس ہزار مرتبہ درود شریف
پڑھتا ہوں۔ صلی اللہ علی حبیبہ محمد وآلہ واصحابہ وسلم
آخری عمر میں حکیم الامت علامہ اقبال کو گلے کی تکلیف تھی اور علاج کے
سلسلے میں وہ دوبار بھوپال بھی گئے۔ پروفیسر صلاح الدین محمد الیاس برنی (جن
کا مجموعہ نعت ”معروضہ“ کے نام سے چھپ چکا ہے اور معرکتہ الآراءکتاب
”قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ“ کے مو ¿لف بھی ہیں) کے نام ۳۱۔جون۶۳۹۱ءکے
ایک خط میں اقبال لکھتے ہیں:”۳۱۔اپریل کی رات ۳بجے کے قریب (میں اس شب
بھوپال میں تھا) میں نے سرسید کو خواب میں دیکھا۔ پوچھتے ہیں تم کب سے
بیمار ہو؟ میں نے عرض کیا کہ دو سال سے اوپر مدت گزر گئی۔کہنے لگے حضور
رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کرو! میری آنکھ اسی وقت
کھل گئی اور عرضداشت کے چند شعر جو اب طویل ہو گئی ہے‘ میری زبان پر جاری
ہو گئے۔ ان شاءاللہ ایک مثنوی فارسی ”پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق“ نام کے
ساتھ یہ عرض داشت شائع ہو گی۔ ۴۱۔اپریل کی صبح سے میری آواز میں کچھ تبدیلی
شروع ہوئی۔ اب پہلے کی نسبت آواز صاف تر ہے اور اس میں وہ رنگ عود کر رہا
ہے جو انسانی آواز کا خاصہ ہے۔“
شاعر مشرق علامہ اقبال کی در بارگاہ ِحضور رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
یہ عرضداشت ”پس چہ باید کرد“ کے ساتھ شائع ہوئی۔ اس عرضداشت میں علامہ
اقبال نے کہا:
چوں بوصیری از تومی خواہی کشود
تا بمن باز آید آں روزے کہ بود
مہر تو بر عاصیاں افزوں تر است
در خطا بخشتی چو مہر مادر است
با پرستاران شب دارم ستیز
باز روغن در چراغ من بریز
۳۱۔جون ۷۳۹۱ء کو سراکبر حیدری مقیم لندن کے نام اپنی تنہا خواہش کا ذکر
کرتے ہوئے لکھتے ہیں: (خط بزبان انگریزی کا ترجمہ) ”تنہا خواہش‘ جو ہنوز
میرے جی میں خلش پیدا کرتی ہے‘ یہ رہ گئی ہے کہ اگر ممکن ہو سکے تو حج کے
لئے مکہ مکرمہ جاﺅں اور وہاں سے اس ہستی کے روضہ انور پر حاضری دوں جس کی
ذات ہی سے بے پایاں شغف میرے لئے وجہ تسکین اور سرچشمہ الہام رہا ہے۔ میری
جذباتی زندگی کا سانچہ کچھ ایسا واقع ہوا ہے کہ انفرادی شعور کی ابدیت پر
مضبوط یقین رکھے بغیر ایک لمحہ بھی زندہ رہنا میرے لئے ممکن نہیں ہو سکا۔
یہ یقین مجھے پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی سے حاصل ہوا
ہے۔ میرا ہر بنِ مُو آپ کی احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہے اور میری روح
ایک بھرپور اظہار کی طالب ہے جو صرف آپ کے روضہ اقدس پر ہی ممکن ہے۔ اگر
خدا نے مجھے توفیق بخشی تو میرا حج اظہار تشکر کی ایک شکل ہو گا۔“
مدینہ اور تاجدارِ مدینہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا نام سن کر اقبال کی
آنکھیں بے اختیار نم ہو جاتی تھیں۔ ۷۳۹۱ء میں بہاولپور کے ایک پیر صاحب کے
سفر حج کے ذکر سے اپنی محرومی کا احساس کر کے ان کی آنکھیں پرنم ہو جاتی
ہیں تو ان کی بہن کہتی ہیں کہ عام صحت کی خرابی کے علاوہ آپ کی آنکھوں میں
تکلیف ہے اس لئے آپریشن کے بعد اگلے سال آپ بھی چلے جائیے گا۔ اس پر بڑے
دردانگیز اور پرشوق لہجے میں فرمایا: ”آنکھوں کا کیا ہے آخر اندھے بھی تو
حج کر ہی آتے ہیں۔“ اتنا کہنے کے بعد آنکھوں سے آنسوﺅں کی لڑیاں جاری ہو
گئیں۔
علامہ اقبال مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ کے نام ۲۔دسمبر۷۳۹۱ءکے مکتوب
میں زیارت روضہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سعادت پر پیشگی مبارکباد پیش
کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”کاش میں بھی آپ کے ساتھ چل سکتا اور آپ کی صحبت کی
برکت سے مستفیض ہوتا لیکن افسوس ہے کہ جدائی کے ایام ابھی کچھ باقی معلوم
ہوتے ہیں۔ میں تو اس قابل نہیں ہوں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ
مبارک پر یاد بھی کیا جاسکوں‘ تاہم حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد
سے جرات ہوتی ہے کہ گنہگار میرے لئے ہے۔ امید ہے آپ اس دربار میں پہنچ کر
مجھے فراموش نہیں فرمائیں گے۔“
پروفیسر یوسف سلیم چشتی جنوری۸۳۹۱ءکا ایک روح پرور واقعہ لکھتے ہیں: ”ڈاکٹر
عبداللہ چغتائی سفر یورپ پر جانے سے پہلے رخصتی ملاقات کے لئے علامہ اقبال
کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میری موجودگی میں انہوں نے چغتائی صاحب سے کہا کہ
اگر اللہ عزوجل نے مجھے صحت عطا کر دی تو میں بھی حجاز کا سفر کروں گا۔
بظاہر یہ آرزو پوری ہوتی نظر نہیں آتی مگر وہ چاہے تو کچھ مشکل بھی نہیں
ہے۔یہ کہہ کر مرحوم پر ایک کیفیت طاری ہو گئی اور ہم دونوں خاموشی کے ساتھ
اس کیفیت کا نظارہ کرتے رہے۔“
کرنل خان محمد سکنہ مٹھ ٹوانہ سرگودھا نہایت خوش پوش‘ لطیف مزاج انسان تھے۔
حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ کا اتنا احترام تھا کہ امراء اور
انگریزوں کی ضیافت کے موقع پر جہاں چینی کے نفیس ظروف میں کھانے پیش کرتے
تو اپنے لئے اسی دسترخوان پر مٹی کا پیالہ استعمال فرماتے۔ بڑے عبادت گزار
تھے بلکہ نماز تہجد تو بچپن ہی سے باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک
دفعہ نماز تہجد کے وقت ایک ایمان افروز خواب دیکھا۔ لاہور میں ڈاکٹر
عبدالغنی کو یہ ایمان افروز خواب یوں سنایا: ”میں ایک بار نماز تہجد ادا
کرنے کے بعد آرام کی خاطر لیٹ گیا اور آنکھ لگ گئی۔ انتہا درجہ کی مبارک
سحر تھی کہ ختمی مرسل محبوب کبریا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم خواب میں تشریف لائے۔ جمال جہاں آراء کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ
نے بکمال شفقت فرمایا خان محمد! اقبال کو ہمارا سلام پہنچا دینا۔ چنانچہ
نماز فجر ادا کرنے کے بعد میں نے ڈرائیور کو کہا گاڑی باہر نکالو۔ صبح کی
خنکی میں حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سلام کی مہک دل و جان کو تازگی عطا
کر رہی تھی۔“
ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیئے ہیں
پیغام مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم لے کر خوشی اور مسرت کے جذبات کے لئے
علامہ اقبال کی کوٹھی میکلوڈ روڈ پر پہنچا اور ان کے خادم علی بخش کو کہا
کہ اندر جا کر اطلاع کرے۔ علامہ اقبال چادر اوڑھے شبینہ لباس میں باہر آئے۔
تعارف پہلے ہی تھا اس لئے پوچھا ملک صاحب! آج سویرے سویرے ہی تکلیف کی ہے۔
میں نے جواباً کہا یہ بندہ آپ کے لئے وہ تحفہ لایا ہے جس کی حسرت ہمیشہ آپ
کے دل میں رہی ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو سلام بھیجا ہے۔ میں
نے خواب کی ساری کیفیت علامہ اقبال کے آگے بیان کر دی۔ سنتے ہی ان پر رقت
طاری ہو گئی۔ ذرا سکون آتا تو پوچھتے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کیا
ارشاد فرمایا ہے۔ اقبال کو ہمارا سلام پہنچا دینا۔ پھر رقت طاری ہو جاتی
آخر وفورِ گریہ سے ہچکی بندھ گئی۔ میرا حال بھی عجیب ہو رہا تھا۔ حضور صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و شفقت کی تاثیر قلب و روح میں موجزن تھی اور
آنکھیں اشکبار تھیں....
دربار رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں علامہ اقبال کو جو مقبولیت حاصل
تھی اس کے فیوض اس بندہ عاصی تک بھی پہنچ رہے تھے۔ بڑی دیر کے بعد کہیں جا
کر علامہ محمد اقبال کی طبیعت سنبھلی‘ بار بار کہتے ملک صاحب آپ میرے لئے
چشمہ خیروبرکت ہیں۔ آپ ایک ایسا نادر تحفہ لائے ہیں جس کی قیمت کا اندازہ
نہیں لگایا جا سکتا۔ عرب و عجم کے شہنشاہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کیا
ذرّہ نوازی فرمائی ہے۔ یہ تحفہ میری زندگی کا حاصل ہے۔
عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اقبال کا تصور حیات ہے اور وہ اس کو حاصل
کائنات سمجھتے ہیں۔ اقبال کے آخری دور حیات میں عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم اتنی والہانہ کیفیت اختیار کر گیا تھا کہ جہاں حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کا اسم گرامی زبان پر آیا اور آنکھوں سے اشکوں کی جھڑی لگ جاتی تھی۔
حضور انور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں رسوا ہونا وہ عذاب جہنم سے
زیادہ المناک سمجھتے ہیں۔ انہیں ہر سزا منظور ہے لیکن اس پر راضی نہیں کہ
حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حضور ان کے گناہوں کی فہرست پیش ہو۔ اللہ
تعالیٰ کے حضور عرض پرداز ہیں کہ روز محشر میرا عذر قبول فرمانا اگر میرے
نامہ اعمال کا حساب ناگزیر بھی ہے تو پھر اے میرے مولیٰ اسے نگاہِ محمد صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے پوشیدہ رکھتا۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
گر تو بینی حسابم را ناگزیر
از نگاہِ مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پنہاں بگیر
علامہ اقبال نے افغانستان سے واپسی پر قندھار میں حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے خرقہ مبارک کی زیارت کے بعد یہ اشعار کہے جو ان کے عشق کا پتہ دیتے
ہیں۔
آشکارا دیدنش اسرائے ماست
در ضمیرش مسجد اقصیٰ ماست
علامہ اقبال ایک سچے مسلمان کی طرح اس خاکِ پاک کو دیکھنے اور عقیدت و الفت
سے چومنے کے لئے بے قرار رہے ہیں۔ شوقِ وصال کی شدت بھی ہے اور پاسِ ادب
بھی۔ دیکھئے کس والہانہ انداز سے ملتجی ہیں۔
ہوا ہو ایسی کہ ہندوستان سے اے اقبال
اڑاکے مجھ کو غبار رہِ حجاز کرے
اس جگہ ایک لطیف نکتہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ علامہ اقبال نے الہامی طور پر
اس شعر کے دوسرے مصرعے میں اپنا سال وفات بیان کر دیا ہے۔ ابجد کے حساب سے
اس کے عدد ۸۳۹۱ءبنتے ہیں اور یہی سال اقبال کے انتقال باکمال کا ہے۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے اقبال کو جو والہانہ محبت اور
عشق تھا اس کے متعلق حکیم احمد شجاع بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں علامہ
اقبال کے مکان پر پہنچا تو دیکھا کہ آپ بہت زیادہ فکرمند اور بے چین ہیں۔
دریافت کیا تو فرمایا احمد شجاع میں یہ سوچ کر اکثر مضطرب اور پریشان ہو
جاتا ہوں کہ کہیں میری عمر رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ نہ ہو
جائے۔
علامہ اقبال کو یہ بات پسند نہ تھی کہ مرنے کے بعد کفرستان ہند محکوم ملک
میں مدفون ہوں۔ لہٰذا ان کی دلی خواہش تھی کہ مدینہ منورہ کی مٹی ان کی مٹی
بن جائے نیز علامہ اقبال حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کرتے ہیں کہ
مجھے ایسا خوش نصیب بنا دیجیے کہ میری قبر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
دیوار کے سائے میں بنے تاکہ میرے دلِ بے قرار کو سکون و قرار حاصل ہو اور
دنیا والوں سے یہ کہہ سکوں:
با فلک گویم آرامم نگر
دیدہ آغازم انجامم نگر
اگرچہ اس بطل جلیل کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی لیکن یہ بھی حضور اکرم صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہے کہ آپ کو بادشاہی مسجد کی دیوار کے سائے میں
جگہ ملی۔ لوگ آج بھی روحانی فیض کے حصول کے لئے ان کے مزار مبارک کا رخ
کرتے ہیں اور خوش و خرم واپس لوٹتے ہیں۔ مزار اقبال کا ڈیزائن حیدرآباد کے
مشہور ماہر تعمیرات ”زین یار جنگ“ نے بنایا۔ اس کی تعمیر کا آغاز ۶۴۹۱ءمیں
ہوا۔ مزار اقبال اندر سے سنگ مرمر اور باہر سے سنگ سرخ کا بنا ہوا ہے۔ مزار
کے پتھر راجپوتانہ سے درآمد کئے گئے تھے۔ مزار اقبال کی لوح اور تعویذ
حکومت افغانستان نے بھیجے تھے اور مزار کا تعویذ و کتبہ دنیا کے سب سے
قیمتی پتھر (Lapislazuli) سے بنایا گیا ہے۔مزار کی چھت کے وسط میں اسم محمد
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کندہ ہے اور چاروں گوشوں میں اقبال کا اپنا نام اس
انداز میں ہے کہ ہر ایک نام کی برقی لہر مرکز محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کی طرف مائل ہے جس سے یہ اظہار مقصود ہے کہ اقبال نے جس مرکز انوار سے
اکتساب نور کیا وہ ذات پاک نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ہے اور نبی
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی الہامی تعلیمات کا پَرتَو علامہ اقبال کے کلام
اور پیغام پر پڑا۔مسلمانانِ پاکستان ہر سال ”یوم اقبال“ منا کر ان کی خدمت
میں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں لیکن ان کے شایانِ شان حقیقی ہدیہ یہی ہے کہ
ہم نہ صرف ان کی تعلیمات اور پیغام کو عام کریں بلکہ اپنے اندر عشق رسول
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا وہی رنگ پیدا کریں جس میں وہ رنگے ہوئے تھے اور
جس کی بناءپر وہ ہمارے لئے قابل صد احترام و تکریم ہیں۔
(بشکریہ ماہنامہ ضیائے حرم لاہور) |