کراچی کے شہریوں کو ان دنوں ٹریفک پولیس کے
ہاتھوں جو تذلیل برداشت کرنی پڑتی ہے۔ ان میں موٹر سائیکل سوار سر فہرست
ہیں۔ آپ کسی سڑک سے گزر جائیں، پولیس والوں نے کئی موٹر سائیکل والوں کو
روک رکھا ہوگا۔ کاغذات کی چیکنگ اور اس کے ساتھ ہی جوڑ توڑ کا کاروبار آپ
کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہوگا۔ اس چیکنگ کے دوران یہ واقعہ بھی اسی شہر
میں پیش آیا کہ باپ بیٹے ک روک لیا گیا۔ بیٹے نے لاکھ کہا کہ میرا باپ
بیمار ہے۔ اسے ہسپتال لے جارہا ہوں۔ لیکن بیٹے پر تشدد کیا گیا۔ اور باپ کو
موبائیل میں ٹھونس دیا گیا۔ جہاں اس پر دل کا دورہ پڑا۔ اور وہ اپنے آخری
سفر پر روانہ ہوگیا۔ اکثر تھانوں کی حدود میں پولیس والے نوجوانوں کو اپنے
ساتھ تھانے لے جاتے ہیں اور تھانے سے فون کیا جاتا ہے کہ آپ کا بچہ تھانے
میں ہے۔ اب آپ بھاگتے دوڑتے جائیں گے۔ کاغذات دکھانے کے باوجود پولیس والوں
کی دال روٹی کا جرمانہ بھی آپ کو ادا کرنا ہوگا۔ ڈبل سواری انگریزی زبان کے
الفاظ ہیں جن کا استعمال عام طور پر کراچی میں موٹر سائیکل پر دو افراد کی
بیک وقت سواری کے موقع پر کیا جاتا ہے۔
موٹر سائیکل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ غریب اور متوسط طبقے کی سواری
ہے لیکن آئے دن ڈبل سواری پر پابندی عائد کر کے عروس البلاد کراچی کے
شہریوں کے لئے اس کی افادیت کو شجر ممنوعہ بنادیا جاتا ہے۔ انتظامیہ کی
نااہلی کی سزا کراچی کے مظلوم غریب و متوسط طبقے کو دی جاتی ہے۔ حکومتی
حلقوں کی طرف سے اس پر پابندی کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ڈبل سواری سے
دہشت گردوں اور شرپسندوں کو اپنی مذموم کاروائیوں میں مدد ملتی ہے اس لئے
اس پر پابندی عائد رہنی چاہیے۔ عوام الناس کے نزدیک حکومت کا یہ مؤقف " عذر
گناہ بدتر از گناہ" کے مترادف ہے امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے
لئے ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے ڈبل سواری پر پابندی لگا دینا حکومت کی
ذہنی دیوالیہ پن کی عکاسی کرتا ہے۔ حکومتی اہلکاروں سے کوئی یہ تو پوچھے کہ
ڈبل سواری پر پابندی صرف کراچی اور حیدرآباد میں کیوں ہے۔ اندرون سندھ اور
ملک کے دیگر حصوں میں حالات زیادہ خراب ہیں وہاں بھی تو پابندی لگائی جائے۔
پاسبان کے رہنما الطاف شکور اور ان کے ساتھی اس سلسلے میں ایک عرصے سے
احتجاج کررہے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں بھی اس سلسلے میں ایک درخوست زیر
سماعت ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس مشیر عالم اور مسٹر جسٹس عقیل احمد
عباسی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ڈبل سواری پر پابندی کے خلاف دیدار علی چانڈیو
کی درخواست پر سیکرٹری داخلہ سے 10 دن میں رپورٹ طلب کی ہے درخواست گزار کی
جانب سے جاوید چھتاری ایڈووکیٹ نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ وکیلوں، ڈاکٹروں
اور لیکچرروں کو بھی ڈبل سواری پر پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ عصر
حاضر میں سب سے سستا اور مطلوبہ مقام تک فوری رسائی کا واحد ذریعہ موٹر
سائیکل ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے میں جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں
آسمان سے باتیں کررہی ہیں یہ سواری کم آمدنی اور متوسط گھرانے کے دو افراد
کے لئے انتہائی موزوں اور باکفایت ذریعہ آمد و رفت ثابت ہوا ہے۔
تاہم گزشتہ کئی ماہ سے ڈبل سواری پر پابندی نے ایسے قلیل آمدنی والے متعدد
گھرانوں کو اس سہولت سے محروم کردیا ہے۔ ڈبل سواری پر اس قدر طویل اور سخت
پابندی کے باوجود ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائمز کی شرح میں گزشتہ چند ماہ
کے دوران بجائے کمی واقع ہونے کے افسوس ناک حد تک اضافہ ہی دیکھنے میں آیا
ہے۔ موجودہ صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر ایک یہ کہنے پر مجبور ہے کہ
موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی پر حقیقتاً معصوم شہری ہی پوری طرح عمل
پیرا ہیں جو کہ اس لامتناہی پابندی کے باعث ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے
ہیں جبکہ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی سے ٹرانسپورٹ حضرات تو یقیناً
ایک کثیر رقم کی اضافی آمدنی یومیہ وصول کررہے ہیں، جبکہ کم آمدنی والے،
ملازم پیشہ افراد اور چھوٹے کاروباری حضرات اس پابندی کی وجہ سے نہ صرف
مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں بلکہ کوئی ایمرجنسی پیش آنے کی صورت میں
انہیں انتہائی دشواری اٹھانا پڑتی ہے۔ مندرجہ بالا دشواریوں اور پریشانیوں
کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔ ضرورت
اس امر کی ہے کہ ڈبل سواری پر عائد پابندی کو فی الفور ختم کیا جائے اور
ٹارگٹ کلنگ و اسٹریٹ کرائمز کی لعنت پر قابو پانے اور اس کے مستقل حل کے
لئے ایسے ذرائع بروئے کار لائے جائیں جو عام شہری کے روزمرہ معمولات میں
دشواری کا باعث نہ ہو۔ |