یہ ہماری بے حسی۔۔۔

چند ماہ پہلے میں راولپنڈی اسلام آباد کے مشترکہ روڈ سے آفس سے واپس گھر جا رہا تھا، یہی کوئی سات بجے کا عشاء کا وقت تھا۔ ٹریفک سگنل کی وجہ سے رکنا پڑا۔ ایک نوجوان لڑکی کو دیکھا جو کہ پورے لباس میں بلکہ حجاب میں لپٹی ہوئی تھی۔ صرف چہرہ نظر آ رہا تھا۔ اسکے ہاتھوں نے اخبارات اٹھائے ہوئے تھے، اور وہ اس وقت ، جب ہر کوئی یا تو اپنے گھروں کو روانہ ہوا ہوتا ہے، یا اپنے گھر کے اندر گرم لحاف میں گھسا سکون سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ گپ شپ لگا رہا ہوتا ہے، ہاکر (پھیری لگانے والا / والی) بنی ہوئی تھی اور ہر گاڑی کے قریب پہنچ کر تھوڑی دیر کے لیے رکتی، اخبار کی طرف اشارہ کرتی ، اور کوئی مثبت جواب نہ ملنے پر آگے بڑھ جاتی۔ جب وہ ہماری گاڑی کے پاس سے گذری تو میری نظر اسکی آنکھوں پر پڑی جہاں دنیا جہان کی یاس ہی نظر آئی، لیکن اشکوں میں ڈوبی ہوئی۔ بس ایک لمحہ ہی چاہیے تھا کہ اشک اس کے گر پڑنے کو بے قرار تھے۔ خدا کی قسم اگر کوئی کار میں سے اتر کر صرف اسکی طرف بڑھ جاتا تو اسنے وہیں کھڑے کھڑے رونا شروع کر دینا تھا، بے بسی کے مارے۔

کیا یہ وقت جب عشاء کی نماز کی تیاریاں ہو رہی ہوتی ہیں، کوئی رزق کمانے کا ہوتا ہے؟ اور وہ اْس وقت رزق کی تلاش میں تھی۔ لیکن کن لوگوں سے اپنا حق طلب کر رہی تھی، جو بے حس تھے۔ جن کو صرف یہ احساس تھا کہ وہ کب اپنے گھر پہنچے گے ، اس گھر میں جو پتھروں کا بنا ہوا ہے۔ کنالوں کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یا دو دو ، تین تین منزلہ ہے، بہترین طریقے سے آراستہ ہے۔ لاکھوں کی گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہیں، لیکن مجال ہے کہ جو انکے کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔ ہاں یہ ضرور دیکھا میں نے کہ اخبار تو شاید ہی کسی نے خریدا ہو، لیکن بری نظر اس جوان لڑکی پر سب نے ڈالی۔کوئی بھی ایسا نہیں تھا کہ اپنی گاڑی سے اتر کر اس کو شاباش بھی دیتا کہ خود داری بہت ہے، پھر اسکے سر پر ہاتھ پھیر کر اپنی بیٹی، بہن بنا کر اسکو حوصلہ دیتا۔ اسکو کہتا کہ وہ گھر جائے، اور اﷲ سے دعا مانگے وہ بہتر کرے گا۔ لیکن اگر کوئی اترتا بھی تو صرف اس لیے کہ اپنی گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولے، اور اس میں اس کو بٹھائے۔ اور چند لمحوں کی عیاشی کے لیے اسکو زبردستی لے جائے۔لعنت ہے ایسوں پر۔

یہ کسی نے نہ سوچا کہ بیچاری کتنی مجبور و لاچا ر ہو گی جو ایسے وقت میں رزق ڈھونڈ رہی ہے جب چرند پرند بھی اپنے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اسکو کیا کیا مجبوریاں ہوں گی۔ ہوسکتا ہے کہ اسکا باپ معذور ہو، بہن بھائی چھوٹے ہوں، گھر میں کوئی اور کمانے والا نہ ہو، یا وہ اگر صبح کے وقت کہیں نوکری کر بھی رہی ہوگی تو اسکی آمدنی کم ہوگی، گھر کا خرچہ نہیں پورا ہوتا ہو گا۔لیکن کوئی بھی اسکی مدد کے لیے تیار نہیں ہوا۔ تیار کیوں ہوتا۔ آج کی اس دنیا میں مغربیت اپنے پنجے اس حد تک ہماری جڑوں میں دھنس چکی ہے کہ جس طرح وہاں اگر کوئی ہمسائے میں مر جائے تو جب تک اسکی لاش سے تعفن اٹھ کر پورے پلازے میں یا محلے میں نہ پھیل جائے کسی کو بھی پتہ نہیں چلتا۔یہ تو بہت بڑی بات ہے۔ وہاں تو کسی کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ انکے ہمسائے میں کون رہتا ہے؟ اسی طرح ہمیں بھی صرف اپنی فکر کھائے جا رہی ہے۔ یہ فکر ہے کہ گھر میں کیا ہو رہا ہوگا، کوئی بچہ بیمار نہ ہو گیا ہو، بیگم کو خریداری بھی کرانی ہے۔۔۔ یہ نہیں سوچیں گے کہ جب تک اجتماعی سوچ ہم لوگوں میں جنم نہیں لے گی، ہم لوگ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، اس طرح کے ہزاروں واقعات پورے پاکستان میں ہر وقت ہر جگہ رونما ہوتے رہتے ہیں۔لیکن شاید محترم عبدالستار ایدھی کے علاوہ کوئی بھی دل میں درد نہیں رکھتا۔انصار برنی بھی اسی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن کیا کوئی اور برنی یا ایدھی نہیں پیدا ہو سکتا۔یقینا ہو سکتا ہے، لیکن عوام کو دوسروے کاموں میں الجھا دیا گیا ہے تو کوئی اس طرف کیا توجہ دے گا۔ کویت کے سلطا ن نے اپنی سالگرہ کے موقع پر اپنی پوری عوام کو ایک سال تک راشن مفت فراہم کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ جب کہ ہمارے یہاں جو لوگوں کو میسر ہے وہ بھی مختلف حیلے بہانوں سے چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بچے عین کسی چوراہے پر آکر گاڑی کا فرنٹ شیشہ صا ف کر رہے ہوتے ہیں، کوئی چنبیلی کے پھول کی مالائیں بنائے بیچ رہا ہوتا ہے۔ کتنے لوگ یہاں لاکھوں ، کروڑو ں میں کھیلنے والے ہیں، تو کیا صرف ایک فیملی کو نہیں سنبھال سکتے۔بہت افسوس ہوتا ہے جب بھی میں کسی ایسے موقع پر کسی بے بس کا سامنا کرتا ہوں تو اپنی بے بسی پر میرا خون کے آنسو رونے کو دل چاہتا ہے۔ اور دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ اے اﷲ مجھے اتنی دولت عطا کر دے کہ تیرے یہ باپردہ لوگ گھروں میں رہ کر تیری عبادت کریں، اور تیرا شکر ادا کریں، کہ میں ان کو اس حد تک سپورٹ کر سکوں کہ وہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں۔اگرچہ وہ لڑکی بھی ہاتھ نہیں پھیلا رہی تھی، یہ ہی اسکی خود داری تھی، لیکن کیا کسی نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اﷲ نہ کرے کبھی اسکے گھر کے کسی فرد پر یہ وقت آئے جب وہ اپنے خاندان کے لیے اس طرح وقت بے وقت محنت کرتا دکھائی دے، شدید جاڑے کی سردی ہو یا آگ اگلتی گرمی، اسنے اپنے گھر کا چولہا ہر حال میں جلتے رکھنا ہے۔
کاش کہ ہم میں یہ بے حسی ختم ہو جائے، کاش۔۔
Ibn e Niaz
About the Author: Ibn e Niaz Read More Articles by Ibn e Niaz: 79 Articles with 64060 views I am a working, and hardworking person. I love reading books. There is only specialty in it that I would prefer Islamic books, if found many types at .. View More