آج ہمارے سماج میں فکرکا ایک
پہلویہ بھی ہونا چاہئے کہ آزادی کے اتنے برسوں بعد بھی سماج میں پسماندہ
طبقات کے اندروہ تبدیلی نہیں آئی شایدیہ ہمارے ملک کی ایک ناکامی ہے۔کہتے
ہیں کہ ہندوستان نے زندگی کے ہر شعبہ اور میدان میں ترقی کر لی ہے ۔لیکن یہ
ترقی تب تک ادھوری ہو گی جب تک کہ ترقی کا عمل نہ صرف مساوی ہو بلکہ ایسا
ہوتا ہوا نظربھی آئے ۔ایسا ہوتا ہوا ہندوستان میں شاید اس لئے نظر نہیں آ
رہا ہے کیونکہ یہاں پرقانون بنانے پالیسی بنانے اور ادارے بنانے پر زیادہ
زور دیاجاتا ہے اور ان پر عمل ہو اس پر فکر کم کی جاتی ہے۔آج ہمارا ملک بہت
تیزی سے ترقی کر رہا ہے لیکن اس کے اندر ایک ایسا بھی طبقہ ہے جس کے بے
شمار مسائل ہیں اور بہت ساری ضرورتیں بھی ہیں اس لئے جب ہماری نظرملک کے اس
طبقہ پر پڑتی ہے جو اس کی ترقی کی نعمتوں سے خوش ہی نہیں بلکہ خود اعتمادی
سے لبریز ہے تو وہیں پر ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو روٹی کپڑا اور مکان کا
تصورایک ساتھ نہیں کر پا رہا ہے۔اور وہ طبقہ ہے غیر برابری والے مواقع سے
دبا ہوا پسماندہ طبقہ ایک جمہوری ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ
اس کا کوئی شہری بھید بھاؤ کی وجہ سے پسماندہ نہ رہ جائے اور اگر کسی شہری
کے پسماندہ رہنے کی وجہ کوئی اور ہے تب بھی سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان
وجوہات کو دور کرے ۔ دلت مسلمان ہندوستانی سماج کا ایک حصہ ہے جو انصاف کا
مطالبہ کر رہے ہیں حالانکہ اسلام میں کسی طرح کی ذات پات کی گنجائش نہیں ہے
لیکن ہندوستانی سماج میں ذات پات پایا جاتا ہے۔اور اس کو مسلمان بھی عمل
میں لاتے ہیں ۔شاید اسی لئے دلت مسلمان سماج کے سب سے نچلے پائیدان پر ہیں
۔اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام میں مساوات اور بھائی چارے
کو سب سے اوپر رکھا گیا ہے چونکہ ہمارے ملک کا سماجی تانہ بانہ مختلف سماجی
اور معاشی وجوہات کی بنیاد پر متاثر ہوتا ہے اس لئے ہندوستان میں سماجی عدم
مساوات نظر آتا ہے۔اسی لئے یہ بات بے معانی نہیں ہے کہ اسلام میں کسی ذات
کو نہیں مانا جاتا ہے ۔اس لئے اس قوم میں کوئی ذات نہیں ہے کچھ لوگوں کا
کہنا ہے کہ مسلمانوں کو الگ سے ریزرویشن دیناملک کو ایک اور تقسیم کی طرف
لے جانا ہو گا۔لیکن دنیا میں ہر جگہ اقتدار اور انتظامیہ میں حصہ داری اور
اعلیٰ تعلیم تک پہونچ آپسی تعلقات کو مضبوط ہی کرتی ہے اور اسی تعلق سے
مسلمان اپنے مادر وطن سے وابستہ ہے۔اور وہ اس کی ترقی میں اپنی حصہ داری
نبھائے گا۔ملک میں ایس سی ایس ٹی اور او بی سی کے لئے جو ریزرویشن ہے اس نے
ملک کو تقسیم کرنے کے بجائے اور مضبوط کیا ہے اور ان طبقات کی احساس کمتری
کو بھی کم کیاہے اور ان کے اندر وطن پرستی کے جذبہ کو بھی مضبوط کیا ہے۔اور
مجھے یقین ہے کہ مسلمان بھی ریزرویشن کے بعد ایسا ہی کریں گے ۔چونکہ
ریزیرویشن ہندوستانی جمہوریت کا ایک اہم پروگرام ہے اور اس ملک کی سماجی
سیاسی اور معاشی ماحول کو دیکھ کرایسا لگتا ہے کہ اس کی ضرورت بہت طویل
عرصہ تک رہے گی۔فی الحال ملک کی سیاست کوکسی انقلابی تبدیلی یا متبادل کی
ضرورت نہیں ہے اس لئے سیاست اپنے فائدہ کے لئے ریزرویشن کا استعمال وقت کے
ساتھ ساتھ کرتی رہے گی۔بغیر یہ دیکھے کہ اس کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے اور
کتنا ہو رہا ہے۔ریزرویشن کا نصب العین سماجی بھائی چارہ اور انسانی برادری
میں فکری مساوات کو قائم کرنا ہے سماج میں مساوات قائم کرنے کے لئے اور اس
کو کارگر بنانے کے لئے ریزرویشن کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ ضروری رہا ہے۔اس
بات میں کسی کو کتنا ہی تضاد نظر آئے لیکن حقیقت یہی ہے ۔اور اس کے لئے اس
بات کی ضرورت ہے کہ مساوات آزادی اور جمہوریت کے مفہوم کو سمجھا جائے ۔تبھی
ہم ریزرویشن کے مقصد کو سمجھ سکتے ہیں شاید اسی لئے دنیا بھرکے ماہر قانون
نے ہندوستان کے قانون کوانصاف کا دستاویز کہا تھا فروفیسر آسٹن نے آئین ہند
پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آئین سماجی انقلاب اور ترقی کو یقینی
بنانے کا مسودہ ہے ۔آئین ساز اسمبلی اور اس کے ممبران ہندوستان کو ایک ایسا
آئین دینا چاہتے تھے جو سماجی ترقی کا ہتھیار ثابت ہو لیکن افسوس کہ ایسانہ
ہو سکا ۔کیونکہ جن لوگوں نے اس قانون کو بنایا تھا اس کو لاگو کرنے میں ان
کی نیت ٹھیک نہیں تھی جس کا خمیازہ آج تک دلت مسلمان بھگت رہا ہے آخر
ہندوستان کا آئین مذہب کے بنیاد پر کسی کے ساتھ بھید بھاؤکا سلوک نہیں کر
رہا ہے۔لیکن عملی طور پرایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔جس کی وجہ شایدیہ
رہی کہ پسماندہ مسلمانوں کا کوئی لیڈر اتنا مضبوط ہوکر نہیں ابھرا کہ وہ ان
مسائل پر سماج کو متحد کر سکے دوسرا یہ کہ جن لوگوں نے قوم کے نام پرلیڈر
شپ کی انہوں نے پسماندہ کے مسائل اور آئینی حقوق کی پرواہ نہیں کی ۔اگر
مرکزی حکومت نے ناانصافی کیا تھا تومیڈیاکہ یہ ذمہ داری بھی تھی کہ وہ اس
ناانصافی کو بنیاد بناکرانصاف کی لڑائی لڑے اور عدالتوں کو بھی کچھ زیادہ
ہی حساس اور دلدار ہونے کی ضرورت تھی۔لیکن بدنصیبی یہ رہی کہ میڈیا اور
عدلیہ جوجمہوریت کے اہم ستون ہیں ان کا ڈھانچہ خود غیرجمہوری ہے۔اس لئے
شاید وہ اس کا م کو انجام نہیں دئے ۔کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ غریبی
کی کوئی ذات اور مذہب نہیں ہوتا۔اس لئے سبھی طبقوں کے غریبوں کوریزرویشن
دینا چاہئے لیکن یہ بات پوری طرح سچ نہیں ہے۔اگر آپ امیروں کے حلقہ میں
جائیں تو پائیں گے کہ زیادہ ترامیراعلیٰ ذات کے لوگ ہیں اور غریبوں کے حلقہ
میں جائیں تو پائیں گے زیادہ تر غریب پسماندہ اور ایس سی ایس ٹی سماج سے
تعلق رکھتے ہیں ۔ویسے بھی ریزرویشن کوئی غریبی ہٹاؤ پروگرام نہیں ہے بلکہ
یہ سماج میں برابری لانے کے لئے ہر جگہ نمائندگی لانے کی پالیسی ہے۔صرف
غریبی ہٹانے کے لئے مراعات اور سہولیات دینا ہی کافی ہے۔لیکن سماجی انصاف
کے لئے ریزرویشن ہی ٹھیک رہے گا۔دلت مسلمانوں اور عیسائیوں کے ریزرویشن کے
سلسلہ میں جو مقدمہ عدالت عظمیٰ میں آئین کی دفعہ341کی شق(3)کے متعلق چل
رہا ہے اس کے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے ایک بڑی بینچ کو ریفرکردیا ہے اور
مرکزی حکومت نے یہ فیصلہ بھی لے لیا ہے کہ وہ ایک حلف نامہ کے ذریعہ اپنا
موقف عدالت میں رکھے گی کہ اسلام اور عیسائیت میں ذات پات نہیں ہے اس لئے
ان لوگوں کو ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا ہے اب عدالت عظمیٰ کو یہ طے کرنا ہے
کہ آیا مرکزی حکومت کا یہ موقف کتنا درست ہے ویسے آئین ہند کی
دفعہ366(24)میں جن لوگوں کو شیڈول کاسٹ بتایا گیا ہے اس میں مذہب کا ذکر
نہیں ہے۔اور آئین ہند اپنے شہریوں کامساوات کے حق کے ساتھ ساتھ بھید بھاؤ
کے خلاف حق کی بھی ضمانت دیتا ہے آئین ساز اسمبلی کے ارکان نے ہندوستان کی
سماجی غیر برابری کوجغرافیائی ،ثقافتی حالات کو دھیان میں رکھتے ہوئے کچھ
چیزوں کو ملحوظ کھا ہے اور اس کے ساتھ بنیادی حقوق کوعملی جامہ پہنانے کی
کوشش کی ہے۔
شہریارجلال پوری(لکھنؤ)
|