ہیں لوگ وہی دنیا میں اچھے

اکیسویں صدی کی اس ماڈرن دنیا میں انسانوں کی اکثریت جس انداز،نظریے اور سوچ کےتحت زندگی گزار رہی ہے،اسے دیکھ کر ہمیشہ یہی احساس ہوتا ہے کہ انسانوں کی تعداد میں توروز بروز اضافہ ہورہا ہے، مگر انسانیت بہت تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہے،کیوں کہ یہاں شہروں کے نام پر جنگل اور انسانوں کے نام پر درندے آباد ہیں،یہاں جب ایک انسان کی سربازار تذلیل کی جائے تو دوسرے انسان اس کی مدد کرنے کے بجائے موبائل میں مووی بنانے میں مصروف ہوجاتے ہیں،کسی ماں بہن کی عزت لٹتے دیکھ کر کسی مسلمان کی غیرت نہیں جاگتی،جب کوئی غریب شخص بیچ چوراہے پہ پٹ رہا ہوں تو پاس سے گزرنے والے کسی امیرزادے کا ضمیر اسے کچوکے نہیں لگاتا،غرض یہ کہ اس دورکے تمام انسان من حیث المجموع اجتماعی بے حسی کی اس حد تک پہنچ چکے ہیں، کہ جہاں پہنچ کر انسانیتت فضا میں معلق ہوکر انسانوں کا تماشہ دیکھتی ہے،دو ٹانگوں پہ چلنے والی مخلوق کا ہر کام چار ٹانگوں والی مخلوق کے کاموں سے مشابہت اختیار کرتاہے،کون کس حال میں ہے کسی کو کچھ معلوم نہیں،کس کو کس بات کا دکھ ہے اور کون غموں کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے کسی کو کچھ خبر نہیں،مسافت کے اعتبار دور کسی انسان کی اشک شوئی تو دور کی بات ہے،یہاں تو پڑوس میں بھوک سے بلک بلک کر ہلکان ہونے والے یتیم بچوں کی آوازیں بھی کسی پر اثر انداز نہیں ہوتیں،مائیں بہنیں بچوں کی خواہشات پوری کرنے کے لیے عصمت فروشی پہ مجبور ہوتی ہیں مگر امیر شہر کا کتا بھی ہڈیوں سے عاری گوشت کھانے کا عادی ہے،اس تمام تر صورت حال کو دیکھر انسانیت سے گھن آنے لگتی ہے،اپنے وجود سے نفرت ہونے لگتی ہے،رہ رہ کر یہ خیال آنے لگتا ہے کہ اس طرح کے گھٹے ہوئے ماحول میں سانس لینے سے ببہٓتر ہے کہ انسان داعی اجل کو لبیک کہہ کر اس اندھیر نگری سے آزادی حاصل کرلے...

مگر اسلامی تعلیمات کو فراموش کرکے اپنی اپنی دھن میں مگن انسانوں کے ریوڑ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں دیکھر مایوسی کی فضا چھٹنے لگتی ہے،امید کی کرنیں نمودار ہوتی ہیں،یہ احساس جاگزیں ہوتا ہے کہ انسانیت کا مکمل دیوالیہ ابھی نہیں نکلا،جنہیں دیکھ کر یہ یقین آجاتا ہے کہ آج بھی ایسے لوگ اس دنیا میں موجود ہیں جنہین پوری طرح معلوم ہے کہ ان کے پٰیغمبر ﷺ نے انسانیت کا درس دیا ہے، پڑوسی کے حقوق بتائے ہیں،مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے،اخلاق حسنہ کے حامل شخص کو بہترین مسلمان قرار دیا ہے،ایسے ہی ایک شخص کا واقعہ ذکر کرنے لگا ہوں جو میرے اور آپ کے درمیاں رہنے والا ایک انسان ہے مگر فرق اتنا ہے کہ اس کو اللہ تعالی نے انسانیت کے دکھ درد کو سمجھنے والا دل عطا کیا ہے...

کچھ عرصہ پیشتر ان ہی صفحات پہ میرا ایک کالم چھپاتھا، "میرے گاؤں کا مولوی" کے عنوان سے،جس دن کالم اخبار میں شائع ہوا اسی رات کو ایک اجنبی نمبر سے کال موصول ہوئی،جی آپ شیکیل اختر رانا صاحب بات کررہے ہیں....میں نے الٹا ان سے سوال کیا: جی آپ کون؟ انہوں نے بتایا: میں فیصل آباد سے بات کررہا ہوں،آج اخبار میں آپ کا کالم پڑھا اور آپ نے مولوی صاحب کے بارے مٰن جو نقشہ کھینچا ہے اسے پڑھنے کے بعد میں ابھی تک بے چین ہوں، صبح سے آپ کا نمبر ڈھونڈ رہا تھا،روزنام اسلام لاہور،اسلام آباد، ملتان ہر جگہ فون کیا آپ کا نمبر نہیں ملا،ابھی کچھ دیر پہلے کراچی آفس فون کرکے آپ کانمبر حاصل کیا ہے،پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ کیا وہ تمام باتیں واقعتا مبنی برحقیقت ہیں، جو آپ نے کالم میں لکھا ہے، مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا کہ اس دور میں بھی ایسا ہوسکتا ہے، میں نے کہا حاجی صاحب میں بھلا کیوں جھوٹ لکھوں،بس جو کچھ میرے سامنے تھا میں بلاکم وکاست لکھ چکاہوں،کچھ دیر خاموشی کے بعد حاجی صاحب گویا ہوئے کہ میں اس مولوی صاحب کی کچھ مدد کرنا چاہتا ہوں، تاکہ وہ سکون کے ساتھ اپنی خدمات سرانجام دے سکے،آپ ان سے میرا رابطہ کروائیں،میں نے صبح بات کرنے کے وعدے کے ساتھ کال کاٹ دی...

کال کاٹتے ہی میں نے اپنے بھائی کا نمبر ملایا اور تمام تر صورت حال ان کے گوش و گزار کرکے مشورہ طلب کیا،بھائی نے کچھ بات چیت کے بعد مولوی صاحب کا نمبر کہیں سے لے کر دے دیا،اور کہا پہلے ان سے بات کرلو، اگلے دن مولوی صاحب سے بات کرنے کے بعد حاجی صاحب کانمبر ان کو دیا اور ان کا نمبر حاجی صاحب کو دیا،اور خود کو اک فرض سے سبکدوش سمجھ کر اپنے کام میں مشغول ہوا،شام کو قاری صاحب کا فون آیا کہ وہ حاجی صاحب سے بات ہوئی تھی،وہ کہہ رہے تھے کہ آپ ایک مرتبہ فیصل آباد آجاؤ آپس میں بیٹھ کر بات چیت کرکے کوئی معاملہ طے کرلیں گے....

یہ بات سن کر دل و دماغ پہ شکوک و شبہات کے کئی دریچے وا ہونے لگے،ایک انسان ہونے کی حیثیت سے میرے دل اور دماغ میں بار بار یہ خدشہ سر اٹھا رہا تھا کہ مبادا کوئی فراڈ ہو،اس لیے احتیاط نہایت ضروری ہے،اسی احتیاط کے پیش نظر حاجی صاحب کا ایڈریس لے کر فیصل آباد میں کچھ دوستوں سے تحقیق کروایا تو پتہ چلا کہ ہمارے خدشات بالکل غلط نکلے،ہم یہ اطلاع پاکر خوشی سے نہال ہوگئے کہ حاجی صاحب حقیقت میں خداترس انسان ہیں، غریبوں کے ساتھ تعاون کرنا ان کی زندگی کا مقصد ہے اور کئی سالوں سے وہ یہ کام جاری رکھے ہوئے ہیں...

یہاں سے مطمئن ہوکرمیں نے بھائی کو "اوکے" کی رپورٹ دیتے ہوئے عرض کی کہ بلا تاخیر مولوی صاحب کو فیصل آباد کی طرف روانہ کردو،جس کے نتیجے میں مولوی صاحب فیصل آباد کے لیے روانہ ہوئے،اسی دوران حاجی صاحب مسلسل میرے ساتھ رابطے میں رہے،جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں اس سےتقریبا ایک گھنٹہ پہلے مجھے حاجی صاحب کی کال موصول ہوئی کہ آپ کے بندے میرے پاس بیٹھے ہوئے ہیں،ان سے بات کریں،ان سے کچھ بات چیت کے بعدمیں نے کال کاٹ دی،بعد میں حاجی صاحب نے کال کی کہ میں نے انہیں ایک معقول رقم کے ساتھ ماہانہ بنیاد پر تعاون کی یقین دہانی کرواکر رخصت کیاہے،کچھ دیر بعد میں نے مولوی صاحب سے بات کی تو انہوں نے حاجی صاحب کی باتوں کی تصدیق کی اور دعائوں کی ایک نہ ختم ہونے والی گردان شروع کی،اس وقت میرے دل میں رہ رہ کر یہ خیال آرہا تھا کاش ہمارے معاشرے کا ہر امیر فرد حاجی صاحب جیسی سوچ اور جذبے سے متصف ہوتا تو غربت کب اس معاشرے سے اپنا بوری بستر گول کرچکی ہوتی.....
Shakeel Akhtar Rana
About the Author: Shakeel Akhtar Rana Read More Articles by Shakeel Akhtar Rana: 36 Articles with 50584 views Shakeel Rana is a regular columnis at Daily Islam pakistan, he writs almost about social and religious affairs, and sometimes about other topics as we.. View More