والدین دُعابھی دوابھی

بلاشبہ والدین ہی کائنات میں ایسی عظیم ہستیاں ہیں جن کے اولاد پر بے شمار احسانات ہیں۔ اگر کوئی شخص ساری زندگی اپنے والدین کی خدمت کرکے ان احسانات کا بدلہ چکانا چاہے تب بھی وہ والدین کا حق ادا کرنے سے قاصررہے گا۔والدین اولادکےلئے انمول اورقیمتی ترین اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیںاوراس اثاثے کاکوئی نعم البدل ممکن ہی نہیں۔ ایک بچہ جب دُنیامیں اپنی آنکھیں کھولتاہے تواس کے والدین کے دِلوں میں خوشیوں وشادمانیوں کے پھوارے پھوٹ پڑتے ہیں ،والدین اپنے بیٹے یابیٹی کی پیدائش کی خوشیوں میں جہاں جھوم رہے ہوتے ہیں ،وہیں وہ اپنی اولادکے سنہرے وخوشنمامستقبل کے سپنے آنکھوں میں سجاتے ہوئے اپنی اولادکوہرقسم کی سہولت میسرکرانے کےلئے کٹھن سے کٹھن حالات سے نبردآزماہونے کاعزم مصمّم کرلیتے ہیں۔والدین کے چہرے ہرروزاپنے بچے کو آنگن میں کھیلتے،مسکراتے دیکھ کرخوشیوں کی چمک سے جگمگااُٹھتے ہیں۔اپنی اولادکوبہترسے بہترآسائشیں مہیاکرانے کےلئے وہ نہ صرف سخت محنت کرتے ہیں بلکہ دھوپ ،گرمی ،سردی اوردیگرمشکلات کودِل سے اِک آہ ! نکالے بغیرسہہ جاتے ہیں۔دُنیاکے تمام والدین اپنی اولادکے تئیں ایک جیساجذبہ ،خواہشات ،چاہت،آرزو،سوچ وفکررکھتے ہیں ۔والدین اپنی اولادکوصالح بنانے کے ساتھ ساتھ ایسے منصب پرفائزکرنے کی تمناکرتے ہیں جس سے ان کی اولادباوقارزندگی گذارسکے۔اولادکوباوقارزندگی دینے کےلئے والدین جہاں سخت جسمانی اورذہنی مشقت اُٹھاتے ہیںوہیں وہ ہرروزاولادکی باوقارزندگی کی تمناکااظہاردوران عبادت اللہ تعالیٰ کے حضورسربسجودہوکرکرتے ہیں ۔وہ دُعافرماتے ہیں کہ ان کی اولادراہ مستقیم پرچلے اورایسے منصب پرفائزہوں جس کے ذریعے وہ باوقارزندگی جی سکے۔والدین اپنی اولادکے تئیں سچا اورپاک جذبہ رکھتے ہیں،وہ خودپریشانیوں میں رہ کراولادکی خوشیوں کاسامان پیداکرنے کے ہرممکن جتن کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔اپنی اولادکے شانداراورسنہرے مستقبل کی تمناکی تعبیرکی خاطروالدین اپنے پیٹ پرپتھرباندھتے ہیں ،تنگی ،سختی اورمصیبتوں کوخوشی خوشی جھیل لیتے ہیں ۔ہرمشکل اورپریشانی کواولادکی خاطرسہنے کی طاقت والدین کواپنی اولادکے تئیں بے لوث جذبے سے ہی ملتی ہے۔والدین چاہتے ہیں کہ ان کی اولادکوزندگی میں کوئی دُکھ نہ جھیلناپڑے اورساتھ ہی انہیں یہ بھی توقع ہوتی ہے کہ اولادان کے بڑھاپے کاسہارابنے۔جب تمام ترمشقتوں کے بعداولادکسی منصب پرپہنچتی ہے توزیادہ تراولادیں والدین کونظراندازکر جاتی ہیں،موجودہ دورکایہ المیہ ہے کہ والدین کوبیشتراولادیںنظراندازکرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کررہی ہیں۔ حقیقت میں والدین کی نافرمانی کرنادوزخ میں اپنامقام بنانے کے مترادف ہے ۔دین اِسلام میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے ۔والدین کی عظمت کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت رکھی ہے اوروالدکوجنت کادروازہ قراردیاہے ۔اولادکووالدین کے تئیں عائدفرائض کوانجام دیناچاہیئے کیونکہ یہی وہ شخصیات ہیں جن کی خدمت کرکے انسان حقیقی معنوں میں خوشی وانبساط سے بھرپور زندگی گذارسکتاہے ۔جواولاداپنے والدین کی آنکھوں میں اپنے لیے سجے سپنوں کومحسوس کرلیتی ہے وہی اولادیں والدین کے خوابوں کوشرمندہ تعبیرکرنے میں کامیاب وکامران ہوتی ہیں۔اس کی وجہ یہی ہے کہ جوشخص اپنے والدین کی خوشیوں اوران کے سپنوں کوپوراکرنے کےلئے سخت محنت کرتاہے اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتاہے اوراللہ تعالیٰ جس سے راضی ہوتواُسے زندگی کے ہرموڑپرکامیابی وکامرانی ہی نصیب ہوتی ہے ۔اولادکافرض بنتاہے کہ جب والدین اپنی ساری زندگی اولادکی خوشیوں کےلئے بھاگ دوڑکرکے بڑھاپے میں پہنچ جائیں توان کی خوب خدمت کریں بجائے اس کے کہ انہیں بڑھاپے میں نظراندازکرکے خوداپنی زندگی مزے سے گذاریں ۔ کوئی بھی شخص جب بڑھاپے میں پہنچ جاتاہے تواس عمر میں وہ عموماً چڑچڑا ہوجاتا ہے اور اس کی طبیعت میں بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ لہٰذا والدین کو اس کیفیت میں اولاد کی طرف سے اچھے رویے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔قرآن کریم اور احادیث مبارک سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اور ان کا ادب و احترام ہر صورت میں ضروری ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی اور بدتمیزی کی کسی حال میں اجازت نہیں۔ والدین کی عظمت کااندازہ اس واقعہ سے بھی با آسانی لگایاجاسکتاہے جوراقم نے چندروزپہلے تنویرخطیب صاحب کی زبانی سنا۔واقعہ اس طرح ہے کہ ایک شخص نے اپنی والدہ کو اپنی کندھے پربٹھاکرسات حج کروائے ۔اس شخص کے دِل میں یہ خیال آیاکہ میں نے والدہ کاحق اداکردیاہے۔اصل میںاس آدمی نے ماں کی اس ایک رات کاحق بھی ادا نہ کیاجس رات اس نے بسترپرپیشاب کردیاتھااور اس کی والدہ نے اس شخص یعنی اپنے بچے کوبسترکی پیشاب والی گیلی جگہ سے اُٹھاکرسوکھی جگہ سلایااورماں خود گیلی جگہ سوگئی تھی۔الغرض یہ بھی فرمایاگیاہے کہ والدین کے ساتھ بدسلوکی کرنا اور بدتمیزی سے پیش آنا ایسا سنگین گناہ ہے جس کا عذاب اللہ تعالیٰ کے حکم سے دنیا ہی میں دیا جاتا ہے اور جب تک انسان اپنے اس سنگین جرم کی سزا نہ بھگت لے اس کو موت بھی نہیں آتی۔یہ بھی کہاجاتاہے کہ والدین کا نافرمان اور ان کے لیے تکالیف اور ایذا کا سبب بننے والا شخص چین سے زندگی نہیں گزار سکتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مصیبت و پریشانی میں مبتلا رہتا ہے۔ اگرکسی بھی شخص کو اپنی دنیا اور آخرت سنوارنی ہے تواسے چاہیئے کہ وہ والدین کی دل و جان سے عزت وخدمت کرے۔ان سے اونچی آواز میں بات کرنیوالوں کے لیے دنیا و آخرت عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔لہذا والدین سے محبت سے پیش آئیے۔وہی آپکی دعا بھی ہیں اور دوا بھی۔ہم نے والدین کی خدمت میں کوئی کثرباقی نہ چھوڑی تویقیناہم کبھی بھی کسی کی نظروں میں گریں گے نہ کسی کے قدموں میں جھکیں گے۔اللہ رب العزت نے دنیا میں ہر چیز کا نعم البدل رکھا ہے لیکن والدین کا کوئی نعم البدل نہیں ہے یہ ایک ایسی عظیم نعمت اور رحمت ہے۔ جس کا احساس ہمیں تب ہوتا ہے جب یہ ہم سے بچھڑ جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دُعاگوہوں کہ ہم سب کے سروں پررحمتوں کاسائباں تادیرقائم رکھے اور اللہ تعالی ہم سب کو والدین کی فرمانبرداری کی ہدایت دے۔(آمین)
Tariq Ibrar
About the Author: Tariq Ibrar Read More Articles by Tariq Ibrar: 64 Articles with 58038 views Ehsan na jitlana............. View More