طلبہ میں نقل کابڑھتاہوارجحان اورہمارا مستقبل
(Muhammad Nasir Khan Chishti, Karachi)
اِدھر اُدھر کی بات نہ کر، یہ
بتا قافلہ کیوں لٹا ٭٭
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری راہبری کا سوال ہے
طلبہ کسی بھی ملک،قوم اورمعاشرہ کا انتہائی قیمتی اثاثہ اور روشن مستقبل کی
ضمانت ہوتے ہیں۔ملک وقوم کی تعمیر وترقی،استحکام وعروج اور قوم کے خوابوں
کی تعبیراور تکمیل طلبہ سے ہی وابستہ ہوتاہے،کیوں کہ طلبہ مستقبل کے
معمارہوتے ہیں اور ملک کی آیندہ تعمیر و ترقی اوراستحکام کی بھاگ دوڑ انہی
کے ہاتھوں میں ہوتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس عظیم مقصد کی تکمیل صرف اسی صورت
میں ہوسکتی ہے جب طلبہ اپنی تعلیم پرکماحقہ توجہ دیں اوردوران تعلیم ایک
نیک صفت مسلمان اور ذمہ دار شہری کے جملہ اوصاف اپنے اندر پیدا کریں۔
ہرشعبہ زندگی میں ترقی اورکامیابی کیلئے علم کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے اور
یہ ضرورت مستقبل کے معمار طلبہ پوری کرتے ہیں،اس لیے قوم کے بچوں کوصحیح
تعلیم وتربیت سے آراستہ کرناہم سب کا قومی،دینی اوراخلاقی فرض ہے۔
خدانخواستہ اگر یہ بنیاد کھوکھلی رہ گئی توآگے چل کر ساری عمارت
متاثرہوسکتی ہے، جو شخص خود ادھورا اور علم وادب سے کورا ہوگا،وہ بھلاملک
وقوم کی ترقی کا سہاراکیونکر بنے گا،لہٰذاطلبہ کی اچھی تعلیم سے کہیں زیادہ
ان کی اچھی تربیت کی ضرورت ہے، اس لیے ضروری ہے کہ طلبہ علم وعمل کے
خوگراورپیکر ہوں…… ان کی کامیابیاں ان کی اپنی محنت ولگن،جستجواور جدوجہد
سے عبارت ہوں…… ان کے پاس ڈگریاں ان کی اپنی محنت اور کاوشوں کا نتیجہ ہوں
تو ملک وقوم کی عمارت بلند اورمضبوط ترہوگی۔ اس کے برعکس نقل کے بل بوتے
پرحاصل کی ہوئی ڈگری مستند نہ ہوگی۔ نقل کی بہ دولت ملنے والی سندعملی
زندگی میں کسی کام نہیں آئے گی اور نقل کے باعث ملنے والی ترقی ،کامیابی
اورکامرانی ہمیشہ کھوکھلی رہے گی۔
اصول بیچ کے مسند خریدنے والو
٭٭ نگاہِ اہلِ وفا میں بہت حقیر ہو تم
نقل کرناایک لعنت ہے
امتحانات میں نقل کرنااورکراناایک گناہ اورجرم ہے۔ ایک برائی اورلعنت ہے۔
ایک چوری بلکہ ڈاکا ہے۔ ایک ظلم اورزیادتی ہے۔ ایک بے ناانصافی بلکہ انصاف
کا قتل ہے۔ اﷲ تعالیٰ،اُس کے رسول ﷺکے احکامات کی سنگین خلاف ورزی اور حقوق
العبادکی حق تلفی ہے۔نقل کرنے اورکرانے سے کس طرح کے اورکیاکیانقصانات ہوتے
ہیں، اس مضمون میں ہم نقل کرنے سے اس کے معاشرتی پہلو، اخلاقی پہلو، علمی
پہلو، مذہبی پہلو،قومی پہلو،شخصی پہلو اوراجتماعی پہلووں سے ہونے والے
نقصانات کوسامنے لائیں گے جو ملک وقوم کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
نقل کرنے کا بڑھتا ہوا رجحان ٭٭ جس سے پریشان ہو رہا ہے ہر پیر و جوان
امتحانات میں دولت،طاقت، دھونس اور دھمکی کے بل بوتے پرنقل کا شرم ناک اور
خطرناک بازار گرم ہے جو ہمارے ملک وقوم کے حکم رانوں کے لیے،صاحبانِ
اقتدارواختیار کے لیے،ماہرین تعلیم کے لیے ،وزیروں مشیروں کے لیے ،اعلیٰ
وادنیٰ افسران کے لیے ،تعلیمی اداروں کے مالکان اوراساتذہ کے لیے اور پوری
قوم کے لیے نہ صرف لمحہ فکریہ ہے بلکہ باعث شرم بھی ہے۔نقل کے اس گھناؤنے
اورشرمناک کاروبار میں ہم سب کسی نہ کسی حوالے سے شریک جرم ہیں۔ہم کس منہ
سے اپنے آپ کو اچھامسلمان اوراچھا انسان کہتے ہیں،کیا ہم نے ایک اچھے
مسلمان ،انسان اورذمہ دار کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا کی
ہیں۔
نقل کابڑھتاہوارجحان پاکستان کے تعلیمی نظام کا وہ ناسور ہے جس نے پورے
تعلیمی نظام اور ڈھانچے کوناکام اور ناکارہ بناکر رکھ دیاہے۔ایک وقت تھا کہ
جب نقل کرنے کوانتہائی معیوب اور گناہ سمجھاجاتاتھا لیکن آج نقل کوکامیابی
کاذریعہ سمجھاجاتاہے اور ظلم کی انتہاتویہ ہے کہ بعض ممتحن
(Invigilators)توپیسے لے کر نقل کرانے کاگھناؤناکاروباراورعلم دشمنی
کاکردارکررہے ہیں، کسی ملک وقوم کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اور زیادتی اورکیا
ہوگی۔واضح رہے کہ نقل کرانے کے لیے لی گئی دولت ناجائزوحرام ہوتی ہے
اورحرام غذا کھانے والے سے متعلق رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :
ترجمہ: ’’و ہ جسم (اپنی سزاپائے بغیر) جنت میں داخل نہیں ہوگا، جس کی پرورش
حرام غذا سے کی گئی ہو‘‘۔
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جس شخص نے دس درہم کا کوئی
کپڑا خریدا اور اس میں سے ایک درہم بھی حرام کا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس آدمی کی
نماز قبول نہیں فرمائے گا جب تک کہ وہ کپڑا اس کے جسم پر رہے گا
‘‘۔(الترغیب و الترھیب، مجمع الزوائد، شعب الایمان)
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم نے چندپیسوں کی خاطراپنا ایمان،ملک اوراپنے
بچوں کا مستقبل داؤپرلگادیاہے اورپیسوں کی خاطر اسلام کی واضح تعلیمات کو
فراموش کردیاہے حالانکہ اسلام میں رزقِ حلال کمانے کوایک فریضہ عبادت
قراردیاگیا ہے لیکن اس طرح نقل کرکے اورنقل میں مددکرکے ہم نہ صرف علم
اوراستاد کی قدروقیمت اورتقدس کوپامال کررہے ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات سے
روگردانی،وطن عزیزکے اغراض ومقاصدسے پہلوتہی ، اپنے بزرگوں کی قربانیوں سے
بے وفائی اورخود اپنے ساتھ بہت بڑاظلم کررہے ہیں۔
نقل کے نقصانات
نقل کرنے ،نقل میں مدددینے اورنقل کو نہ روکنے سے ملک وقوم اورمعاشرہ پربہت
زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔نقل کے چند بڑے نقصانات حسب ذیل ہیں۔
٭ نقل کرنے ،نقل میں مددکرنے اورنقل کونہ روکنے سے ملک وقوم اورمعاشرہ میں
ظلم وزیادتی،ناانصافی،ظلمت وجہالت ،عداوت ودشمنی، نفرت وحقارت اوردیگرکئی
طرح کے منفی جذبات پروان چڑھتے ہیں جو ملک وقوم کے لیے بہت نقصان دہ ثابت
ہوتے ہیں۔
٭نقل کرکے پاس ہونے والے اورپوزیشن لینے والے طلبہ اوران کے والدین اپنی اس
’’کامیابی‘‘پرکبھی مطمئن، پرسکون، نازاں اورراضی نہیں رہ سکتے، اُن کا ضمیر
ہر وقت انھیں لعنت اورملامت کرتارہتاہے کیونکہ نقل کے بل بوتے پر حاصل ہونے
والی کامیابی اورخوشی جعلی،عارضی اورناپائیدارہوتی ہے۔
٭نقل کرنے والے ظالم،چور،ڈاکواورغاصب ہوتے ہیں کیونکہ وہ نقل کرکے دوسرے
بچوں کا حق مارتے ہیں، ان کا حق اور پوزیشن چوری اورڈکیتی کے ذریعے حاصل
کرتے ہیں۔
٭نقل کرنے والوں کوڈگری تو ضرور مل جاتی ہے لیکن ان میں علم کی طاقت،تربیت
کی روشنی،اعتماد کی قوت اورضمیر کا اطمینان وسکون کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔
٭نقل کرنے والے ساری زندگی اپنے ضمیرکے قیدی،باصلاحیت بچوں کی خوشیوں کے
قاتل، اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مجرم بنے رہتے ہیں۔
٭نقل کرنے والے ملک وقوم کے باصلاحیت بچوں اوران کے والدین کی بددعاؤں
اورآہوں کاشکاررہتے ہیں۔
٭نقل بچوں کو علم کی دولت سے محروم کرنے کا ایک بڑاسبب ہے اوراس سے بڑا
نقصان اورکیا ہوسکتاہے کہ تعلیمی میدان میں آنے والا بچہ علم کی دولت سے
محروم رہ جائے۔
٭نقل کرکے پاس ہونے والے لوگ اپنی عملی زندگی میں ہمیشہ ناکام، بزدل،دوسروں
پرانحصارکرنے والے ہوتے ہیں اور ساری زندگی دوسروں کے رحم وکرم پر ہوتے
ہیں۔
٭نقل کرکے پاس ہونے والے اورپوزیشن لینے بچوں کو دیکھ کرمحنتی اورباصلاحیت
طلبہ ناامید ہوکرمایوس ہوجاتے ہیں اور وہ بھی یہی راستہ اختیار کرنے
پرسوچنے لگتے ہیں۔
نقل میں ساتھ دینے والے
نقل کرنے اورنقل کروانے والے دونوں برابرکے مجرم اور گناہ گار ہوتے ہیں۔بہ
حیثیت مسلمان،صاحب اختیارواقتداراوراستاد ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم برائی
روکیں۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی عظیم کتاب قرآن مجیدمیں واضح طور پر حکم
فرمایاہے کہ:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃً یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِوَیَاْمُرُوْنَ
بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰئِکَ ھُمُ
الْمُفْلِحُوْنَo
ترجمہ: ’’اورتم میں ایسے لوگوں کی ایک جماعت ہونی چاہیے جو اچھائی کی طرف
بلائیں اورنیک کاموں کا حکم دیں اوربرے کاموں سے منع کریں اور وہی لوگ فلاح
کو پہنچنے والے ہیں‘‘۔ (سورۂ آل عمران:آیت۱۰۴)
اسی طرح ایک دوسرے کی مددکرنے یامددنہ کرنے کااصول بیان کرتے ہوئے اﷲ
تعالیٰ قرآن مجید میں ارشادفرماتاہے:
﴿ وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی
الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانَ۔ ﴾(سورۃالمائدہ:آیت۲)
ترجمہ: اورتم نیکی اورپر ہیزگاری(کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مددکرو اور
گناہ اور ظلم (کے کاموں) میں ایک دوسرے کی مددنہ کرو‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں گناہ اورظلم پر ایک دوسرے کی مددکرنے سے واضح طورپرمنع
فرمایاگیا ہے۔اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ گناہ اوربرائی پر مددنہیں کرنی چاہیے
بلکہ گنا ہ اور برائی سے دوسروں کوروکنا چاہیے۔ اس لیے ہم سب پر یہ فرض
عایدہے کہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اورگناہوں اوربرائیوں سے
ایک دوسرے کو روکیں،کیوں کہ یہی اﷲتعالیٰ کاحکم اوراسلام کی تعلیم ہے۔
حقوق العبادکاتحفظ اہم فریضہ ہے
نقل کرنا اورکراناحقوق العباد کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے۔فرائض کی ادائیگی
اور دوسروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے رسول اکرمﷺکا یہ فرمان ہم سب کی بہترین
راہنمائی کرتاہے۔رسول کریمﷺنے ارشادفرمایا:
کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ۔
ترجمہ: ’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک اپنے ماتحت
لوگوں (کے اعمال اورحقوق ) کے بارے میں جوا ب دہ ہے‘‘۔
اس حدیث مبارکہ میں انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے اور ہر ذمہ
داراورنگہبان شخص مثلاًحکم ران،افسران،اساتذہ، نگران اور دیگرذمہ داروں
پریہ ذمہ داری عایدکی گئی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کریں، ورنہ
قیامت کے دن انھیں اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی پرجواب دہ ہونا پڑے گا۔
بہ حیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری:
نقل جیسی برائی کی روک تھام کیلئے ہمیں بہ حیثیت مسلمان،صاحب
اختیارواقتداراوراستاداپناکردارضروراداکرناچاہیے کیونکہ یہ ہمارادینی،ملی
اور اخلاقی فرض ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول
اکرمﷺنے ارشادفرمایاکہ: تم میں سے جس شخص نے کوئی برائی ہوتے دیکھی اوراپنے
ہاتھ کی طاقت سے اسے دورکردیاتووہ اپنے فرض سے بری(سبکدوش) ہوگیااورجس نے
ہاتھ کی طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے اپنی زبان استعمال کی اوراس کے خلاف آواز
اٹھائی تو وہ بھی بری ہوگیااورجوشخص اپنی زبان بھی استعمال نہ کرسکے اوردل
میں اس برائی سے نفرت کرے اوراسے برا سمجھے تو وہ بھی بری(مواخذہ سے
آزاد)ہوگیااور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘۔(سنن نسائی، الترغیب
والترہیب)
طلبہ میں نقل کا بڑھتاہوارجحان
آج طلبہ میں نقل کا رجحان خطرناک اورتشویش ناک حد تک بڑھ گیا ہے،اگرنقل کے
اس بڑھتے ہوئے سیلاب اور رجحان کو بروقت نہ روکاگیااور اس کے تدارک کے لیے
سنجیدہ اورٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یقین جانیے ملک وقوم کا مستقبل
خطرہ سے خالی نہیں ہوگا۔ہرشعبہ زندگی نقل کے نقصانات سے
شدیدمتاثرہوگا۔ہرمحکمہ اورادارہ نااہلیت کا ناکارہ ہوتاجائے گا۔ترقی اور
عروج کی منزلیں دور ہوتی جائیں گی۔ملک وقوم کی تعمیرکا،بزرگوں کے خوابوں کی
تعبیر کااورقیام پاکستان کے اغراض ومقاصد کی تکمیل کاسامان کبھی پورانہیں
ہو سکے گا، کیونکہ جس عمارت کی بنیادناقص اورناتواں ہوگی وہ عمارت کبھی بھی
مضبوط ،توانا اورپائیدارنہیں ہو سکے گی۔ عمارت کو مضبوط اور مستحکم کرناہے
تو اس کی بنیاد نقل اوربے ایمانی پرنہیں بلکہ تعلیم کی اینٹ،تربیت کے
پانی،تحقیق وجستجو کے گارے،تعظیم وتکریم کی دیواروں اورادب کے دروازوں
پررکھنی ہوگی اورپھر دیکھیے گا کہ یہ عمارت ضرور مضبوط ،توانا،مستحکم
اورناقابل تسخیربنے گی۔
اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرہ میں آج بھی محنتی،دیانت دار اورفرض
شناس لوگوں کی قدروقیمت اورعزت وعظمت ہے لوگ ایسے ہی لوگوں پررشک کرتے ہیں
،ان کی صلاحیتوں کااعتراف کرتے ہیں اور انھیں اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں جب
کہ ان کے مقابلے میں کام چور،بے ایمان،دھوکے باز،بددیانت اوربدعنوان لوگوں
کی کوئی عزت نہیں ہوتی،منہ پربے شک لوگ ان کو برابھلا نہ کہتے ہوں لیکن
پیٹھ پیچھے ضرور ان کو برابھلاکہاجاتاہے اورانسان کا اصل مقام وہی ہوتا ہے
جس کا اظہار لوگ ان کی غیرموجودگی میں کرتے ہیں۔بہ قول شاعر:
سچ جہاں بھی ہو اُسے ملتی ہے عزت کی سند ٭٭ جھوٹ ہر بزم میں ہر رزم میں
ہوتا ہے ذلیل
آج نت نئے طریقوں کے ساتھ نقل کی جا رہی ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ آج
دولت کے بل بوتے پرنہ صرف ڈگریاں مل رہی ہیں بلکہ پوزیشن بھی حاصل کی جا
سکتی ہے۔آج کچھ لوگ نقل کواپنا ’’پیدائشی حق‘‘ سمجھتے ہیں اورایسے ہی
’’باصلاحیت‘‘بچوں کویقینا پوزیشن بھی ملتی ہے کیوں کہ جب دولت بانٹ
کراورکتابیں کھول کرنقل کی جاتی ہے تو پھر پوزیشن توملنی ہی ہے لیکن
یادرکھنے والی بات یہ ہے کہ دولت کے بل بوتے پرنقل کرنے والے اور ڈگر ی
لینے والے کبھی ملک وقوم کے مخلص اوروفادارنہیں ہوسکتے۔ایسے لوگوں کوڈگریاں
تو مل جاتی ہیں لیکن علم کی دولت اورتربیت کے فیضان سے یہ لوگ ہمیشہ محروم
رہتے ہیں اور ایسے لوگ ساری زندگی سچی خوشی ، اطمینانِ قلب اورلذت ِخود ی
سے ناآشنا رہتے ہیں اور ایسے لوگ کبھی دوسروں کو فیض یاب نہیں کرسکتے
کیونکہ:
حقیقت چھپ نہیں سکتی کبھی بناوٹ کے اصولوں سے ٭٭ خوش بو آ نہیں سکتی کبھی
کاغذ کے پھولوں سے
علم وادب کے ایک ممتازدانشورکہتے ہیں کہ ’’بے ایمانی، کم ہمتی،نقب زنی اور
گیدڑ کی زندگی ‘‘جب یہ چارعناصرصور ت پذیرہوکرایک ہیولیٰ کی شکل اختیارکرتے
ہیں توعرفِ عام میں اسے’’ نقل‘‘کانام دیاجاتاہے۔یہ ایک ایسا روگ ہے جو ملک
وملت کی جڑیں کھوکھلی کرکے رکھ دیتاہے۔یہ ایک ایسامرض ہے جو انسان کی
صلاحیتوں کو زنگ آلود،اس کے ارادوں کو کمزور،اس کے عزائم کوپست اوراس کی
خود کو ملیامیٹ کرکے قومی ترقی کی جڑپرخنجر چلادیتاہے۔نقل کرنے والا طالب
علم زندگی کے ہرمیدان اورمقام پرشکست خوردگی کی لعنت کا ہاراورذلت ورسوائی
کا طوق اپنے گلے کی زینت بناتاہے۔نقل کرنے والا ایک چورہے جو دوسروں کی
علمی دولت لوٹ کرمزے اڑاتاہے۔وہ ایک رستاہواناسور ہے جس کی سڑانداوربدبوسے
پورامعاشرہ اذیت کا شکارہورہاہے۔
’ہمیں قائداعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال اور ان کے عظیم رفقاء کی
انتھک محنت اور لاکھوں شہیدوں کی قربانیوں نے آزادی کی نعمت سے ہمکنار
کیا،ہمیں پاکستان کی شکل میں جنت کا ایک ٹکڑاملا جو اپنی بقااوراستحکام کے
لیے اعلیٰ درجہ کے سائنسدان،انجینئر، ڈاکٹرز،فلسفی، ادیب،معلّمین،مورخین،
مصنفین،منصفین اورشاہین صفت محنت کش مانگتاہے جواپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی
میں کارہائے نمایاں انجام دے کراس مملکت خدادادکو ایک اسلامی اورفلاحی
مملکت بنانے کے خواب کوپایہ تکمیل تک پہنچاسکیں……لیکن افسوس صدافسوس نقل
پیشہ افرادہمیں جعلی سائنسدان عطا کررہے ہیں۔یہ جھوٹے فلسفی مہیاکررہے ہیں۔
یہ شاہین وعقاب کو خاکبازی کا درس دینے والے معلم بنارہے ہیں۔ یہ ڈگریوں کے
ٹھپے لگا لگاکر جاہلوں کی ٹیم فراہم کررہے ہیں۔یہ ملک کی دولت پرعیاشی کرنے
والے افسران پیدا کررہے ہیں۔یہ ملک وقوم کے مقدر سے کھیلنے والے اورعوام
کاخون چوسنے والے سیاسی لیڈرپیداکررہے ہیں۔ یہ کام چوروں،بے
ایمانوں،فراڈیوں اورپست ہمتوں کی ایک کھیپ تیارکررہے ہیں جو ملک وملت
کودیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔
نقل کرنے اور کرانے کی عادت چھوڑیے
کیجیے خوف خدا یہ کارِذلت چھوڑیے
کاروبارِ نقل سے علم وادب کا ہے زیاں
ملک وملت کا خسارہ ہے یہ لعنت چھوڑیے
علم کی جو شمع سینے میں ہے وہ بجھ جائے گی
چھوڑدیجیے یہ اندھیرا گھپ،یہ ظلمت چھوڑیے
نقل کی روک تھام کے لیے چندسفارشات
٭امتحانات کے لیے کم سے کم اوربڑے بڑے امتحانی مراکز(Examination
Centers)بنا کر اجتماعی طورپر امتحانات لیے جائیں۔
٭جہاں کہیں امتحانات لیے جائیں وہاںCCDکیمرے لگا کراورکنٹرول روم
بناکرامتحانات کو مانیٹر کیا جائے۔
٭امتحانات کے انعقاد سے پہلے امتحانات دینے والے طلبہ سے نقل نہ کرنے
اورامتحانات لینے والے ممتحن (Invigilators) سے نقل نہ کرانے پرحلف نامے
لیے جائیں۔
٭’’نقل سے ہونے والے نقصانات اوراس کی روک تھام کے اقدامات‘‘ کے عنوان پر
مضمون نویسی کرائی جائے اور تمام سیکنڈری کلاسزمیں اس عنوان پر مضمون
لکھوایاجائے تاکہ بچوں میں علمی شعوراوراحساسِ ذمہ داری پیدا ہو۔
٭طلبہ اورطالبات کوتعلیم کے آغاز پر ہی نقل کے نقصانات سے آگاہ کردینا
چاہیے۔
٭نقل روکنے کے لیے ہر سطح پر اورہرطرح کے قابل عمل ،بنیادی اورٹھوس اقدامات
کرنے چاہییں۔
٭نقل کرنے اور کرانے والوں کے خلاف فوری قانونی کارروائی عمل میں لائی
جائے۔
٭نقل کرنے اور کرانے والوں کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
٭ نقل کی روک تھام کرنا قومی ضرورت ہے ،جس کے لیے ہرفرد اور ادارے کو اپنا
قومی فریضہ ضروراداکرناچاہیے۔
طلبہ کی ذہنی صلاحیتیں قوم کی مقدس اما نت ہیں ۔ اس امانت میں کسی طرح کی
بھی خیانت نہیں ہو نی چاہیے۔ اس امانت کا حق صرف اسی صورت میں ادا ہو سکتا
ہے کہ طلبہ تعلیم کے دوران نہایت دیانت داری کے ساتھ حصول علم میں کوشاں
رہیں۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان بننے کے بعدطلبہ سے
خطاب کرتے ہوئے کہاکہ:’’میں تمھیں پاکستان کا معمارسمجھتاہوں اوردیکھ
رہاہوں کہ تم اپنی باری پرکیا کچھ کر دکھاتے ہو،اس طرح رہو کہ کوئی تمھیں
گمراہ نہ کرسکے۔ اپنی صفوں میں اتحاد اور مضبوطی پیداکرو، تمہارا اصل کام
کیا ہے؟ اپنی ذات سے وفاداری،اپنے والدین سے وفاداری، اپنے ملک سے وفاداری
اور اپنی تعلیم پرپوری توجہ‘‘۔!!!
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے ٭٭ مشرق و مغرب میں تیرے دور کا
آغاز ہے
٭……٭……٭ |
|