انصاف خود کٹہرے میں

بالآخرطارق قاسمی کو عمر قید کی سزا ہوگئی ۔دہشت گردی سے متعلق مقدمہ میں بارہ بنکی کی عدالت کافیصلہ صرف حیرت زدہ کرنے والا نہیں ہے بلکہ نظام عدل وانصاف پرسنگین نوعیت کے سوالات قائم کرنے کا بھی باعث ہے۔محض اس وجہ سے نہیں کہ اس فیصلہ میں مرحوم خالد مجاہدکا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ہے کہ وہ بے قصور ہیں یا مستحق سزا،بلکہ اس بناء پر بھی کہ خالد اورطارق کی ایک ساتھ گرفتاری کا دعویٰ خودتفتیش کاروں نے کیا تھا اور دونوں پر تقریباًایک جیسے الزامات عائد کئے گئے تھے۔اس کے باوجوداس مقدمہ میں عدالت نے طارق قاسمی کو عمر قید کی سزا سنادی اور جو خبریں ذرائع ابلاغ میں آئیں، اُن میں کہیں بھی خالد مجاہد کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے کہ عدالت نے اُن پر عائد کردہ الزامات کو مسترد کیا یا قابل قبول سمجھا۔

عدالت کایہ فیصلہ اہل نظرکے درمیان موضوع بحث ہی نہیں بن گیاہے بلکہ کچھ لوگ یہ سوال بھی کھڑا کررہے ہیں کہ کیاایسے فیصلوں کی بنیاد پریہ کہاجاناممکن ہے کہ عدالتیں واقعی’ انصاف کا مندر‘ کہلانے کی مستحق ہیں؟کچھ لوگ اِس بنیادپر ہندوستان کے پورے نظام عدل کو ہی کٹہرے میں کھڑا کررہے ہیں جسے پوری طرح تودرست کہنے کی گنجائش نہیں البتہ اس مقدمہ پراس سے متعلق فیصلہ پراُٹھنے والے سوالات بے سبب بھی نہیں ہیں کیونکہ فاضل جج نے بعض اطلاعات کے مطابق ’’مجبوری میں یہ فیصلہ سنایاکیونکہ انہیں ملازمت کرنی تھی‘‘۔۔ایڈیشنل سیشن جج شانتی پرکاش اروندنیکمرۂ عدالت میں اگر واقعی یہ تبصرہ کیا ہے، جیسا کہ کہاجارہا ہے تو پھر یہ سوال یقینا موضوع گفتگو بنے گا کہ کیا مجبوری میں انصاف کا قتل ہو گیا؟اگر ہاں تو فاضل جج کو یہ وضاحت بھی کردینی چاہئے تھی کہ وہ مجبوری آخر کیا تھی؟جس کی وجہ سے انہوں نے یہ فیصلہ سنایا تاکہ بے قصورافراد کو دہشت گردقرار دینے کی جو کوششیں ہوتی رہی ہیں،اُن پر سے پر دہ اٹھانے والوں اورحقوق انسانی کے تحفظ کے علمبرداروں کویہ پتہ چل سکے کہ سیاسی جماعتوں اور ارباب اقتدار کارول اس معاملہ میں کیا ہے،وہ کھل کر سامنے آسکے۔

بارہ بنکی کی عدالت کے فیصلہ پر انصاف پسند طبقہ کاسراپااحتجاج بن کریہ کہہ دینا کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے،صرف اس اندیشہ کا ہی اظہار نہیں ہے کہ موجودہ نظام انصاف میں ارباب اقتدار کی واضح دخل اندازی پائی جارہی ہے بلکہ اِس سے نکتہ بھی سنجیدہ بحث کامتقاضی بن جاتا ہے کہ کیااب عدالتیں ماورائے ضابطہ فیصلے تو تحریر نہیں کرنے لگ گئی ہیں؟کیونکہ عدالتوں کاکام یہ ہوا کرتاہے کہ ثبوت و شواہد کی روشنی میں مقدمات کو فیصل کرے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی عدالتوں کے ذریعہ مظلومین کو بلااختصاص مذہب عمومی طورپر انصاف ملتا رہاہے۔یہ اور بات ہے کہ بعض معاملوں میں انصاف کے تقاضوں کا بوجوہ خاص خیال نہ رکھا جاسکامگریہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ ایسے مقدمات کی تعداد آٹے میں نمک کے برابرہے،جسے نہ تو بنیاد بنایاجاسکتا ہے اور نہ ہی اس بنیاد پر پورے نظام انصاف کو ہی کٹہرے میں کھڑاکیاجاسکتا ہے۔بارہ بنکی کی عدالت کا یہ فیصلہ کس حد تک انصاف کے تقاضوں کے مطابق سامنے آیا،یہ کہہ پانا جلد بازی ہوگی،کیونکہ مقدمہ سے متعلقہ جو تفصیلات اب تک ذرائع ابلاغ کی زبانی سامنے آئی ہیں،اُن سے پہلی نظر میں یہ گمان گزرتاہے کہ ملزمان کے ساتھ انصاف نہیں کیاجاسکابلکہ اس کے بجائے یہ انصاف بجائے خودکٹہرے میں کھڑاہے اور ہندوستان کے نظام انصاف کو کہیں نہ کہیں منہ بھی چڑھارہاہے!
قابل ذکرنکتہ یہ ہے کہ نومبر 2007 میں فیض آباد، لکھنؤ اور وارانسی کی عدالتوں میں ہونے والے دھماکوں کی تفتیش کے دوران متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا تھاجس میں دونام خالد مجاہد اور طارق قاسمی بطور خاص توجہ کا مرکز بن گئے تھے۔تفتیشی اہلکاروں کے دعووں کے مطابق ایس ٹی ایف نے 22 دسمبر 2007 کو طارق قاسمی اور خالد مجاہد کو بارہ بنکی سے دھماکہ خیز مواد کے ساتھ گرفتار کیا۔ بارہ بنکی کے کوتوالی میں اس کا مقدمہ درج کیا گیاجبکہ اہل خانہ نے پولس کے الزامات کو بے بنیاد بتایاجس کی تصدیق نمیش کمیشن کی رپورٹ سے بھی ہوچکی ہے۔اہل خانہ کا کہنا ہے کہ طارق کو 12دسمبر 2007کو اعظم گڑھ سے اور خالد کو 16دسمبر 2007 کو جونپور سے اُٹھایا گیامگران دونوں کی گرفتاری 22دسمبر کو بارہ بنکی میں دکھائی گئی تھی۔

متذکرہ دونوں افراد کی مضحکہ خیزانداز میں ہونے والی گرفتاری کایہ مسئلہ انصاف کے طلبگاروں کیلئے احتجاج و اشتعال کاسبب بن گیا تھااور بعدہ‘بی ایس پی کی قیادت والی مایاوتی کی سرکار نے مارچ 2008میں جسٹس آر ڈی نمیش کی سربراہی میں ایک رکنی کمیشن تشکیل دی تھی۔گویا بعداز احتجاج یوپی حکومت نے گورنر کے حکم سے سبکدوش ضلع و سیشن جج آرڈی نمیش کی قیادت میں ایک رکنی کمیشن قائم کیاتاکہ دہشت گردی سے متعلق اس معاملہ میں کی حقیقت سامنے آسکے اوراس معاملہ میں گرفتارہونے والے طارق قاسمی اور خالد مجاہد کے اُن دعووں کی سچائی بھی سامنے آسکے،جن میں وہ خود کو بے گناہ بتارہے تھے۔چنانچہ یوپی حکومت کے ذریعہ اس کمیشن کا قیام 14 مارچ 2008 کو عمل میں لایاگیاجسے 6 ماہ کے اندررپورٹ دینے کی ہدایت دی گئی لیکن کمیشن کی مدت کار 8 بار بڑھائی گئی اور اس طرح کمیشن نے تقریباًپانچ سال کی جانچ پرکھ کے بعد 31اگست 2012کو اپنی رپورٹ حکومت کو سونپی ۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق بارہ بنکی سے ان دونوں افراد کی گرفتاری مشکوک ہے اور اس معاملہ میں استغاثہ کے گواہوں نے جو بیانات دیے ہیں وہ قابل بھروسہ نہیں ہیں۔

نمیش کمیشن کی رپورٹ کے اخذ کردہ نتائج کی روشنی میں بلاتامل یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ خالد مجاہد اور طارق قاسمی کی گرفتاری کے تعلق سے ایس ٹی ایف کا مفروضہ بعید از صداقت ہے۔ 5سال کی تفتیش وتحقیق کے بعد کمیشن نے جوسوالات کھڑے کئے یا جونتیجہ اخذ کیا یا پھر جو سفارشات کمیشن کی زبانی سامنے لائی گئیں، انہیں جھٹلائے بغیر بارہ بنکی کی عدالت کے فیصلہ کوانصاف پسندانہ فیصلہ نہیں کہاجاسکتابلکہ اس فیصلہ سے عجیب و غریب صورتحال بھی پیدا ہو گئی ہے جو مضحکہ خیز ی کو بھی جنم دینے کا محرک بن رہی ہے ۔ بنیادی سوال یہ کھڑا ہوجاتا ہے کہ نمیش کمیشن نے جس گرفتاری کو مشکو ک قرار دیاتھا، اسی گرفتاری کو بنیاد بناکر اور پولس کے مفروضہ یا تھیوری کو درست تسلیم کرتے ہوئے عدالت نے یہ فیصلہ آخر کن بنیادوں پر سنادیا۔

قانون کا تقاضہ کیا ہے ،یہ توقانون داں بتائیں گے لیکن عام ہندوستانی یہ ضرورجانناچاہتاہے کہ جس گرفتاری کی معتبریت بجائے خود سوالات کے گھیرے میں ہواور جس کی سچائی جاننے کی غرض سے خود سرکارنے ایک کمیشن باضابطہ طورپرقائم کیا اورحقائق کا پردہ چاک بھی کیاجاچکا ہو تو ایسے میں اس رپورٹ کے اخذ کردہ نکات کو نظرانداز کردینا اور پولس کے ذریعہ درج مقدمہ کو بنیاد بناکر اس کی روشنی میں عدالت کا کسی نتیجہ پر پہنچنا انصاف کے اعلیٰ معیار کو برقراررکھنے کا بھلا ذریعہ کیسے ہوسکتا ہے ؟وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ تحقیق وتفتیش کے بعد یہ حقیقت بھی واضح ہوچکی ہے کہ پولیس یا ایس ٹی ایف کی جانب سے گرفتاری کی جو تاریخ بیان کی گئی ہے اور جو جائے مقام بتایاگیاہے، وہ بھی درست نہیں ہے۔ آرڈی نمیش کی رپورٹ کے مندرجات میں وہ تمام حقائق مفصل بیان کئے گئے ہیں کہ کس طرح عینی شاہدین کی گواہیاں لی گئیں اوراہل خانہ کے دعوؤں کی حقیقت کو جاننے کیلئے کیانقطہ ہائے نظراورکیاطریقہ کار وضع کئے گئے اور پھر کن بنیادوں پر متذکرہ کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ خالد مجاہد اور طارق قاسمی کی گرفتاری کا پورا معاملہ مشتبہ ہے ۔

یہاں یہ بتادینابھی ضروری معلوم ہوتاہے کہ اس کمیشن نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے بے قصور افراد کی گرفتار ی کے معاملہ میں خطاواروں کومستحق سزا گرداننے کی سفارش کی تھی تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی تجدید نہ ہو۔ اہم اورقابل ذکر نکتہ یہ بھی ہے کہ اس معاملہ میں ماخوذ قراردیئے گئے خالد مجاہد کی موت بھی نہایت پراسرار شکل میں ہوئی جس سے اس اندیشہ ہائے دراز کو تقویت حاصل ہوجاتاہے کہ جن پولس اہلکاروں کو کمیشن نے مستحق سزاگردانا اور جن پر کارروائی کی سفارش کی انہوں نے ایک بے قصورکی جان لے لی ۔

یہ پورا معاملہ اس وجہ سے مضحکہ خیز قرارپارہاہے کیونکہ کمیشن کی رپورٹ کے تعلق سے خود ریاستی حکومت کارویہ بھی نہایت غیر ذمہ دارانہ رہاہے۔ ایک لمبی مدت تک اس رپورٹ کو عملاً دبائے رکھاگیا اور بعدہٗ اسمبلی میں اسے پیش کرنے کی محض رسم پوری کی گئی ۔یہی نہیں بلکہ خالد مجاہد اور طارق قاسمی کے خلاف درج مقدمہ واپس لینے کا بھی ایک ایسا علامتی شوشہ چھوڑاگیا جو اپنی سیاسی مضحکہ خیزی کو عیاں کرنے کیلئے بھی پوری طرح کافی ہے ۔ ریاستی حکومت نے یہ تاثردینے کی کوشش کی کہ وہ خالد مجاہد اور طارق قاسمی کوراحت دینے میں یقین رکھتی ہے ،لیکن عملاً اس نے راحت پہنچانے کے بجائے ان کی مصیبتیں بڑھانے کی ہی کوشش کی اوراس کوشش کانتیجہ بالآخر کیاسامنے آیا یہ ہم سبھوں کے سامنے ہے۔ خالد مجاہد کی زندگی کا قصہ پراسرار اندازمیں تمام ہوا جبکہ دوسری جانب نمیش کمیشن کی رپورٹ ڈھول چاٹتی رہی ہے اور پولس کے مفروضہ پر عدالت کے ذریعہ مہر لگادی گئی۔ جو لوگ آج یہ کہہ رہے ہیں کہ اس مقدمہ میں انصاف کا قتل ہواہے ،ان کایہ بھی دعویٰ ہے کہ پولس نے اس معاملہ میں خالد مجاہد اور طارق قاسمی کا اغواکیاتھا اور اس بابت ان کے اہل خانہ میں سے ایک کی جانب سے باضابطہ ایف آئی آر بھی درج کی گئی تھی ۔ کمیشن کی رپورٹ میں بھی گمشدگی سے متعلق مقدمہ قائم کئے جانے کی تفصیل درج کی گئی ہے ۔

کیا یہ انصاف کاتقاضہ نہیں تھا کہ نمیش کمیشن کی رپورٹ میں جو نتائج اخذ کئے گئے اور سفارشیں کی گئیں، ان کی بنیاد پر بارہ بنکی کی عدالت سے ریاستی حکومت از خود رجوع کرتی اورعادلانہ نظام انصاف کو تقویت پہنچانے کیلئے ان تمام حقائق سے عدالت کو واقف کرایاجاتا جو جسٹس آر ڈی نمیش نے اپنی رپورٹ میں نشانزدکیاہے۔ سوال ایک نہیں کئی ہے بلکہ اس معاملہ میں کئی سنگن نوعیت کے سوالات کھڑے ہورہے ہیں،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان سوالوں کا جواب کون دے؟ ریاستی حکومت کارویہ اورمزاج یہ ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے کہ اس نے قصداً انصاف کی سربلندی کیلئے ایسی کوشش نہیں کی جس سے یہ تاثر ابھرے کے بے قصوروں کو مستحق سزا دلانے کی سعی نہیں ہورہی ہے بلکہ اِس کے برخلاف یہ تاثر پوری شدت کے ساتھ ابھررہاہے کہ بے قصوروں اور مظلوموں کے ساتھ ریاستی سرکار کا رویہ نہایت ظالمانہ ہے۔یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ خود نمیش کمیشن کی رپورٹ کے ساتھ روا رکھا جانے والا سرکار کا رویہ خود ہی یہ بتارہاہے کہ اُس کی نیت کیا ہے اور وہ اس معاملہ میں انصاف کی سربلندی کیلئے حکومت کیا کر رہی ہے۔ کیا وجہ رہی کہ جن افسران نے ان دونوں کو پھنسایاتھااور جنہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی تھی،اُن پر کارروائی کی سفارش ہنوز توجہ کی منتظرہے اورانہیں نہ تو بے نقاب کیاگیااورنہ ہی سزا دی گئی۔ چونکہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت تھا، اس لئے کمیشن نے ایسے لوگوں کی نشاندہی سے معذرت چاہی تھی۔چنانچہ یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں کوئی مضبوط قدم اُٹھاتی لیکن ایسا کچھ بھی نہ کیا گیا۔

بارہ بنکی کی عدالت کا فیصلہ حرف آخر ہرگز نہیں بلکہ اس مقدمہ کو چیلنج کرنے اور معقول اندازمیں دفاع کرنے کا ملزم کو حق حاصل ہے،جس کا استعمال یقیناہوگا۔اچھی بات یہ بھی ہے کہ موقع کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے طارق کامقدمہ لڑنے کااعلان کردیا ہے۔لہٰذااس بات کی پوری امید ہے کہ انصاف سربلند ہوگا اور وہ سازشیں یقینابے نقاب ہوں گی،جن کے تحت ایک مخصوص طبقہ کو دہشت گردی کے مقدمات میں گھسیٹنے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔یہ پہلا موقع نہیں جب نچلی عدالت سے ایسے مقدمہ میں انصاف نہ مل پانے کا احساس عام ہورہاہے بلکہ ہماری معلومات کے مطابق درجن سے زیادہ دہشت گردی کے مقدمات میں نچلی عدالتوں کا فیصلہ اعلیٰ عدالتوں کے ذریعہ مستردہو چکاہے ۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ حصول انصاف کی لڑائی جذباتی اندازمیں نہ لڑی جائے اور عدلیہ پر بجلی بھی نہ گرائی جائے بلکہ صبرو استقامت کے ساتھ معرکہ فتح کرنے کی کوشش ہو۔
Shahid Ul Islam
About the Author: Shahid Ul Islam Read More Articles by Shahid Ul Islam: 8 Articles with 5949 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.