عورت چاہے ماں ہو ، بیٹی ہو ، یا بیوی یر ایک روپ میں
سراپا محبت اور قربانی ہے ۔ عورت چاہے جس روپ میں ہو وہ سراپاء قربانی ،
سراپاء محبت ہے ۔عورت جب بیوی بنتی ہے تو اپنے ماں باپ ، بہن بھائیوں اور
اس درو دیوار کو جس میں وہ ایک عرصے سے رہ رہی ہوتی ہے اسے چھوڑ کر نئے گھر
میں آتی ہے ۔عورت بیوی کے روپ میں بہت سی ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر اٹھائے
ان کو احسن طریقے سے نبھانے کی کوشش کرتی رہتی ہے ۔ وہ مرد کی عزت کی امین
ہے ۔ اس کی نسل کی تعلیم و تربیت کی ذمہ دار ہے ۔ اگر عورت دین دار ، با
تہذیب ہو تو ایک نسل سنور سکتی ہے ۔ اس کے برعکس اگر عورت ازخود دین سے بے
بہرہ ہو تو وہ نسلوں کی تربیت کس طرح سے کر سکتی ہے ؟یہاں ذکر ان بیویوں کا
کرنا چاہوں گی جو اپنے شوہروں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں ۔ ان کی مالی مشکلات
کو کم کرنے کے لیے نوکری کرتی ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ اپنا گھربار اور بچے
سنبھالتی ہیں ۔ اور اس تمام میں کہیں کوئی کوتاہی ہو جائے تو سارے کا سارا
الذام عورت کے سر ڈال دیا جاتا ہے ۔تعلیم یافتہ عورتیں ملازمت اختیار کرتی
ہیں جبکہ جن کے پاس تعلیم نہیں ہے وہ کپڑے سی کر ، لوگوں کے گھروں میں کام
کر کے اپنے شوہر کامالی طور پر برابر کا ساتھ دیتی ہیں ۔یہ تو وہ خواتین
ہیں جن کے شوہر مالی لحاظ سے کمزور ہیں لیکن کوئی نہ کوئی کام کا ج کرتے
ہیں ،ان کے علاوہ وہ خواتین بھی ہیں جو کہ بیوہ ہیں یا جن کے شوہر کام کاج
نہیں کرتے یا نشے کی لت کا شکار ہو کر اپنی زندگیاں برباد کر چکے ہیں ۔
ایسی خواتین گھر ، باہر ہر جگہ کی ذمہ داریاں اکیلے اٹھاتی ہیں ۔ یہ ذمہ
داریاں نبھاتے ہوئے اپنی زندگیاں گزار دیتی ہیں ، زیادہ تر ان کی ان کوششوں
کو سراہنے کی بجائے یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ تم نے کیا ہی کیا ہے ؟
حال ہی میں میری ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی جو کہ انتہائی کمپسری کی
حالت میں بھی بچوں کی خاطر اپنی بقا ء کی جنگ لڑ رہی ہے ۔اس کا شوہر نشے کا
عادی ہو کر اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو چکا ہے وہ تمام دن گھر سے باہر
گزارتا اوررات کو گھر میں صرف اور صرف اس عورت سے پیسے لینے کی غرض سے نشے
میں دھت آکر سو جاتا ہے ۔یہ عورت سارا دن نوکری کرتی ، گھر جا کر کپڑے سیتی
، گھر کا کام کاج کرتی ، بچوں کے سکولوں اور کالجوں کے کام نبٹاتی اور یہاں
تک کہ تن ِ تنہا ان کے مسائل حل کرتی ہے ۔اس کا شوہر پیسے کی خاطر مار پیٹ
کرتا ہے اور پیسے ہتھیا لیتا ہے ۔ غربت اور شوہر کے نشئی ہوتے ہوئے بھی وہ
اسے نہیں چھوڑنا چاہتی کیونکہ وہ اس کے سر کی چھت ہیں ۔ برائے نام ہی سہی
وہ کسی حد تک محفوظ ہے ۔ یہ ہمارے معاشرے کے المیوں میں سے ایک بہت بڑا
المیہ ہے کہ یہاں جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ عورت اکیلی یا بے آسرا ء ہے تو ہر
شخص اس سے ہمدردی جتا کر اس کی ذات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور
بجائے اس کے کہ اس کی مدد کی جائے اسے مزید پریشان کرکے اس کی مشکلات میں
اضافہ کر دیا جاتا ہے ۔
یہ تو ان خواتین کا ذکر ہے جو کہ ان پڑھ ہیں ہمارے معاشرے میں پڑھی لکھی
خواتین کے ساتھ بھی کچھ زیادہ اچھا رویہ نہیں رکھا جاتا ۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ مرد اپنی انا کی تسکین یا غصہ میں اپنی بیویوں کو
مارتے پیٹتے ہیں ۔ان پر شک کرتے ہیں ۔مار پیٹ کا رویہ تو اتنا عام ہے کہ
بعض اوقات مرد خود کو برتر ثابت کرنے کے لیے اور مردانگی کے اظہار کے طور
پر مار پیٹ کا سہارا لیتے ہیں اوراس حرکت کے لیے قرآن کی آیات کا سہارا
لیتے ہیں ۔ہمارے اس حبس زدہ معاشرے میں تو یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ عورتیں
اپنی پوری زندگی ایک ایسے شخص کے ساتھ گزار دیتی ہیں جو ان کو کبھی سکون کی
زندگی فراہم نہیں کر پاتا ۔عورت کا یہ حق ہے کہ اسے سکون فراہم کیا جائے ۔
اس کے نان نفقے کا خیال رکھا جائے ۔ اکثر و بیشتر دیکھنے میں آیا ہے کہ
عورتیں اپنے والدین ، بہن بھائیوں کے لیے قربانی دیتی ہیں اور معاشرے کی
بندشوں میں جکڑی اپنی عزت بچانے کی تگ و دو میں ساری زندگی گزار دیتی
ہیں۔اس کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ایسی عورتیں اپنی اولاد کی خاطر سب سہتی
رہتی ہیں ۔اسلام عورت کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے
۔پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت ِ مبارکہ اور آپ ﷺ کی عائلی
زندگی بیویوں کے ساتھ احسن سلوک کا منہ بولتا ثبوت اور تمام مسلمانوں کے
لیئے مشعل ِراہ ہے ۔عورت کو اسلام اس حد تک مقدس حیثیت دیتا ہے کہ قرآن میں
دو سورتیں (سورت النساء اور سورت نور) خالصتا ـعورت کے حقوق اور ان کے بارے
میں حدود و قیود کے بارے میں نازل فرمائی گئی ۔ان سورتوں کے علاوہ متعدد
حدیثوں میں عورتوں کا خصوصا خیال کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔نبی پاک ﷺ کا
ارشاد ہے ۔میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ کسی شخص کو اس حالت میں دیکھوں
کہ اس کی گردن کی رگیں پھولی ہوئی ہوں اور وہ اپنی بیوی کے سر پر کھڑا اسے
مار رہا ہو ۔(کنزل العمال : صفحہ 260 جلد 8 عبد بن حمید) ۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے نبی پاک ﷺ نے فرمایا ۔ شوہر پر بیوی کے پانچ
حقوق ہیں ، ایک یہ کہ گھر سے باہر کے کام کاج کر دے اور اسے گھر سے باہر نہ
جانے دے کہ وہ عورت ہے جسے بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنا گناہ ہے۔ دوسرا یہ
کہ نماز روزہ ۔ وغیرہ احکام کے متعلق بقدر ِ ضرورت اسے سکھائے ، تیسرا یہ
کہ اسے ہلال کھانا کھلائے کیونکہ حرام غذا سے پیدا ہونے والا گوشت دوزخ میں
پگھلایا جائے گا ، چو تھا یہ کہ اس پر کسی بھی طرح کا ظلم نہ ڈھائے کہ وہ
اس کے پاس اﷲ کی امانت ہے ، پانچواں یہ کہ وہ اگر اس پر زیادتی کر بھی
بیٹھے تو محض اس کی ہمدردی میں اسے برداشت کر لے ۔(تنبہہ الغافلین 443)
حضرت معاویہ بن حیدہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کہ ہم پر
بیویوں کے کیا حقوق ہیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا جب تم خود کھاؤ تو انھیں بھی کھلاؤ
، خود پہنو تو انھیں بھی پہناؤ ، ان کے چہرے پر مت مارو ، انھیں برا بھلا
نہ کہو اور اگر کوئی ناراضگی کی بات ہو جائے تو انھیں گھر سے مت نکالو( سنن
ابی داؤد۔(2144
رسول اﷲﷺ نے عورتوں کے بارے میں یہ وصیت فرمائی کہ عورت پسلی سے پیدا کی
گئی ۔پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ اوپر کا ہوتا ہے ۔اگر کوئی شخص اس
کو بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے گا تو انجام کار اسے توڑ کے رہے گا اور
اگر اسے یونہی چھوڑ دے تو ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی ۔پس عورتو ں کے بارے
میں میری نصیحت مانو ، عورتوں سے اچھا سلوک کرؤ ۔عورت مقدس ہے اس کے تقدس
کو پامال نہ کریں ۔ آپ کی بیوی بھی انسان ہے اسے انسان سمجھا جائے ۔اگر اسے
سبز رنگ پسند ہے اور آپ کو سبز رنگ پسند نہیں ہے تو اسے یہ حق حاصل ہونا
چاہیے کہ وہ اپنی پسند ناپسند کو اپنی زندگی میں نافذ کر سکے ۔ ایک اچھی
اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ بیوی کو انسان سمجھتے ہوئے اس
کا خیال رکھا جائے ۔کیونکہ حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے
جب کوئی میاں بیوی ایک دوسرے کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہیں تو اﷲ تعالی ٰ خوش
ہوتے ہیں جبکہ شیطان غصہ کرتا ہے اور جب میاں بیوی ایک دوسر ے سے لڑتے
جھگڑتے ہیں تو اﷲتعالی ٰ ناراضگی کا اظہار کرتا ہے اور شیطان خوش ہوتا ہے ۔
(بخاری شریف)
حاصل ِ بحث یہ ہے کہ مرد پر اﷲنے ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد کی ہے اسے اپنی
بیوی اور ماں دونوں ہی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ۔ بیوی سے
اچھا سلوک کرنے کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں ہے کہ شوہر صرف اور صرف بیوی کا
ہو کر رہ جائے بلکہ اسے بیوی اور ماں کے درمیان انصاف سے کام لینا چاہیے ۔
نہ تو ماں کی محبت میں بیوی سے بد سلوکی کرے اسے مارے پیٹے یا گھر سے نکالے
اور نہ ہی بیوی کی محبت میں ماں باپ کے ساتھ بد تہذیبی کا رویہ اختیا ر کرے
۔
|