سبین محمود کراچی میں ایک این جی او چلارہی تھیں ان کو
شاید چند ایک لوگ ہی جانتے تھے جن کا ان سے واسطہ پڑا ہو۔ وہ خاموشی سے
اپنا کام کررہی تھی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ وہ غلط ہاتھوں میں پڑ گئی
یا شہرت کے شوق نے اسے اس راستے پر چلا دیا جس نے آخرکار اس کی جان لے لی
وہ جان سے گئی اور شہرت دوسروں کو مل گئی۔ اس کی موت نے ماما قدیر اور اس
کے چند ایک ساتھیوں کو جو فائدہ پہنچا یا اس کی خاطر اس ایک جان کو مار
دینا ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں تھی اورپھر بڑی ہوشیاری سے ایک بار پھر
پاکستان دشمنوں نے ان بلوچ علحدگی پسندوں کو بچالیا اور اس قتل کا الزام
آئی ایس آئی پر لگادیا۔ ایک بار پھر ہمارے بنیادی انسانی حقوق کے کچھ نام
نہاد علمبردار چیخ اٹھے وہی جو کراچی میں روزانہ کے قتل عام پر نہیں بولتے
جو بلوچستان میں غریب مزدوروں کے قتل کو نہایت سرسری انداز میں لیتے ہیں
اور چپ رہتے ہیں کیونکہ ان کے لیے بولنے سے انہیں کسی بین الاقوامی شہرت کی
توقع نہیں ہوتی نہ ہی کسی بڑے ہوٹل میں تقریب منعقد ہوتی ہے۔ سبین محمود
جیسے لوگ بھی قابل رحم ہیں جو نہ صرف ان کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں بلکہ ان
کے مقاصد کی نظر بھی ہو جاتے ہیں۔ کہانی صرف سبین محمود تک محدود نہیں بلکہ
اگر ا س کا سرا تلاش کیا جائے تو کڑیاں کہیں اور جا ملتی ہیں جس میں بین
الاقوامی سازشوں کے تانے بانے بھی الجھے ہوئے ملتے ہیں۔ پاکستان اور چین دو
ہمسایہ اور قابل بھروسہ دوست ممالک ہیں اور ان کے آپس میں معاہدے اور تعاون
کچھ غیر قدرتی نہیں لیکن دونوں ممالک کی اہمیت کے پیش نظر کچھ عالمی اور
علاقائی طاقتوں کے ارادوں کے آگے کچھ بند ضرور باندھتے ہیں۔ چین ایک بڑی
اقتصادی اور معاشی قوت ہے اور اگرچہ پاکستان خود اپنے بہت سارے مسائل میں
الجھنے کی وجہ سے معاشی طور پر تو کسی بڑے مقام پر نہیں لیکن اس کی علاقائی
اور تزویراتی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں اس کے ساتھ ہی اللہ نے اس کو کچھ
ایسے ذرائع سے نوازا ہے کہ دنیا جانتی ہے کہ جس دن بھی ان سے مکمل طور پر
فائدہ اٹھانا شروع کیا گیا یہ معاشی برتری میں کئی بڑے ملکوں سے آگے نکل
سکتا ہے اور کم ازکم ان بڑی طاقتوں کا انحصار تو اس پر ہو سکتا ہے بلکہ یہ
ان انحصار کی مجبوری بن سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے ان حصوں میں شورش
برپا کی جاتی ہیں جن کے بارے میں انہیں ذرا بھی شک ہو کہ وہاں سے ان کی
برتری پرزد پڑ سکتی ہے۔ عرصے تک سندھ میں مختلف قسم کی آٹھ دس یا سو دو سو
لوگوں کی تنظیمیں بنائی جاتی رہیں جو خود کو ایک الگ قوم کہلاتی تھیں لیکن
محب وطن سندھیوں کے آگے جب وہ بے بس ہوئے اور کراچی کی بندرگاہ کی اہمیت کو
کم نہ کیا جا سکا تو ان کا رخ بلوچستان کی طرف مڑگیا اور وہاں موجود چھوٹی
موٹی مخالفتوں کو ہوا دے دے کر بڑھایا جانے لگا ۔گوادر کی بندرگاہ کو جب
حکومت پاکستان نے اہمیت دینا شروع کی اور اس پر ترقیاتی کام شروع کیے گئے
تو بہت ساری قوتیں بلوچستان میں گڑبڑ پھیلانے پر کمربستہ ہوگئیں اس میں
دوست دشمن کی بھی تخصیص نہیں رہی بلکہ ہر ایک نے اپنا مفاد دیکھا ۔ایران کو
اپنی بندرگاہوں کی اہمیت کم ہونے کی فکر پڑگئی تو صحرا سے نخلستان بننے
والے دبئی کو اپنی ترقی معکوس نظر آنے لگی۔پاکستان کے ایک سرے پر اگر گوادر
ہے تو دوسرے پر خشکی میں گھری ہوئی وسط ایشیائی ریاستیں اور معاشی قوت چین
ہے۔ اول الذکر کو اپنی بحری تجارت کے لیے گوادر نزدیک ترین راستہ ہے اور
آخرالذکر کو اپنی ہر روز بڑھتی ہوئی تجارت کے بوجھ کو بانٹنے کے لیے گوادر
سب سے مناسب سہولت ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ایک اپنے مفاد کی خاطر بلوچستان
کو استعمال کر رہا ہے اور یہاں پاکستانی ایجنسیوں کو مسلسل بدنام کرکے
دوطرح کے مقاصد حاصل کیے جارہے ہیں ایک عوام میں ان کے خلاف بدظنی پیدا کی
جارہی ہے اور دوسرے اسے معاشی لحاظ سے پیچھے رکھا جارہا ہے ۔ یہاں مختلف
اوقات میں مختلف لوگوں کو استعمال کیا گیا اور کیا جارہا ہے جن میں ایک نام
ماما قدیر کا بھی ہے اور حیرت ہے کہ ہمارے میڈیا اینکرز اور انسانی حقوق کے
دعویدار ملک کے لیے ان کے عزائم کو جانتے ہوئے بھی انہیں نہ صرف وقت بلکہ
پروجیکشن دیتے ہیں۔ بلوچستان میں گمشدہ افراد کا مسئلہ جس طرح کھڑا کیا گیا
اور اس کے لیے آئی ایس آئی اور دیگر ایجنسیوں کو ذمہ دار ٹھرا کر ہمارے کچھ
عاقبت نااندیش لوگوں نے دشمن عناصر کو جس طرح تعاون فراہم کیا وہ بجائے خود
ایک المیہ ہے۔ بات صرف یہاں تک محدود نہیں رہی بلکہ ان لوگوں کو ہیرو بنا
کر پیش کیا گیا انہی میں سے ماما قدیر بھی ہے جس سے بلوچستان سے اسلام آباد
تک مارچ کروایا گیا اورہرہر موقع پر ہمارے کچھ چینلز اسے کوریج دیتے رہے۔
بہتّرسالہ قدیرریگی اس دعوے کے ساتھ 2013 میں کوئٹہ سے چلا کہ اس کے ساتھ
ہزاروں لوگ ہونگے لیکن اس کے اس سفر میں صرف چند لوگوں نے اس کا ساتھ دیا۔
اس کے سفر کی ابتداء سے لے کر منزل تک اس کے ساتھ مکمل تعاون کیا گیا اور
اسے ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ۔ 2015 میں چینی صدر کے دورہء پاکستان سے
پہلے اسے دوبارہ بہت فعال کردیا گیا اور مارچ میں اسے براستہ امریکہ یورپ
اپنے دوسرے ہم خیالوں یعنی براہمداغ، حربیار وغیرہ تک پہنچانے کی کوشش کی
گئی تاہم اسے آخری وقت میں ائیرپورٹ سے واپس کردیا گیا لیکن خبر میڈیا میں
زیادہ توجہ حاصل نہ کر سکی پھر اسے لمز میں مدعو کیا گیا تاکہ اپنے مذموم
عزائم پورے کیے جا سکیں لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے اُسے روک دیا
گیا خبر بنی لیکن اہمیت حاصل نہ کر سکی اگرچہ بین الاقوامی برادری کی
ہمدردی بھی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور چینی حکومت کو بھی حالات خراب
ہونے کا عندیہ دیا گیا۔ اس سے پہلے بلوچستان میں مزدوروں کے قتل سے بھی
کوشش کی گئی تھی کہ بہت سارے معاہدے نہ ہو سکیں لیکن جب زیادہ کامیابی نہ
ہو سکی تو سبین محمود کو قتل کروا دیا گیا اور ایسا عین اس وقت کیا گیا جب
وہ اپنی تنظیم کے تحت ماما قدیر اور اس کے گروپ کے لوگوں سے ملاقات کرکے
اپنی والدہ کے ہمراہ گھر جارہی تھی خود اس تنظیم کے ایک رکن نے کہا کہ
ملاقات کی تاریخ 21سے 24 اپریل کی گئی جبکہ جگہ بھی تبدیل کی گئی کیونکہ
انہیں دھمکیاں موصول ہوئیں تھیں اگر ایسا کیا گیا تھا تو ظاہر ہے اس تبدیلی
کا علم صرف شرکاء کو ہی رہا ہوگا پھر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے سبین کو قتل
کیا اور الزام ایک بار پھر بڑی آسانی سے پاکستانی ایجنسیوں پر لگا دیا ۔یہ
الزام بھارت کی طرف سے بھی آیا آخر اسے اس چھوٹی سی تنظیم اور اس کی بانی
ڈائریکٹر سے کیا دلچسپی تھی اور سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اس قتل سے زیادہ
شہرت کس کو ملی ۔کیا آئی ایس آئی کے لیے ماما قدیر کو مارنا مشکل تھا کہ
ایک عورت کو ماردیاگیا اگر ایسا کیا جاتا تو عمر رسیدہ ماما قدیر کو لانگ
مارچ کے دوران ختم کیا جاتا اور اسے طبعی موت قرار دے دیا جاتا۔ ماما قدیر
اپنے قاتل بیٹے جلیل ریگی کا مقدمہ لے کر نکلا تھا تو وہیں تک محدود کیوں
نہیں رہا کیوں اسے ایک بین الاقوامی شخصیت اور ایکٹیوسٹ بنا دیا گیا اور ان
سارے واقعات کے لیے وہی وقت کیوں منتخب کیا گیا جو چینی صدر کے دورہء
پاکستان کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ سوچنے کے لیے بہت کچھ ہے لیکن ہمارے
طاہرہ عبداللہ، عاصمہ جہانگیر، فر زانہ باری ،نجم سیٹھی، حامد میر یا اسی
قبیلے کے اعلیٰ دماغ اگر سوچنا چاہیں۔ لیکن اس کے لیے پہلے انہیں اپنی ذاتی
شہرت کی قربانی بھی دینا پڑے گی اور اپنے ہی ملک کے اداروں کے خلاف بغض اور
تعصب بھی دل سے نکالنا ہوگا اس طرح شاید وہ سبین محمود اور اسی جیسے دوسرے
لوگوں کے قاتلوں تک پہنچا جا سکے ۔ |