اور جب زمین ہلادی گئی……!

’’جب زمین ہلادی جائے گی……اور زمین اپنے اندر کی تمام چیزوں کو باہر نکال پھینکے گی…… تو انسان کہے گا یہ کیا ہوا؟‘‘ (سورۃ الزلزال)۔

نیپال میں گزشتہ 25اپریل کو 7.9کی شدت سے آئے زلزلے نے پورے نیپال میں کہرام بپا کردیا۔ فلک بوس عمارتیں پل بھر میں تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی…… ملبوں میں دبی لاشیں ابھی تک نکالی جارہی ہیں…… ہزاروں سال کے خداؤں کو حقیقی خدا نے دھنسا دیا…… وہ بڑے بڑے منادر زمین بوس ہوگئے …… جو سورج کی کرنوں کی شعاؤں میں نیپال کو منور کرتے تھے مٹی کے ملبوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ اونچے اونچے کلش جو اپنی بلندی پہ نازاں تھے وہ پستی میں جا دھنسے ہیں…… بربادی کا اندازہ صحیح طور پر ابھی تک نہیں لگایا جاسکا ہے، انسانی جانوں کے اتلاف کی صرف مبہم عدد بتائی جارہی ہے ابھی تک صرف چار ہزار کے قریب ہی بتائی گئی ہیں جب کہ ہزاروں مکانات آنا فانا زمین بوس گئے کسی کو کچھ سوچنے اور بھاگنے کا موقع ہی نہیں ملا لوگ جہاں تھے وہیں مدفون ہوگئے …… انسان کہنے پر مجبور ہوگیا کہ ما لہا یہ کیا ہوگیا…… پچاس ہزار کے قریب حاملہ دوشیزہ اپنی زچگی کو لے کر خطروں میں ہے…… 66لاکھ سے زائد افرد بے گھر ہوچکے ہیں…… زخمی سڑکوں پر اسپتال بنائے ہوئے ہیں…… صحیح طور طبی امداد نہ ملنے کے باعث لاکھوں جانوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے…… پوری دنیا اس سانحہ پر افسوس ظاہر کررہی ہے۔ تن من دھن سے نیپال کی باز آبادکاری میں مشغول ہے، ان سب سے پرے زلزلے کے اسباب ومحرکات کیا تھے اس پر کسی نے نہیں جاننا چاہا…… بس صرف سائنسی اعتبار سے اسے پرکھنے کی کوشش کی جارہی ہے……ابھی نیپال زلزلہ کی گونج سنائی ہی دے رہی تھی کہ افغانستان میں ایک تودے کے نیچے 55آدمیوں کے مرنے کی خبر آنے لگی یہی نہیں سعودی عرب میں ایک عمارت زمین بوس ہوگئی اور اس میں بھی تقریباً 20سے زائد افراد کے مرنے کی اطلاع موصول ہوئی۔ بہار میں نیپال کی تباہی سے پہلے ہی وہاں گردابی طوفانوں نے دھوم مچائی تھی کئی ہزار مکانوں کے پرخچے اڑگئے تھے پھر نیپال کے ساتھ وہاں بھی زلزلے کے جھٹکے آئے جانی ومالی نقصانات تو زیادہ نہیں ہوئے لیکن خوف ودہشت ابھی بھی برقرار تھی کہ پھر گزشتہ روز سخت آندھیوں نے ان سب کے ڈر وخوف میں مزید اضافہ کردیا جس سے ابھی تک یہ لوگ نہیں نکل پائے ہیں۔

یہ سب آخر دنیا میں ہو کیوں رہا ہے …… اس طرح زمینیں کھسکنے کے واقعات کے اسباب ومحرکات کیا ہیں…… روایتوں میں آتا ہے کہ ظہرالفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی ا لناس ۔ سمندروخشکی میں فساد لوگوں کے شامت اعمال کا ہی نتیجہ ہے ۔ جامع ترمذی میں روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فر ماتے ہیں: حضور صلی اﷲ علیہ والسلام نے ارشاد فر مایا کہ جب مال غنیمت کو گھر کی دولت سمجھی جانے لگے…… امانت غنیمت سمجھ کر دبالی جائے……زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے……دینی تعلیم دنیا کے لئے حاصل کی جائے …… انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرنے لگے اور ماں کو ستائے…… دوست کو قریب کرے اور ماں باپ کو دور کرے…… انسان کی عزت اس لئے کی جائے تاکہ وہ شرارت نہ پھیلائے…… گانے بجانے والی عورتیں اور گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہو جائے…… شرابیں پی جانے لگیں…… اور بعد میں آنے والے لوگ امت کے پچھلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں۔ تواس زمانہ میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے در پے اس طرح ظاہر ہوں گی جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جا ئے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں۔(مفہوم حدیث)

آج جب ہم حدیث کی رو سے دیکھتے ہیں تویہ تمام نشانیاں پوری ہوتی نظر آرہی ہیں اور ہمارے ا ندر موجود ہے ، آج مالداروں کا بہت بڑا طبقہ زکوٰۃ کو تاوان سمجھ رہا ہے، امانت نام کی چیز تو سننے میں بھی نہیں آتی ، مدارس اسلامیہ سے وہ نور اٹھ چکا ہے جو کبھی قاسم وگنگوہی کے دور میں تھا وہ ولولہ جو محمودالحسن اور حسین احمد مدنی کے دلوں میں تھااب ناپید ہوچکا ہے۔ انسان اپنی بیوی کی اس حد تک عزت کرنے لگا ہے کہ اس نے اپنی ماں کو جس نے اسے اتنی تکلیف اور شدت سہہ کر پیدا کیا اسے اولڈ ہاؤس میں ڈال کر آگیا، دوست اتنے عزیز ہوچکے ہیں کہ باپ کی عظمت صرف ایک کھوسڈ بوڑھے کے ہوکر رہ گئی ہے جس کا کام صرف نکتہ چینی تک ہی محدود ہے۔ قاتلوں کو وزیر اعظم بنایا جانے لگا ان کی عزت کی جانے لگی اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے علماء کا ایک گروہ بھی تیار ہے جنہیں وہ قاتل مسیحا نظرآتا ہے ان کے شر سے بچنے کے لیے ہر وہ کام کیا جارہا ہے جسے ضمیر فروشی اور ابن الوقتی ہی کہا جاسکتا ہے ، قوم کو بیچنے سے لے کر کے اس کا دائمی سودے تک۔ گانے بجانے اس طرح عام ہوگئے ہیں کہ لوگ قرآن کی تلاوت بھول گئے، صبح میوزک سے اٹھتے ہیں اور شام بھی میوزک ہاؤس میں ہی ہوتی ہے۔ صحابہ اور اکابرین امت کو برا بھلا کہنے والوں کا ایک طبقہ بھی موجود ہے جو حضرت عائشہ کو نعوذ باﷲ فاحشہ اور حضرت ابوبکر وعمر عثمان کو غاصب ٹھہراتا ہے امیر معاویہ کو ظالم اور عیاش بتاتا ہے۔ مولاناقاسم نانوتی اور اشرف علی تھانوی کو کافر زندیق کے زمرے میں ڈالتا ہے۔امام احمد رضا خان کو بدعتوں کا مرجع کہتا ہے…… ظاہر سی بات ہے جب اس طرح کا ذہن لوگوں کا ہوجائے گا تو پھر یہی ہونا ہے اورپے درپے ہونا ہے جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں پہلے سونامی آئی ، گردابی آندھی آئی ، پتھر برسے، زلزلے کے جھٹکے ایک دن میں کئی کئی بار محسوس کیے گئے، تودے گرے۔ اور پتہ نہیں کیا کیا ہونے کو باقی ہے۔ روایت میں آتا ہے دنیا میں جب زنا عام ہوجائے گا تو زمینیں دھنسنے کے واقعات رونما ہوں گے۔گناہوں کا بوجھ بڑھنے لگے گا تو اس طرح کے واقعات رونما ہوں گے جب زلزلے آئے تو ایمان والوں کو خدا کی طرف متوجہ ہونا چاہیے تھا لیکن اس سے پرے لوگ وہاٹس اپ اور فیس بک میں لگ کر تبصرے کررہے تھے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس عذاب سے پناہ مانگتے لیکن نہیں اس پر سائنسی اعتبار سے غورفکر کرکے اس کے اسباب ومحرکات کا پتہ لگا رہے تھے حالانکہ یہ سب اپنے اعمال بد کا نتیجہ تھا۔ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں زلزلہ کے جھٹکے محسوس کیے گئے تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’اے لوگو! یہ زلزلہ ضرور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے آیا ہے۔‘‘ فقیہ امت جلیل القدر صحابی سیدناعبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں ایک مرتبہ کوفہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے یہ اعلان کیا:ترجمہ: اے لوگو! یقینا تمہارا رب تم سے ناراض ہوچکا ہے اور اپنی رضا مندی چاہتا ہے تو تم اسے راضی کرو اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہوئے توبہ کرو، وگرنہ اسے یہ پرواہ نہ ہوگی کہ تم کس وادی میں ہلاک ہوتے ہو۔ روایت میں آتا ہے کہ قرب قیامت خسف اور مسخ کے واقعات رونما ہوں گے…… آج ہم جدھر دیکھتے ہیں کہیں طوفانوں کی زد میں ہیں…… کہیں زلزلوں سے نبرد آزما ہیں……کہیں طیارے لاپتہ ہوجارہے ہیں یاد رکھیں یہ سبھی چیزیں خسف میں شمار کیجائیں گی ……ہم سوچتے ہیں کہ آخر ایسے واقعات روزانہ کہیں نہ کہیں کیوں ہورہے ہیں…… اس کا جواب یہ ہے کہ آج ہم اﷲ سے دور ہوگئے ……نمازیں تو پڑھتے ہیں لیکن دل اﷲ کی یاد سے غافل…… نماز کے بارے میں آتا ہے کہ نماز برائیوں اور فحاشی سے روکتی ہے لیکن ہم نماز بھی پڑھتے ہیں اور برائی وفحش کام کو بھی انجام دیتے ہیں۔ پھر ہماری نماز کا کیاحاصل…… ؟ ہم زکوٰۃ دیتے ہیں نام ونمود کے لئے جس سے نہ غریبوں کا فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی ہمارا کیوں کہ جب ہم دکھاوے کے لئے دیں گے تو پہلے ہی مرحلے میں ہماری زکوٰتیں رائیگاں کردی جائیں گی اور غریب کا فائدہ اس وجہ سے نہیں ہوتا ہے کہ ہم بلاتحقیق دے دیتے ہیں آیا وہ حقدار بھی ہیں کہ نہیں …… اور اصل حقدار تک وہ پہنچ ہی نہیں پاتے…… ہم حج کرتے ہیں……حج بھی ہمارا تقویٰ وپرہیزگاری سے دور ……نام ونمود یہاں بھی موجود…… حج کے بارے میں آتا ہے کہ انسان جب حج کرکے آتا ہے تو وہ اس طرح اپنے گناہوں سے دھل دیاجاتا ہے جس طرح اس کی ماں نے اسے جنا تھا یعنی پیدائش کے وقت وہ جس طرح گناہوں سے پاک تھا ٹھیک اسی طرح حج کرنے کے بعد ہوگیا ہے…… آج جب ہم دیکھتے ہیں تو کتنے ایسے ہیں جن کے کاروبار مشکوک ہیں اور وہ اپنے انہی مشکوک کمائی سے حج کرتے ہیں تو ان کا حج بھی ویسا ہی ہوگا اور وہ بعد حج وہی کام کریں گے جن میں پہلے ملوث تھے۔ مسخ کے واقعات بایں طور رونما ہورہے ہیں کہ لوگ خدا کی تخلیق میں نقص نکالتے ہوئے اپنے چہرے کو اپنے گمان کے مطابق بیوٹی پارلر وغیرہ میں جاکر درست کرتے ہیں۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم کہ ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھالا ہے۔ لیکن وہ بہترین سانچہ ا ٓج کے انسان کو پسند نہیں وہ اس میں تبدیلی چاہتا ہے …… اﷲ تبارک وتعالیٰ کا بنایا ہوا چہرہ اسے پسند نہیں وہ کتے ، بلی ، اور بند ر جیسے چہرے چاہنے لگا ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے خبروں میں آیا تھا کہ جرمنی کے ایک شخص نے اپنی شکل تبدیل کرکے کتے کی شکل اپنا لی اور اس کا یہ آپریشن کامیاب بھی رہا…… اور وہ بہت خوش تھا کہ میں کتا ہوگیا۔ آج انسان کا معیار اتنا گر گیا ہے کہ وہ کتا بننے پر فخر محسوس کرنے لگا ہے۔ڈاڑھی کا اس طرح سے مذاق اڑایا جارہا کہ وہ ایک کتے کے منہ شکل بنتی نظر آرہی ہے۔ نکاح اتنا مشکل ہوگیا کہ ہر طرف زنا کے بازار سجتے نظر آرہے ہیں۔ آج انسان انسانیت سے عاری ہوکر بداخلاقی، بدنیتی اور برائی کے عمیق غاروں میں گر گیا ہے ……اس سے نکلنے کی کوشش بھی نہیں کرتے اگر کوشش کریں تو شاید حقیقی معنوں میں اشرف المخلوقات کے شرف پر پورے اتریں۔ اور یہ جو دنیا عبرت گاہ ہے اس سے سبق حاصل کرکے دائمی زندگی کی تیاری کرے تاکہ وہاں کوئی پریشانی لاحق نہ ہو…… اس طرح کے زلزلے اور جھٹکے کافروں کے لیے عذاب اور مسلمانوں کے لیے تو باعث عبرت ہیں تاکہ فاعتبروا یا اولی الابصار پر عمل پیرا ہوسکیں۔
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 77734 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.