یوم مزدوراں! چہرہ بتا رہا تھا بھوک سے مر گیا

 یوم مزدوراں پر خصوصی تحریر
ہر سال دنیا بھر کے لوگ یکم مئی کو شکاگو کو مزدوروں کی یاد میں یوم مئی مناتے ہیں اور مفلوک الحال مزدور کی زندگی کو خوشحال بنانے کیلئے لئے ان کے حقوق کی بات کی جاتی ہے ہر سال جلسے جلوس،سیمینارز ،ریلیوں کا اہتمام ہوتا ہے جس میں مزدور کی مزدوری ایک تولہ سوناکے برابر ،بیس ہزار ماہوار ،پچاس ہزار مقرر کرنے کے مطالبات کئے جاتے ہیں حکومتیں بھی مزدوروں کے حقوق کے دن پر ایک خاص حد مقرر کر دیتی ہے ،وقت کا تعین بھی کیا جاتا ہے مگر عمل درآمد آج تک نہیں ہوا یہی وجہ ہے کہ آج تک مزدور کی زندگی میں خوشحالی نہیں آئی ۔بندۂ مزدور آج بھی ظالم سرمایہ دار،جاگیردار کے پنجۂ جبر میں گرفتار نظر آتا ہے ،بندۂ مزدور کے شب وروز ویسے ہی گزر رہے جیسے پہلے تھے،یوم مزدوراں بھی غریب مزدور کے دن نہ بدل سکا ،بلکہ اس دن بھی مزدور مزدوری کرتے نظر آتے ہیں ہزاروں مزدوروں کو تو علم ہی نہیں ہوتا کہ آج ہمارے حقوق کی بابت دن منایا جارہا ہے ۔اس دن کوایک خاص طبقہ ہی مناتا ہے ایک گلی محلے کے مزدور کو اس دن سے کو ئی سروکار نہیں کیونکہ اسے صرف اتنا پتا ہے کہ اگر آج میں نے کام نہ کیا تو میرے گھر کا چولہا ٹھنڈا ہی رہے گا اہل خانہہ بھوکے رہیں گے ایک دن کی چھٹی مہینہ بھر خلا پر نہ کر سکے گی ۔غریب کے گھر میں بھوک افلاس ،غربت کے ڈیرے آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے۔یہ بھی دیکھا گیا کہ مزدور کا بچہ تعلیم سے محروم ہے اس کے وسائل ہی اتنے نہیں کہ تعلیم دلوا سکے ،اگر مزدور کا بچہ تعلیم حاصل کر بھی رہا ہے تو ٹاٹ سسٹم کے سکولوں میں جہاں اساتذہ ہفتے میں دو یا تین بار آتے ہیں ان کا معیار تعلیم یہ ہے کہ وہاں کے بچوں کو تین چار سال تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی حروف تہجی کی پہچان تک نہیں ہوپاتی۔ ایک مزدور کے بچے اور سرمایہ دار،جاگیر دار کے بچوں کے معیار تعلیم میں کتنا فرق ہے ؟ اس کا اندازہ لگانے کیلئے مہنگے ترین ،غیر ملکی تعلیمی اداروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہوگی تب پتا چلے گا کہ کیا یہ ظالمانہ نظام حکومت مزدور اور سرمایہ دار کو مساوی حقوق دینے کا حوصلہ رکھتا ہے؟

اسلام کا عادلانا نظام خلافت رسول اﷲ ﷺ سے شروع ہوا ،خلفائے راشدینؓسے لیکر 1924 تک اس دنیا میں اپنی برکتیں لوٹاتا رہا اس سنہری ترین دور میں کبھی بھی مزدوروں نے اپنے حقوق کی بات نہیں کی کیوں اس لئے کہ مزدور کو اپنے سارے حقوق اسلام نے ان کی دہلیز پر دئیے امیر اور غریب کے زاویوں کو توڑ کر اسلام نے محمود وایاز کو ایک صف میں کھڑا کردیاتاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ہر اسلامی حکمران /خلیفہ نے مزدور کے حقوق اسلام کی روشنی میں انھیں دئیے کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی ۔میرا دعوئے عام ہے کہ مزدور کواسلام نے جتنے حقوق دئیے ہیں دنیا کے کسی مذہب نے نہیں دئیے ۔اے دنیا کے انسانو!غور سے دیکھو میرے آقا مدنی کریم ﷺ کا نورانی دربار اپنی پور آب وتاب کے ساتھ سجا ہوا ہے ایک شخص وہاں حاضر ہوتا ہے حضور ﷺ سے مصحافہ کرتا ہے تو حضور نبی کریم غفور ورحیم ﷺکو اس کے ہاتھ سخت محسوس ہوتے ہیں آپ ﷺ اس مزدور سے استفسار فرماتے ہیں کہ یہ ہاتھ اتنے سخت کیوں ہیں تو وہ شخص (صحابی رسولؓ) عرض کرتا ہے کہ یارسول اﷲ ﷺ میں مزدور ہوں پتھر کاٹتا ہوں جس کی وجہ سے میرے ہاتھ سخت ہیں کریم آقا ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں حضور ﷺ اس مزدور کے ہاتھ چوم لیتے ہیں۔ اے دنیا کے انسانو! لاؤ اگر تمہارے پاس کوئی ایسی بے مثال ،سنہری تاریخ ہے تو دنیا کے سامنے پیش کرو ۔۔۔ دنیا ایسی مثال کبھی پیش نہیں کر سکے گی کہ ایک مزدور کو ان کے پیشوا لیڈر نے اپنے پاس بیٹھایا ہو اور اس کے ہاتھ چومے ہوں ۔۔۔ ۔۔۔ ایک اور سنہری مثال کرتے ہیں کہ رات وقت نبی کریم ﷺ مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے ہیں تو ایک مکان سے ایک شخص کے رونے کی آواز آتی ہے تو حضور ﷺ رک جاتے ہیں دروازے پر دستک دیتے ہیں اندر سے ایک انسان آتا ہے جو زاروقطار رو رہا ہوتا ہے حضور ﷺ بڑی شفقت کے ساتھ اس سے پوچھتے ہیں کہ تو کیوں رو رہا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں غلام ہوں میں دن بھر کام کرتا ہوں رات کو میرا مالک مجھے یہ گندم دے دیتا ہے کہ اسے پیسو، میں بھی تو ایک انسان ہوں میرے بھی تو حقوق ہیں مجھے بھی تو آرام کرنا ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ تم سو جاؤ میں یہ گندم پیس دیتا ہوں وہ سو جاتا ہے حضور ﷺ گندم پیس کر اپنے گھر چلے جاتے ہیں ،دوسرے دن رات کو حضور ﷺ وہاں سے گزرے تو اس کے ساتھ پھر وہی معاملہ تھا تو حضور ﷺ نے پھر اس کا کام کردیا ،تیسرے دن پھر حضور ﷺ اس گلی سے گزرے تو اس غلام کو پھر آپ ﷺ نے فرمایا تم سو جأ میں تمھارا کام کردیتا ہوں وہ مزدور،غلام کہتا ہے کہ تمھیں مجھ سے کیا سروکار ہے تم ہر روز آجاتے ہو ،تم کون ہو؟ اس پر حضور ﷺ فرماتے ہیں میں (حضرت) محمد (ﷺ) ہوں اﷲ کا آخری رسول ہوں،مجھے کوئی پریشانی میں مبتلا نظر آتا ہے تو میں برداشت نہیں کرپاتا میری خواہش ہوتی ہے کہ میں اس کی پریشانی کا حل نکال دوں حضور ﷺ کی اس گفتگو کے بعد وہ اسلام کو قبول کرلیتا ہے جو بعد میں موذن رسول ،سیدنا بلال ؓ کے نام سے مشہور ہوتے ہیں جن کے ساتھ جنت کی حوریں رہنا فخر محسوس کرتی ہیں۔۔۔ ۔۔۔اسلام کی تعلیم ہے الکاسب حبیب اﷲ ۔۔ یعنی محنت سے روزی کمانے والا اﷲ کا دوست ہے ۔۔۔ حضور ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو ۔۔۔ اسلام کے نظام عدل کے حکمران خلفائے اسلام انہی قرآنی،فرمان رسول ﷺ پر کاربند رہے تو دنیا میں غلام کو اس قدر عظمت نصیب ہوئی کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ خلیفتہ الرسول ہو نے کے باوجود خود مزدوری کرکے مزدور عظمت کا جھنڈا دنیا میں بلند کرجاتے ہیں۔ سیدنا عمر فاروق ؓجیسا جلیل القدر انسان بھی حضرت بلا ل حبشی ؓ کو سیدنا بلال حبشی کہہ کر مساوات انسانیت کا درس دیتا نظر آتا ہے۔ خلیفۂ ثالث سیدناعثمانؓ ،خلیفہ ٔ چہارم سیدنا علی المرتضی ٰ ؓ غریبوں ،مزدوروں کے ساتھ کھانا کھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔

اے دنیا کے مزدور!اگر تمھیں حقوق چاہیں تو اسلام کے دروازے پر آکر طلب کرو تمھیں بلا تفریق حسب ونسب،رنگ ونسل حقوق عطاء کئے جائیں گے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اسلام کے اسی عادلانا نظام کیلئے میدان عمل میں اتریں جو مساوات کااس قدر درس دیتا ہے کہ آقا وغلام کے تفاوت کومٹا دیتا ہے ۔اگر ایسا نہ ہوا تو انسانیت یوں ہی ہر سال یوم مزدوراں مناکر خام خیالی کا شکار رہے گی کہ ہمیں یکم مئی کو دن منا کر حقوق مل جائیں گے مگر یہ ظالم سرمایہ دار ،جاگیردار،خون خوار انسان نما بھیڑئیے انکے حقوق سلب کرتے رہیں گے مزدور کے خون پسینے کی کمائی سے ان امیروں کے کتوں کو مربے،دیسی مرغے کا گوشت پیش کیا جاتا رہے گا ،لیکن بندٔ مزدور کے دن نہیں بدلیں گے۔
یوم مزدوراں کے حوالے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
لوگ کہہ رہے تھے کچھ کھا کے مر گیا
چہرہ بتا رہا تھا کہ بھوک سے مرگیا
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 269678 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.