صبح صبح بستر سے ا ٹھے اور تیا
ری پکڑی یو نیو ر سٹی جا نے کی ۔آ ج نیو ز رائٹینگ اور رپو ٹینگ کی آخری
کلا س تھی ۔کئی دنو ں سے سر بول ر ہے تھے کہ بیٹا نیوز بنا نا شر و ع کر و
اور مجھے چیک کروانا تا کہ میں غلطیا ں درست کرو ۔ورنہ تم لوگوں کو نیو ز
بنا نا نہیں آئے گی۔سوچا آج نیوز بنا ہی لی جا ئے۔تا کہ سر بھی خو ش ہو جا
ئے ۔پھر کلاس روم میں بیٹھے سارے طا لب علم سر کی راہ دیکھنے لگے ۔کب سر
آئے گے اور ہما ری کلاس شر وع ہو گی۔پر کسی کو کیا پتہ تھا کہ آج کے بعد
ہما ری سر سے کبھی ملا قا ت نہیں ہو سکے گی۔جی بلکل یہا ں اسی شخص کی با ت
ہور ہی ہے۔جسے دو روز قبل د ہشت گر دوں نے اپنی گو لیوں کا نشا نہ بنا یا
گیا ۔انتہا ئی افسو س ناک خبر سن کر تما م کے تما م طلبہ افسر دہ ہو گئے ۔سب
کی آنکھ نم ہو گئی۔ ایک عجیب سا سما ء چھا گیا ۔ایک شخص جس سے آپ رو ز ملتے
ہیں اسکی سر پرستی میں تعلیم حا صل کر تے ہے وہ انسان ا چا نک آپکی نظر وں
سے اوجھل ہو جا ئے تو کیسا محسو س ہو گا !سر یا سر رضو ی کو د ہشت گر دوں
نے بے رحمی سے شہید کر دیا۔لیکن ان کو خو داندا زہ نہیں کی ان کے لئے خدا
نے روز قیامت کیا سزا رکھی ہے۔ایسے لو گوں کو کبھی سکون نسیب نہیں ہو تا۔وہ
گمرا ہ ہو چکے ہو تے ہے اس لئے وہ لا علمی اور لا شعور ی کے عالم بھٹکے ہو
ئے ہیں۔سر یا سر رضو ی بہتر ین صحا فی ہو نے کے سا تھ سا تھ بہتر ین استاد
دوست تھے۔ان جیسے دوست استاد اس دنیا میں بہت ہی کم ہے۔انھو ں نے ہمیشہ نیو
ٹرل اور حقا ئق پر مبنی با ت کی۔غیر جا نبداری سے اپنے فر ائض انجا م دیتے
تھے۔کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا ۔حقا ئق پر با ت کر نے والوں کو خا موش کر
وانا تو ہمیشہ سے ہی اس ملک علمیہ رہا ہے۔جس نے حق اور با طل کی آواز بلند
کی اسکی آواز کو بند کر دیا جا تا ہے۔ایسی کو ن سی طا قت ہے جو کھلے عا م
اس طرح کی د ہشت گردی میں ملوث ہے اور ہما رے قانون نافذ کر نے وا لے ادا
ریں مجبور ہے۔تحفظ فرا ہم کر نے یا سیکیو رٹی دینے سے اس مسلئے کو حل کرنا
ہر گز ممکن نہیں۔بلکہ اس قس کے عنا صر کو جڑ سے اکھا ڑکر پھیکنے کی ضرورت
ہے۔دہشت گردااگر اس طرح سے استا تذہ کے قتل سے ہما رے اندر ڈر اور خو ف کی
فضا ء قا ئم کرنا چا ہتے ہے تو ان کی بھول ہے۔ ہما رے اساتذہ کرام نے جو
ہمیں تعلیم دی ہے ہم انکی اس تعلیم کو آگے لے کر جا ئے گے۔
نظم بزم ہستی کے کم نہ ہوں گے ہنگا مے
ایک چرا غ بجھتا ہے عو چرا غ جلتے ہیں
|