دو سرخیاں۔۔۔ سوچئے ذرا

آج مختلف اخبار کا مطالعہ کرنے بیٹھے تو نظروں کے سامنے سے دو سرخیاں گذری جن میں ایک سرخی تھی کہ غریب بچوں کی سُنت ابراہیمی کرائی اور دوسری سرخی تھی کہ نیپال متاثرین کیلئے امدادی کام کیلئے تعاون کریں۔دونوں سرخیاں واقعی میں اچھے کاموں کی علامتیں ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس یہی کام رہ گئے ہیں کہ بچوں کی مفت ختنہ کرائیں اور کسی اور ملک میں ہونے والے قدرتی آفت کیلئے چندے جمع کریں۔سب سے پہلے ہم سُنت ابراہیمی کی مہم پر نظر ڈالیں گے کہ یہ مہم بھلے ہی مسلمانوں کیلئے ایک اہم کام ہے لیکن موجودہ دور میں ہمارے درمیان شاید ہی ایسے کوئی ماں باپ ہوں جو اپنے لخت جگر کی ختنہ نہیں کراسکتے۔کیونکہ آج کل ایک معمولی سا مزدور بھی روزانہ تین سو روپئے کی اجرت حاصل کررہا ہے او رہر گھر میں ٹی وی ،کیبل ،ڈش اوراسمارٹ فون کاراج ہے جب کہ سُنت ابراہیمی کروانے کیلئے600؍ تا800؍ روپئے خرچ ہوتے ہیں۔یا اسمارٹ فون کے مالک ماں باپ کو اپنے لخت جگر کیلئے زندگی میں ایک دفعہ آٹھ سو روپئے خرچ کرنے کی طاقت نہیں ہے؟۔ہم نے ایسے کئی لوگوں کو بھی دیکھا ہے جنہوں نے مفت کیمپوں میں اپنے بچوں کی سُنت ابراہیمی کروائی ہے لیکن جب زخم چنگا ہوجاتا ہے تو رسم شاہی پیمانے پر کرتے ہیں۔دوسری سرخی کے تعلق سے ہم یہ بیان کرنا چاہیں گے کہ نیپال میں آنے والا زلزلہ دل سوز ہے اور ایسے موقع پر ہم ایسی قدرتی آفتوں سے پناہ مانگنے کے سواء کچھ نہیں کرسکتے۔لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ ان نیپالی متاثرین کیلئے مودی حکومت تو زیادہ فکر مند ہے ہی ساتھ ہی ساتھ مسلم تنظیمیں بھی نیپالی متاثرین کیلئے امدادی رقم جمع کرنے کیلئے اعلانات کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں۔اگر زلزلے خدا کا عذاب ہے تو اس کی تشہیر کرنے والے اپنا دھندہ چمکانے کیلئے ان متاثرین کا ڈھونگ کوئی رچارہے ہیں۔جب کہ وہی لوگ زلزلے کو خدا کا عذاب کہتے نہیں تھکتے۔کیا دوغلی قوم ہے ،دوغلی سوچ،دوغلے بیان ،دوغلاعلم ،دوغلا معاشرہ، دوغلی تاریخ ، دوغلی فکر اور دوغلی شخصیت؟ہنسی آتی ہے اس قوم کے ایکشنس اور رویہ پر۔یوں تو ہمارے سامنے ایسے کئی قومی وملی مسائل ہیں جنہیں حل کرنے کیلئے ایک دو نہیں ہزاروں ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ہزاروں مسلمان آج اپنا خود کا مکان نہیں رکھتے اور وہ منتظر ہیں کہ کوئی خدا کا بندہ انہیں رہنے کیلئے مکان بنا کر دیں،کئی لوگ دن میں ایک وقت کی روٹی کھاتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس روٹی لینے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔ہر سال ہزاروں بچے اپنے تعلیم کو منقطع کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس اسکول و کالج جانے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔ہر سال لاکھوں لوگ اپنا علاج بروقت نہ کروانے کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ایسے ہمارے سامنے کئی مسائل ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے کیلئے خود ہمیں اور ہماری تنظیموں کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔لیکن افسوس صد افسوس ہماری سوچ بالکل الگ ہے ،آج ہمیں جس کام پر فکر کرنے کی ضرورت ہے اس کا م کو انجام نہیں دے رہے ہیں لیکن چھوٹی موٹی باتوں کو خوب واہ واہی بٹو رہے ہیں کوئی چندے کیلئے کیمپ لگا رہا ہے تو کوئی چندے کا دھندہ کررہا ہے۔ہماری قوم اس قدر چندے کے دھندے میں لگے گی اس کا شاید کسی نے اندازہ لگایا ہو۔اسلام نے مسلمانوں کو کارخیر کرنے کی تعلیمات دی ہے لیکن ہمارے تنظیموں و اداروں کے ذمہ داران خیر کاکام کرنے کیلئے نئی نئی کاریں خرید رہے ہیں۔مسلمان سوچیں کہ ہم اپنے گھر کو روشن کریں کہ پڑوس کے گھر کو روشن کریں۔ہمارے اپنے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں تو دوسروں کو کیا خاک کپڑے دلا سکیں گے؟۔
Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 177393 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.