اﷲ تعالٰی نے تمام انسانوں کے
باپ حضرت آدم علیہ السّلام کوپیدافرمایااور انہیں تمام اشیاء کے نام
سکھادئیے۔ پھر اُن چیزوں کے بارے میں فرشتوں سے پوچھاتواُنہوں نے لاعلمی
کااظہار کیا۔ اس کے بعد اﷲ تعالٰی نے آدم علیہ السّلام سے ان چیزوں کے
ناموں کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے اُن کے نام بتادئیے۔ اس طرح فرشتوں
پرآدم علیہ السّلام کی برتری ثابت ہوگئی۔
چیزوں کی قدروقیمت اورپہچان اُن کے ناموں سے ہی ظاہرہوتی ہے۔سوناکانام سنتے
ہی یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ یہ ایک بڑی قیمتی دھات ہے اورسکّہ
کاذکرہوتوایک سستی سی چیزکاتصوُّرذہن میں آتاہے۔ اﷲ تعالٰی نے تمام اشیاء
کومختلف نام عطاکئے ،تاکہ اُن کی پہچان ہوسکے، اسی طرح مختلف مختلف علاقوں
اورمختلف قبائل کے نام بھی پہچان کاذریعہ ہیں۔ اسی پہچان ہی کی خاطرانسانوں
کو بھی مختلف ناموں سے پُکاراجاتاہے۔
اسلام زندگی کے ہر شُعبہ میں بنی نوعِ انسان کی راہنمائی کرتاہے۔بچوں کے
نام رکھنے کے سلسلے میں بھی قُرآن وسنّت میں کافی ہدایات دی گئی ہیں۔ آئیے
دیکھتے ہیں کہ اس بارے میں ہمارے لئے اﷲ کے قُرآن اور نبیﷺ کے فرمان میں
کیاراہنمائی دی گئی ہے۔
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالٰی ہے: وَلِلّٰہِ الْا َسْمَاءُ الْحُسْنَی
فَادْعُوْہُ بِھَا۔۔۔[سورۃ الاعراف الآیۃ۱۸۰]۔ (اور اﷲ کے بڑے خوب صورت نام
ہیں پس تم اسے ان ناموں سے پُکارو)۔ ایک دوسرے مقام پرفرمایا گیا: قُلِ
ادْعُواﷲَ اَوِدْعُوْاالرَّحْماَنَ اَیَّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْا َسْمَاءُ
الْحُسْنَی۔۔۔[سورۃ الاسراء الآیۃ۱۱۰]۔ (تم کَہ دو کہ تم اﷲ پکارویارحمان
پس اُس کے بڑے خوب صورت نام ہیں)۔ پس جس طرح اﷲ کو اس کے خوب صورت ناموں سے
پکارنے کاحکم دیاگیاہے اسی طرح انسانوں کوبھی ایک دوسرے کو ایک دوسرے
کواچھے اچھے ناموں سے پکارنے کادرس دیاگیا ہے اور بُرے القاب سے ایک دوسرے
کو پُکارنے سے منع کیاگیا ہے۔ ارشاد اِلٰہی ہے: ۔۔۔وَلَاتَلْمِزُوْااَنْفُسَکُمْ
وَلاَ تَنابَزُوْابِالْاَلْقَابِ۔۔۔[سورۃ الحجرات الآیۃ۱۱]۔ (اورایک دوسرے
پرطعن نہ کرواورایک دوسرے کوبُرے القاب سے نہ پُکارو)۔
نبی اکرم ﷺ نے بھی اس سلسلے میں ہمیں مکمل راہنمائی عطافرمائی ہے۔ آپ ﷺنے
ارشاد فرمایا: سَتُدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِاَسْمَاءِ آبَاءِ کُمْ
فَاَحْسِنُوْا اَسْمَاءَ کُم۔ ( عنقریب قیامت کے دن تمہیں تمہارے باپوں کے
نام سے پکاراجائے جائے گاپس اپنے نام اچھے رکھاکرو)۔ آپ ﷺ بُرے ناموں کو
اچھے ناموں سے بدل دیتے تھے۔ ذیل میں اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
آ پ ﷺ نے اپنے نواسوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اﷲ عنھما کے نام تبدیل
کئے تھے حالانکہ اُن کے والدین نے اُن کے نام حرب (جنگ) رکھے تھے( اوریہ
نام عرب میں معروف بھی تھا)۔
آپ ﷺ نے اسلام قبول کرنے والے بہت سے صحابہ رضی اﷲ عنھم کے نام بدل دئیے
تھے۔ آپ ﷺ نے اپنے پیارے صحابی حضرت ابوبکرصِدیق رضی اﷲ عنہ کانام عتیق اور
عبدالکعبہ سے عبداﷲ رکھا۔ آپ ﷺ نے حضرت حصین کا نام عبداﷲؓ بن سلام رکھا۔
آپ ﷺ نے عبدعمرو کانام تبدیل کرکے عبدالرحمان ؓبن عوف رکھ دیا۔ آپ ﷺ نے
عاصیہ(نافرمان) کانام جمیلہ سے بدل دیا اوراَصرم (بنجر) کانام زُرعہ
(زرخیز) رکھ دیا۔ آپ ﷺ نے عاص (نافرمان)، غفلۃ(غفلت)،شیطان،حکم(حاکم)،
غُراب (کوّا) اور شہاب (آگ کا شُعلہ) جیسے ناموں کو اچھے ناموں سے بدل
ڈالا۔آپ ﷺ نے ابوالحکم(حکم کاباپ) کا نام اُس کے بڑے بیٹے شُریح کی نسبت سے
ابوشُریح رکھ دیا۔
آپ ﷺ نے ایسے نام رکھنے سے بھی منع فرمایا جن میں کوئی مبالغہ یاتفاخُر
کاعُنصر پایاجاتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں زندہ رہا تواپنی اُمت کو اَفلَح
( بہت زیادہ کامیاب)، یسار (آسانی/تونگری)، نافع(نفع بخش) اور رَباح (منافع
/شراب) وغیرہ نام رکھنے سے منع کردوں گا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے لڑکیوں کانام
برَّہ (نیکوکار) رکھنے سے منع فرمایا کہ اﷲ کے سِوا کوئی نہیں جانتا کہ کون
نیکوکار ہے۔ اسی طرح ازکٰی (بہت زیادہ پاکیزہ) نام رکھنے کی ممانعت ہے۔
آپ ﷺ بُرے معانی کی حامل جگہوں کے ناموں کو بھی اچھے ناموں سے بدل دیتے
تھے۔ آپ وﷺ کے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے اُسے یثرب( بیماری
کاگھر) کے نام سے پکارا جاتاتھا۔ آپ ﷺ کے تشریف لانے سے یثرب کانام
طیبہ(پاکیزہ جگہ) مشہور ہوا۔ آپ ﷺ نے حدب(دُشوارگزارجگہ) کانام
اَسلَم(محفوظ) رکھا۔ آپ ﷺ نے مضطجع( خواب گاہ) کا نام مُنبَعِث (سرگرم) رکھ
دیا۔ آپ ﷺ نے اَرضُ غفرۃ (بنجرزمین) کو اَرضُ خَضرۃ (سرسبزوشاداب سرزمین)
اور شعب الضلالۃ (گمراہی کی گھاٹی) کو شعبُ الھدایۃ ( ہدایت والی گھاٹی) سے
بدل دیا۔
آپ ﷺ نے بنوالزنیہ( قبیلہ زنا) کانام بنوالرشدۃ (قبیلہء ہدایت) رکھا۔
آپ ﷺ اچھے ناموں سے نیک فال (اچھاشگون) لیتے تھے۔ جیسا کہ صلح حدیبیہ کے
موقع پر آپ ﷺ نے قریشِ مکہ کی طرف سے سُھَیل بن عمرو کو سفیر بن کر آتے
دیکھا توفرمایا:
تمہاراکام آسان ہوگیا۔ آپ ﷺ نے اُس کے نام سھیل (سھولت/آسانی) سے اچھاشگون
لیا۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے ایک اونٹنی کادودھ دوہنے کے لئے پوچھاکہ کون یہ کام
سرانجام دے گا۔ ایک آدمی کھڑاہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: تیرانام کیا ہے؟ اس نے
جواب دیا: مُرّہ (کڑوا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو بیٹھ جا۔ ایک دوسرا آدمی کھڑا
ہوا توآپ ﷺ نے فرمایا: تیرانام کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: جمرۃ (چنگاری)۔ آپ
ﷺ نے فرمایا: تو بیٹھ جا۔ ایک تیسرا آدمی کھڑا ہوا توآپ ﷺ نے فرمایا:
تیرانام کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: یعیش (زندگی کاسامان)۔
آپ ﷺ نے فرمایا: تو اس کا دودھ دوہ لے۔ ابوعمرو نے کہا: یہ اچھے نام سے نیک
فال لیناہے۔ یہ طیرہ (بدشگونی) میں سے نہیں ہے اور میرے پاس اس کی ایک اور
وجہ بھی ہے اوروہ یہ ہے کہ اسم (نام) اور مسمّٰی (جس کانام ہو) کے درمیان
ایک ربط اورتعلق بہرحال ہوتاہے۔ اور بہت کم ایسے واقع ہوتاہے کہ اسم اور
مسمّیٰ میں کوئی اختلاف واقع ہوکیونکہ الفاظ تو معانی کے جسم اور اسماء تو
اپنے مسمّیات کے ڈھانچے ہوتے ہیں۔[تُحفۃ المَودود بِاَحکامِ المَولُود۔
لِعلامہ ابنِ قیم الجوزیۃ ص ۶۳]
بُرانام بُرے انسان پردلالت کرتاہے جیسے قبیح صورت بُرے باطن کی آئینہ
دارہوتی ہے۔ ایک روایت میں حضرت عُمر رضی اﷲ عنہ سے اس سے متعلق ایک واقعہ
بیان کیا جاتاہے کہ آپ رضی اﷲ عنہ نے ایک آدمی سے اُس کا نام پوچھاتو اس نے
کہا: جمرۃ (انگارہ)۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے پوچھا: کس کے بیٹے ہو؟ اُس نے کہا:
ابنِ شہاب(چنگاری کابیٹا)۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے پوچھا: کس قبیلے کے ہو؟ اس نے
جواب دیا: حرقہ(گرمی) قبیلہ سے ہوں۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے پوچھا: تیرا مسکن
کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا: بحرۃ النار(آگ کا سمندر)۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے
پوچھا: وہ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا: ذات لظی(شعلوں والی) میں۔ آپ رضی اﷲ
عنہ نے کہا: فورًا اپنے گھر والوں کی خبر لو وہ جل چکے ہوں گے۔ پس اسی طرح
ہی واقع ہوا جس طرح آپ رضی اﷲ عنہ نے کہاتھا۔
نبی اکرم ﷺ نے دوپہاڑو ں کے درمیان سے گزرنے سے انکار کیا جن کے نام مغز
اور فاضح(رُسواکرنے والا) تھے اورآپ ﷺ نے منزل تک پہنچنے کے لئے متبادل
راستہ اختیار فرمایا۔[تُحفۃ المَودود بِاَحکامِ المَولُود۔ لِعلامہ ابنِ
قیم الجوزیۃ ص ۶۳]
پس اسلام میں ہمیں راہنمائی دی گئی ہے کہ اپنے بچوں کے اچھے نام رکھیں اور
یہ بچوں کاپہلاحق ہے جو والدین پرعائد ہوتا ہے۔ بُرے معانی والے اور
یہودونصارٰی سے ملتے جُلتے ناموں سے گُریزکیاجائے کیونکہ ہمیں اُن سے
مشابہت کرنے سے منع کیا گیاہے۔ انبیاء کرام ، صحابہ ء کرام رضی اﷲ عنھم
،صحابیات وامھات المو ئمنین رضی اﷲ عنھن، شُھداء کرام، صدِّیقین اور صالحین
کے ناموں پر نام رکھناپسندیدہ عمل ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اَحَبُّ
الْاَسْمَاءِ عِنْدَاللّہِ عَبْدُاللّہِ وَ عَبْدُالرَّحْمَانِ۔ (اﷲ کے ہاں
سب ناموں سے پسندیدہ نام عبداﷲ اورعبدالرّحمان ہیں)۔
آج کل ناموں کے سلسلے میں ایک کوتاہی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ اﷲ تعالٰی کے
صفاتی ناموں پرلڑکوں کے نام رکھ دئیے جاتے ہیں۔ مثلاً: رحمان، قدیر،
وھاب،رزاق،سمیع ،غفار،ستار وغیرہ حالانکہ اِن ناموں کے ساتھ عبد کااضافہ
کیاجاناضروری ہے۔ لِھٰذا اِن ناموں کوعبدالرحمان، عبدالقدیر، عبدالوھاب،
عبدالرزاق، عبدالسمیع ،عبدالغفار،عبدالستار لکھااور پُکاراجاناچاہئیے ۔ ان
کے علاوہ نبی اکرم ﷺ کے نام مبارک پر اپنے بچوں کے نام رکھنا ہمیشہ سے جاری
ہے حتٰی کہ کئی کئی پُشتوں تک بچوں کے نام محمد رکھے جانے کی بھی کئی
مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جیسے کہ امام غزالیؒ کا نام محمد بن محمد بن
محمد الغزالی تھا۔
آج کل بچوں کے نام رکھنے کے سلسلے میں کوئی احتیاط نہیں برتی جاتی۔ بس اس
بات کاخیال رکھاجاتا ہے کہ کوئی ایسانام رکھا جائے جو محلّے یاعلاقے میں
کسی اور کانہ ہو۔ خواہ اس کامعنٰی کوئی بھی ہو۔ ہمارے گاوئں میں کچھ عرصہ
گزارنے والے ایک مولوی صاحب کے بارے میں مجھے بتایاگیاکہ اُس نے اپنے
نَومَولُود بیٹے کانام عبدالقفنگف رکھا تھا۔ مجھے آج تک قفنگف کا معنٰی
نہیں مِل سکا۔ اسی طرح کئی سال پہلے ایک اخبار میں میں نے رامیش بن عبداﷲ
نا م پڑھا۔ میں حیرت زدہ ہو کر رَہ گیا کہ کتنی جلدی سے عبداﷲ سے رامیش تک
کاسفر طَے ہوگیا؟ صرف ایک نسل سے دوسری نسل تک جاتے جاتے عبداﷲ سے رامیش بن
گیا۔
اوّلین ذمہ داری تووالدین ہی کی بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے نام رکھتے وقت
خوب احتیاط سے کام لیں۔ اس سلسلے میں اصحابِ علم ودانش اور عُلماء کرام سے
راہنمائی لی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ ء کرام واصحابِ حکمت ودانش
کا بھی فرض بنتا ہے کہ اس سلسلے میں اپناکردار ادا کرتے ہوئے اپنے احباب
واقارب میں شعورپیداکریں۔ اگر کوئی ایسابچہ سکول میں داخل ہوجس کانام
اچھانہ ہو تواُس کے بارے میں اُس بچے کے والدین سے مشاورت کے ذریعے اچھانام
رکھ دیں تو یہ بہت اچھا اقدام ہوگا۔ اگر نام تبدیل کرنے میں تاخیر ہوئی تو
بعد میں ایساکرناناممکن ہوجائے گا۔ کیونکہ بعدازاں سکول ریکارڈ میں تبدیلی
بچے اور اس کے والدین کے لئے بڑی پیچیدگیوں کاپیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ آج
کل سکولوں میں رائج قوانین کی وجہ سے بہت سے بچوں کو اپنے یااپنے والدین کے
نام غلط درج ہونے کی وجہ سے تعلیم جاری رکھنے میں کئی دُشواریوں
کاسامناکرناپڑنارہا ہے۔ اِس لئے احتیاط علاج سے بہتر ہے۔
ہمیں ہرمعاملے میں واضح اورملاوٹ وآمیزش سے پاک موقف
پرکاربندرہناچاہئے۔ناموں کے سلسلے میں بھی اس پر عمل کیاجائے تواچھاہے۔
بقولِ علامہ اقبال ؒ :
دورنگی چھوڑدے یک رنگ ہوجا
سراسَر موم ہویاسنگ ہوجا
|