جس نے سب کے گھر بنائے اُس کا گھر کوئی نہیں!
(Asif Yaseen Langove, Jaffar Abad)
پاکستان میں مزدور پالیسی کا
آغاز 1972 میں ہوا اور یکم مئی کو قانونی طور پر مزدور ڈے کا خظاب دے دیا
گیا ۔ پاکستان آج انٹر نیشنل لیبر آرگنائز یشن کا با قاعدہ ممبر بھی ہے ۔
جسکا مقصد مزدوروں کو معاشی حقوق دینا اور انھیں انکے حق کے بارے میں آگاہ
کرنا ہے ۔ یکم مئی کے آتے ہی ہر جگہ مزدور وں کے حوالے سے شعور جاگ جاتے
ہیں جیسے گزشتہ رور ملک بھر میں ریلیاں ، جلسے و جلوس اور کانفرنس اور
سرکاری سطح پر عام تعطیلات کا بھی اعلان ہو گیا ۔ میڈنا میں اینکرز و سیاسی
قائدین نے بحث و مباحثہ کیا ، ڈاکومنٹری ٹی وی پر ہر چینل چلائے گی ،جلوسوں
میں مزدور وں کو یہ بتایا گیا کہ آپ لوگ بہت اہم طبقہ ہیں ۔ان کے ساتھ
زیادتیوں کا بھی افسوس کیا گیا کسی نے ان کی تعریف بجا دی تو کسی نے مزدور
کو قوم مالک قرار دیا تو کسی نے مزدور کو ہیروں اور محتاج بھی قرار دیا ۔
شام ہوگئی مزدور اپنے اپنے گھر خالی جیب چلے گئے ۔ میرا پڑوس میں ایک لڑکا
ہے جس کا عمر 19سال ہے اس کا والد ہپا ٹائٹس میں مر گیا اپنے خاندان کا
واحد کفیل بھی ہے ۔ ہر روز مزدور اڈہ پر چلا جاتا ہے اور مزدوری کے لئے
کھڑا ہو جاتا ہے جسمانی طور پر کافی تندرست بھی ہے تو کافی لوگ اسے کام کا
دلیر سمجھ کر اسے لے جاتے ہیں اور اپنی تمام کام کرواکر اسے شام کو
350روپیہ تھما کر اسے روانہ کرتے ہیں یہ پیسے لییکر ہر روز اُس شام اور
اگلے دن کے لئے 15روپیہ کا آٹا اور کچھ سبزی لے جاتا ہے ۔ اُ س کا گزاراہ
کسیے ہوتا ہے ؟ وہ خود جانتا ہے لیکن میں اسے ہر روز شام کے وقت اس حالت
میں ہی دیکھتا تھا ۔ یکم مئی کو خالی ہاتھ جا رہا تھا میں نے دیکھا اور
مسکرا دیا اور میں نے مزاق مین پوچھا ــ’’ ارے میٹھو بھائی تم نے آج سبزی و
آٹا سویرے ہی پہنچا دیا گھر یا خالی ہاتھ لوٹ رہے ہو‘‘ اُ س نے غصے میں
جواب دیا کہ ’’ صاحب آج تو مزدور ڈے ہے اور مزدور ایسوسی ایشن نے مزدوری سے
آج روک اور جلسہ میں شرکت کے لیے کہا اورکل 100روپیہ خرچہ بھی وصول کیا ہے
ــ‘‘ تو میں نے پوچھا آج یکم مئی اور تم کو 500 کا نقصان ہوا ہے کیا ‘‘ وہ
غصے میں خالی ہاتھ لوٹ رہا جو تھا تیز گام ہو کر گھر کی طرف روانہ ہوگیا ۔
خیر مزدور ڈے منا نے سے مزدوروں کو کوئی خاص فائدہ تو نہیں پہنچتا ہے ۔
باقی حکومت مزدور طبقہ کی اور اپنے ملازمیں کی ماہانہ تنخواہ کو اگر برابر
کرتا ہے تو یہ مزدوروں کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ پاکستان میں عام
ملازمیں درجہ اؤل سے لیکر تقریباََ تمام ملازمیں کا 18 سے 20 ہزار سے
ماہانہ اجر ( تنخواہ ) زائد ہی ہے تو کیوں نہ مزدور کو بھی اتنی ہی تنخواہ
دی جائے تاکہ غربت اور لاچاری سے غریب طبقہ باہر نکل کر پوری قوم کے ساتھ
معاشی مقابلہ کر سکے ۔ مزدور ایک ایسا طبقہ ہے جو کسان کی شکل میں یا لیبر
کی شکل میں وہ کام کرتا ہے جو کوئی عام نہیں کر سکتا ہے زمیندار طبقہ اپنے
مزدور کے زریعے معاشی استحکام حاصل کرتا ہے ۔ ملازمین اپنی تنخواہوں سے
مزدور طبقہ سے وہ کام لیتے ہیں جو خود نہیں کر سکتے ۔
ایک مزدور پورے مہینے میں 350روپیہ دن کی مزدوری کے حساب سے 10500 روپیہ
کماتا ہے جو کوئی چھٹی یا ہاف ڈے کا کوئی سوال ہی پید ا نہیں ہوتا لیکن عام
سرکاری یا پرائیویٹ ملازم 18000 روپیہ ماہانہ تنخواہ لیتا ہے اور مہنے میں
9 سے 10 دن چھٹی بھی کرتا ہے اسی طرح مزدور دن میں 350اور ملازم 1000 روپیہ
دن میں کما تا ہے ۔ مزدور صبح سویرے اور شام دیر جبکہ عام ملازم 5 سے 6
گھنٹہ کام کرتا ہے ۔ دیکھا جائے تو یہ نا انصافی ہے ۔ اسی لیے لوگ مزدورے
کے بجائے نوکریوں کے لئے در پدر ہیں اور لاکھوں کی ملکیت سودا بازی لگا کر
سرکاری ملازمت کے لیے لائن میں لگ جاتے ہیں ۔ پوری مہینہ کام کرنے کے
باوجود بھی غریب کا چولہا ٹھنڈا پڑ ھ جاتا ہے ۔
مزدورکا بچہ سکول بھی نہیں جاتا ہے چائلڈ لیبر کا شکار ہو کر باپ کا ہاتھ
بٹاتا ہے تاکہ گھر کا راشن پانی میں گزر سفر ہو ۔ مزدورکی بچے بیمار ہو کر
بھی ہسپتال نہیں جاتا ہے جہاں ہزاروں روپیہ خرچ ہوتے ہیں سرکاری ہسپتال میں
مزدورکا بچے کا ٹریٹ منٹ ہی نہیں ملتی ہے ڈیرہ اﷲ یار سرکاری ہسپتال میں
بھی مزدورکا بچے کے بجائے وہاں کے ملازمیں ہی ساری میڈیسن جیب میں ڈال کر
گھر لے جاتے ہیں اور اپنے دوست و احباب میں سفارشات کی بنیاد پر دیتے ہیں ۔
ڈاکٹر لکھ کر ایک دوائی دیتا ہے تو میڈکل اسٹور اہلکار دیتے کچھ اور ہی ہیں
جن کی کوئی قیمت ہی نہیں ہوتی ہے ۔ مزدورکا بچہ پارک و کھیل کے میدان میں
نہیں جاتا ہے کیوں کہ اس کو وقت بھی نہیں ملتا ہے ۔ مزدورکا بچہ اپنے
سوسائٹی میں کم تری کا شکار بھی ہوتا ہے ۔مزدور بھی پریشان تو مزدورکا بچہ
بھی پریشان۔کسی نے کیاخوب فرما یا ہے کہ
یہاں مزدور کو مرنے کی جلدی یوں بھی ہے محسن
کہ زندگی کی کشمکش میں کفن مہنگا نہ ہو جائے
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکومت لیبر ڈے منا نے کے بجائے حکمت عملی سے
کام لیں اور مزدور اور اپنے ملازمیں میں یکساں تنخوا ہ کا سلسلہ جلد از جلد
شروع کریں تاکہ مزدورکے ساتھ موجودہ معاشی نا انصافی کا ازالہ ہو جائے ۔ و
دیگر صورت پاکستان میں دو بڑی قوم الگ الگ پہچان کے ساتھ ہونگے ۔ مزدور
طبقہ غربت اور ملازمین و تاجر الگ طبقہ ہوگا ۔ مزدور وہ طبقہ ہے جو اپنی دن
رات کی محنت سے درجنوں منزلہ عمارتیں تعمیر کرتا ہے ، جو اپنی فن سے
عمارتوں کو خوبصورتی دیتا ہے ، جو اپنی فن و محنت سے ہر عام آدمی کے لئے
گھر بناتا ہے مگر کشمکش اور مہنگائی کی وجہ سے اپنے لئے گھر نہیں بنا سکتا
ہے ۔ اگر عام سروے کے مطابق کرایہ کے مکان میں رہنے والے مزدوروں کی تعداد
ایک چو تھائی حصہ ہے ۔شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
اس شہر میں مزدور جیسا کوئی در بد ر نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اُس کا گھرکوئی نہیں
بحرحال : حکومت مزدوروں اجر میں خصوصی اضافہ کرے کم از کم ماہانہ اجرت
20ہزار سے زائد تو مزدوروں کے گھر میں چولہے بھی جلیں گی، بچے سکول بھی
جائیں گے ملک میں خوشحالی آ ئیگی دیگر صورت مزدروں کے حقوق نہ ملنے کی وجہ
ملک میں خو شحالی کے دروازے بند ہو جائیں۔ |
|