کیا ہم نے کبھی سوچا، جوبات ہم کررہے ہیں اس کا انجام کیا
ہوگا، اس سے کسی کی دل آزاری تو نہیں ہورہی، کسی پرتہمت اورالزام کا سبب تو
نہیں بن رہی، کسی کی بے عزتی اوررسوائی کا موجب تو نہیں۔ ہمارا یہ روزانہ
کامعمول اور عادت بن چکی ہے،کسی کی غلطی کا علم ہوا تو ہم لوگ اس پرخوش
ہوتے ہیں،اسے دل کھول کربرا بھلا کہاجاتا ہے۔گویا اس غلطی پر کسی کے نقصان
کا،ہمیں رنج یا غم نہیں بلکہ جس سے غلطی ہوئی اُس کی بے عزتی اور زمانہ بھر
میں رسوائی پر ہم خوش ہیں۔اس کی غلطی کو ہم لوگ یوں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے
ہیں گویا ہم خود ہر قسم کی غلطی اور گناہ سے پاک ہیں۔یہ تواﷲ رب العزت کی
ذات پاک کا ہم انسانوں پراحسان ہے کہ ہمارے گناہوں اور غلط کاریوں پر پردہ
ہے۔ اگر سب کی غلطیاں، کوہتایاں اور اعمال دوسروں پر عیاں ہوجائیں تو ہم
میں سے کوئی بھی کسی دوسرے کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ توپھر ہم لوگ
دوسروں کے جرم وخطاء ظاہر ہونے پرکیوں خوش ہوتے ہیں؟ اُس وقت ہم میں سے
کوئی نہیں سوچتا کہ ہم بھی انسان ہیں ، ہم بھی ایسی خطاء کے مرتکب ہوسکتے
ہیں۔اگر ایسی صورت حال ہمارے ساتھ پیش آئے اور ایک دُنیا ہماری جان کو آ
جائے تو ہمارا کیاحال ہوگا۔حدیث پاک کا مفہوم کچھ یوں ہے"جودوسرے کو کسی
عیب کا طعنہ دیتاہے اور بار بار طعنہ دیتا ہے بہت جلدوہی عیب اس میں بھی
ظاہرہوگا"۔بعض جگہ تو یہاں تک آیا ہے کہ اُس شخص(یعنی طعنہ دینے والے)
کواُس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک وہ خود اُس برائی(گناہ) میں مبتلا نہ
ہوجائے۔
وہ باتیں جن سے ہمیں منع فرمایا گیااورجوانفراد ی واجتماعی نفرت،عداوت،
تباہی و بربادی کا موجب بنتی ہیں،اُن سے باز آنے کی بجائے ،ہم نے بڑی
ہوشیاری سے ان کے نام بدل دیئے ہیں۔حقائق کے نام پرعیب جوئی ہمارے معاشرہ
کا حصہ بن چکی ہے۔ خاص و عام اس گناہ بے لذت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔سگریٹ،پان
کی چھو ٹی سی دُکان سے لے کربازار، میڈیا اورسیاست کے اکھاڑے عیب جوئی
اورغیبت کے گڑھ ہیں۔یہاں تک کہ مسجدمیں بیٹھ کردوسروں کے بارے میں ہماری
گفتگو عیب جوئی ،شکوہ و شکایت اورغیبت کے سواء کچھ نہیں ہوتی،مگرہم لوگوں
نے بڑی ہی خوبصورتی سے اس ناپسندیدہ عمل ریاکاری کوجان کاری اورکارگزاری کا
نام دے دیا۔ ہم میں سے کوئی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرے گاکہ ہماری تباہی
وبربادی اور اجتماعی بگاڑ میں ہماری اس عیب جوئی اوربدگمانی کاکتنا بڑا
کردار ہے۔ القرآن ترجمہ"-: ہرشخص جودوسرے شخص کے عیب نکالتااوران پرآوازے
کستا ہے اس کی تباہی ہے "۔
دوسرے کے خلاف نفرت پیدا کرنے ،لڑائی،دنگا اور فساد برپا کرنے کے لئے زیادہ
محنت و مشقت کی ضرورت نہیں ہوتی،اس کے لئے تھوڑی سی لگائی بجھائی ہی بہت
ہوجاتی ہے۔ہمارے دن بھرکے اعمال توبہت دور کی بات ہے، آج ہمیں سب سے پہلے
خود اپنے گریباں میں جھانک کردیکھنا چاہیے کہ ہماری دن بھر کی گفتگو کاحاصل
کیا ہوتاہے؟
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے زمانہ خلافت میں ایک شخص سے قصور ہوا، وہ قانون کی
گرفت میں آگیا، جس پر لوگوں نے اس شخص کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا۔اس شخص
کامقدمہ آپ ؓ کے سامنے پیش ہوا۔آپ ؓ نے اس شخص پر لوگوں کی لعن طعن دیکھی
توفرمایا،تم سب لوگ مسلمان ہو؟جواب ملا،جی ہاں! آپ ؓ نے ارشاد فرمایا،اﷲ
تعالیٰ کی بزرگی اور عظمت کوتم سے بہتراور کون سمجھے گا۔ میں تم لوگوں کو
اﷲ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں تم میں سے جس نے کبھی کوئی گناہ کیاہویہاں سے
چلا جائے۔صرف وہی لوگ اسے براسمجھ سکتے ہیں،جنہوں نے خود کبھی کوئی برائی
نہ کی ہو۔یہ ارشادفرماکرحضرت علی ؓ نے کچھ دیرتوقف فرمایا، تھوڑی دیرکے
بعدآپؓ نے دیکھا کہ ایک ایک کرکے لوگ وہاں سے جانے لگے،کچھ ہی دیر میں سب
کے سب چلے گئے۔
آج کاانسان یہ سوچنے پرمجبور ہے کہ بے خبری کازمانہ موجودہ دور سے بدرجہ
بہتر تھا۔موجودہ وقت میں تو ایسا لگتا ہے، ہمارے معاشرے میں بھلائی نام کی
کوئی شے ہے ہی نہیں،اخبار، ٹیلی ویژن،سوشل میڈیا،نجی محفلیں، خیر کے تذکرہ
سے محروم ہوچکی ہیں۔ہم لوگ یہ بھول گئے کہ جس چیزکاتذکرہ عام ہوگا ، وہ چیز
عام ہوجائے گی۔کیا ہی اچھا ہو،کہ ہم اچھائی کا تذکرہ کریں، معاشرے میں جن
لوگوں نے فلاحی کاموں کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردی ہیں، جولوگ بلاتفریق
مذہب و مسلک ہرغریب وفقیر اورمساکین کی مدد کررہے ہیں، جوغمزدہ لوگوں
کاآسرا اورسہارا بنے ہوئے ہیں، ہم اُن کا تذکرہ کریں، اُن کی خدمات
کوسراہیں اوراُنہیں خراج عقیدت پیش کریں۔اس سے معاشرے میں مایوسی کی بجائے
اُمیدپیدا ہوگی،انسانیت کے بارے میں ہمدردی اورآپس میں ایک دوسرے کے
دُکھ،درداورتکلیف کا احساس پیدا ہوگا۔
آ ج ہم نے اپنے آپ کو ذات،برادری،علاقہ،طبقہ اورجماعت کی حدتک
محدودکردیاہے۔جوہماری تنگ نظری کا باعث بنا۔اسی تنگ نظری کے سبب ہمیں کسی
دوسرے کی نیکی یا اچھائی نظرہی نہیں آتی۔ساری بات تربیت کی ہے، ہمیں ہمیشہ
تربیت ہی ایک دوسرے سے اختلاف کی دی گئی ہے۔مگرایک صورت تربیت واصلاح کی
اوربھی ہے اوروہ یہ ہے کہ انسان اپنی تربیت واصلاح آپ کرے۔
حکیم لقمان سے لوگوں نے پوچھا،آپ اتنے اچھے اور نیک کیسے بن گئے۔ انہوں نے
جواب میں فرمایا،بروں کے ساتھ رہ کر،لوگ یہ سن کرحیران اور ششدر رہ گئے۔
بات تھی بھی ایسی کہ عام طور پر بروں سے برائی کا ہی سبق ملتاہے،برے سے
اچھا سبق سیکھنا بھلاکیسے ممکن ہے؟فرمایامیں ان کے ساتھ رہ کران کی بری
باتیں سُنتااوردیکھتا رہتا اور خود ان بری عادتوں کو چھوڑتا جاتا۔
آج ہمارا وطن عزیز پاکستان بیت الحزن بن چکاہے۔ ہرطرف دُکھ ،مصبتیں
اورپریشانیاں ہیں۔ہرطرف آہ وبکاہے۔کسی کی جان و مال، عزت وآبرو محفوظ
نہیں۔بالفرض ہمارے حکمران ،راہنما،سیاستدان تما م اختلافات بھلا کرپاکستان
کوامن وسکون کاگہوارہ بنانے کے لئے اپنے اخلاص اورتمام دستیاب وسائل وقف
کردیں،تب بھی معاشرے کے سدُھارمیں کامیاب نہیں ہوسکتے،جب تک ہم عوام آپس کے
اختلافات بھلاکریکتا نہیں ہوجاتے۔آخرکب تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہیں
گے۔کب تک دوسرے کو عیب کا طعنہ دے کرخوش ہوتے رہیں گے،حالانکہ اُس سے کئی
گنا زیادہ عیوب خودہمارے اندرموجود ہوں۔کب تک حسدمیں مبتلاہوکردوسروں کی
ناکامی کے عذاب میں مبتلارہیں گے ،کب تک غیبت کے ذریعہ نفرت کے بیج
بوکراپنی منزل کھوٹی کرتے رہیں گے۔کب تک دوسروں کی غلطی،تذلیل اور ناکامی
پرخوش ہوتے رہیں گے۔کب تک دوسروں کی بربادی کے منصوبے بناتے رہیں گے۔ آخر
کب تک د شمن ِاسلام اوروطن دُشمن بدخواہوں کے آلہ کار بنتے رہیں گے۔ہم میں
سے ہرایک کوانفرادی طورپراپنے اندرتبدیلی لانی ہوگی۔ہمیں سطحی سوچ اور
انفرادی مفاد سے بلندہوکرسوچناہوگا۔ہمیں اس مملکت ِ خدا داد کوایسا وطن
اورگھربنانا ہوگا،جہاں ہرطرف خوشیاں،امن وسکون اوربھائی چارہ ہو،جہاں سب
ایک ہوں ،جہاں سب ایک دوسرے کے دُکھ اورتکلیف کا احساس کرنے والے ہوں۔ جہاں
سب کے دُکھ،درد اورغم سانجھے ہوں۔اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے پہلی شرط یہ
ہے کہ ہم سب کو،تمام اختلافات بھلا کرمتحدہونا ہوگا۔ہمیں اپنا حق معاف کرنا
پڑے تو اﷲ کی رضا اورخوشنودی کے لئے معاف کردیں۔ بے شک اﷲ رب العزت دلوں کے
حال سے خوب واقف اور اپنی رحمت سے ہر انسان کی غلطی اور کوتاہی معاف کرنے
پر قادر اوربے نیازہے۔ اے رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہمارے
ملک پاکستان سمیت پُورے عالمِ اسلام میں امن سکون عطاء فرما۔ |