علم کے شہر میں دراڑ پڑ گئی

سال بھی نہیں بیتا کہ علم کے شہر میں ایک اور باب تمام ہوا۔ سات ماہ قبل ہی اس شہر ناپرساں کی سڑک پر دن دہاڑے پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج ابدی نیند سلا دیے گئے تھے۔ آج اسی کی مشابہ ایک اور اندوہناک کہانی دہرائی گئی۔ جس نے اساتذہ اور طلبہ کی صفوں سے لے کر علمی و صحافتی حلقوں میں بھی کہرام بپا کردیا ہے۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وحید الرحمن عرف یاسر رضوی سے اگرچہ میرا تعلق استاد شاگرد کی نسبت سے نہیں رہا، تاہم اساتذہ سے قربت کی بنا پر وہ اس فہرست میں ضرور شامل ہیں۔ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں چار سمسٹرز کے دوران کئی اساتذہ سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر وحید الرحمن بھی اکثر وہیں نظر آتے تھے۔ جو ڈپارٹ کے علاوہ کراچی پریس کلب میں بھی یاسر رضوی کے نام سے جانے جاتے تھے۔

شہر کراچی میں لاشیں گرنا، ایمبولینسوں کی سرخ بتیاں جلنا، اسپتالوں اور سرد خانوں میں میتوں کی منتقلی روز کا معمول ہے۔ تاہم ایک ایسی شخصیت جس نے لاتعداد نوجوانوں کے ہاتھوں میں قلم اور مائیک تھمایا ہو، وہ دہشت گردی کی بزدلانہ کارروائی کا نشانہ بن جائے، اسے ہرگز معمولی نہیں سمجھا جاسکتا۔ دو ہفتے قبل جامعہ کراچی کے آرٹس آڈیٹوریم میں سیمینار سے ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس غلام قادر تھیبو کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شہر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ رینجرز کے ٹارگٹڈ آپریشن کے تناظر میں سن دو ہزار تیرہ اور دو ہزار چودہ کے اعداد شمار کو پرکھا جائے تو قتل کے واقعات کا گراف 2013ء کے مقابلے میں نیچے ہی دکھائی دے گا۔ تاہم الیکٹرانک میڈیا کی ہیڈ لائنز سے لے کر اخبارات کی شہ سرخیوں میں جگہ بنانے والے ڈاکٹر وحید الرحمن کے قتل نے ٹارگٹڈ آپریشن کی کامیابیوں اور رینجرز و سندھ پولیس کی کامرانیوں کو دھندلا کردیا ہے۔

ڈاکٹر وحید الرحمن کا قتل ایک ایسے وقت میں ہوا، جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف کور ہیڈکوارٹرز کراچی کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ جہاں کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے انہیں کراچی آپریشن اور امن و امان کی موجودہ صورت حال پر بریفنگ دی۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’کراچی میں حالیہ ٹارگٹ کلنگ مخصوص منصوبہ بندی کے تحت ہو رہی ہے۔ سیکورٹی ادارے حکمت عملی پر نظر ثانی کریں۔ انہوں نے ٹارگٹ کلرز کے پشت پناہوں پر ہاتھ ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اور عوام کے ساتھ مل کر شہر قائد سے تمام مافیاز کا خاتمہ کیا جائے گا۔ شہر میں رینجرز آپریشن عوام اور حالات کی بہتری کے لیے ہے۔ ٹارگٹڈ آپریشن سے امن آ رہا ہے۔ جس سے ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے واقعات میں کمی ہوئی ہے‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیکورٹی ادارے امن و امان کے قیام کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ تاہم جب تک ٹارگٹ کلرز کے پشت پناہوں پر ہاتھ نہ ڈالا جائے اور مجرموں کی سزاؤں پر عمل درآمد نہ کروایا جائے صورت حال جوں کی توں رہے گی۔

کراچی میں گزشہ کئی ماہ سے سینئر اساتذہ کو بدستور نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر وحید الرحمن کے حالیہ قتل سے قبل ستمبر دو ہزار چودہ میں جامعہ کراچی کلیہ علوم اسلامیہ کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کو نشانہ بنایا گیا۔ اس سے ہفتہ قبل مولانا مسعود بیگ قتل ہوئے۔ جبکہ فروری دو ہزار چودہ میں میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید قاضی نارتھ ناظم آباد میں نشانہ بنے۔ اسی ماہ پرفیسر تقی ہادی بھی سخی حسن چورنگی پر فائرنگ کی زد میں آئے تھے۔ مارچ دو ہزار تیرہ میں لیاقت ڈگری کالج کے پرنسپل پروفیسر سبط حسین قتل ہوئے تھے۔

تحقیقاتی ادارے سینئر اساتذہ کے قتل پر مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کرتی رہی ہے۔ کراچی میں ہونے والے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں فرقہ واریت، رازداری اور سیاسی اختلافات کا ہمیشہ دخل رہا ہے۔ ڈاکٹر وحید الرحمن کو نشانہ بنانے کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہے، یہ وقت ہی بتائے گا۔ تاہم سیکورٹی اداروں کو سینئر اساتذہ کے قتل کی روک تھام کے لیے آخری حد تک جانا ہوگا۔ یہاں یہ امر بھی لائق تحسین ہے کہ ڈاکٹر وحیدا لرحمن کے قتل پر وزیراعظم نواز شریف اور صدر مملکت ممنون حسین نے بروقت نوٹس لیتے ہوئے سندھ حکومت سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں۔ شفاف تحقیقات کے ذریعے قاتلوں کو فوری گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

ڈاکٹر وحید الرحمن کے قتل پر وفاق اور سندھ حکومت کی پھرتیوں سے کیا نتیجہ اخذ ہوگا؟ یہ ان کی دلچسپی پر منحصر ہے۔ اگر ہم ماضی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو افسوس کے سوا کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ یہاں کمیشن بنتے ہیں اور معاملہ التوا کا شکار کردیا جاتا ہے۔ یعنی ہر کمیشن کا حشر سانحہ مشرقی پاکستان پر بننے والے حمودالرحمن کمیشن کی طرح ہوتا ہے۔ نوبزادہ لیاقت علی خان سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل تک بننے والے کمیشنوں کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ دکھ اس بات پر ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ بدامنی کراچی میں ہی پائی جاتی ہے۔ روشنیوں کا یہ شہر اندھیر نگری میں کیسے تبدیل ہوا؟ ذریعہ معاش کے لیے کراچی کا رخ کیا جاتا تھا۔ تعلیمی درسگاہیں یہاں کا حسن اور غریب پروری اس شہر کا خاصہ تھا۔ لیکن اب سب کچھ دھندلا ہوتا جا رہا ہے۔ اگر صورت حال پر قابو نہ پایا گیا اور ٹارگٹ کلرز اسی طرح دلیری دکھاتے رہے، تو اساتذہ سے طلبہ تک اور علمی حلقوں سے صحافتی حلقوں تک ہر جگہ یہی گونج سنائی دے گی کہ اے شہرِ قائد تجھے کس کی نظر لگ گئی کہ علم کے شہر میں دراڑ پڑگئی۔

Farooq Azam
About the Author: Farooq Azam Read More Articles by Farooq Azam: 7 Articles with 5279 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.