آزادی ء صحافت ۔۔آخر ہم کیا چاہتے ہیں۔۔؟

آزادی ء صحافت کے عالمی دن پر ایک کالم

پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہر سال 3مئی کو آزادی ء صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے ،بیشک!آزادی ء تحریر و تقریر ہر انسان کا بنیادی حق ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ۔ دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو ہر ممکن آزادی حاصل ہے اوراسی آزادی کے طفیل امریکہ میں صحافیوں نے ایک بڑے ’’واٹر گیٹ اسکینڈل‘‘ کو طشت ازبام کرکے وہاں کی ایک مضبوط حکومت کواقتدار سے الگ ہونے پر مجبور کر دیا تھا ۔ اس قسم کی آزاد اور صاف ستھری صحافت ان مغربی ممالک کا طرہ ء امتیاز ہے ۔ پاکستان میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور ِحکومت میں پریس کو کنٹرول کرنے کیلئے جو آرڈیننس 1963ء میں نافذ کیا گیا تھا صحافت سے وابستہ ہر فرد نے اسے ’’کالا قانون ‘‘ قرار دیتے ہوئے اُسے آزاد صحافت کا گلہ گھوٹنے سے تعبیر کیاتھا ۔ اس دور میں اسی آرڈیننس کا سہارا لے کربعض اخبارات کو بند بھی کیا جاتا رہا۔ لیکن اُس دور میں بھی روزنامہ ’’کوہستان‘‘کی اشاعت پر اس وقت کے گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان نے جب دوماہ کیلئے پابندی لگائی تو اس کے پس منظر میں ’’آزادیء صحافت ‘‘ کا کوئی معاملہ نہ تھا بلکہ اس وقت اسی اخبار سے وابستہ سازشی عناصرکے ایجنٹوں نے مذکورہ اخبار میں لاہور میں پولیس فائرنگ سے دو نوجوانوں کی ہلاکت بارے ایک قطعاً جھوٹی اور بے بنیاد خبرشائع کرا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی لیکن اُسے بھی’’آزادی ء صحافت ‘‘ کا رنگ دینے کوشش کی گئی ۔جبکہ اگر یہ خبر مبنی بر حقیقت بھی ہوتی تو اس کی اشاعت کی وجہ سے حکومت ایکشن لیتی تو یہ جواز بنتا تھا کہ’’حکومت نے آزادی ء صحافت کا گلہ گھونٹا ‘‘ ۔ ’’آزادی صحافت ‘‘ کا واویلہ کرنے والوں نے بعد ازاں بھٹو کی عوامی حکومت کا عذاب بھی سہا ، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی ہفت روزہ’’زندگی ‘‘ پر پابندی لگائی اور انگریزی اخبار ’’ڈان ‘‘ کے ایڈیٹر زیڈ اے سلہری کو ملازمت سے بر طرف کر دیا تھا لیکن کسی میں اتنی جراء ت نہ ہوئی کہ وہ اس پر صدائے احتجاج بلند کرتا ،ضیاء دور کی آمرانہ حکومت میں بھی سنسر سمیت دیگرکئی پابندیاں صحافیوں نے برداشت کیں۔حتیٰ کہ کوڑے بھی کھائے ،قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن المیہ یہ ہے کہ اس شعبے سے وابستہ افراد نے ہمیشہ ’’آزادی ء صحافت‘‘ کے نام پر وہ وہ کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں کہ جنہیں تحریر میں نہیں لایا جا سکتا ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ’’آزادی ء صحافت‘‘کیا ہے اور صحافی کس قسم کی آزادی چاہتے ہیں ۔ ؟ اس کو جواب سادہ سے الفاظ میں یہی ہے کہ ہمارے صحافی بھائی ۔اخلاقی اقدار سے عاری ’’مادرپدرآزاد صحافت‘‘ کے متمنی ہیں ۔۔کسی بھی شعبہ ء ہائے زندگی میں ’’اخلاقی اقدار کی پاسداری لازم ہوتی ہے ۔غیر اقوام بھی اپنے مذہبی عقائد کی روشنی میں اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتیں ،ماضی میں سخت ترین پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس 1963ء اپنی جگہ نافذ رہا ۔۔لیکن اُس دور میں قانون کی بالا دستی سے بڑھ کر صحافت سے وابستہ افراد نے اپنے لئے ازخود ایک ضابطہ ء اخلاق طے کر رکھا تھا جس کی وجہ سے اخبارات کسی کی ذاتیات کو موضوع بحث بنانے کی گریز کرتے تھے ۔ اُس وقت صحافیوں کی اکثریت قلم کی حرمت کی حقیقی معنوں میں پاسدار ہوتی تھی ،اخبار کا قاری بھی اسی بناء پر صحافیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔کوئی بھی شخص اخبارات میں چھپی ہوئی ’’خبر‘‘کوجھٹلا نہیں سکتا تھا ۔اصول صحافی اپنی خبر کی تردید کو گناہ تصور کرتے ۔گو کہ اس وقت بھی چند ایک صحافی مادر پدر آزادی کے خواہاں رہے لیکن وہ عوام میں زیادہ پذیرائی حاصل نہ کر پائے ۔

1990ء کے بعد صحافت میں یکدم تبدیلی آئی ، ’’بلیک میلنگ‘‘پھلنے پھولنے لگی ،قوم کی بہو بیٹیوں کی عزتوں کو اچھالا گیا ۔شرفاء کو’’بلیک میل‘‘کرکے دولت کمائی گئیں ۔ گو کہ اس روش سے بعض صحافی کروڑپتی بلکہ ارب پتی بن گئے ۔۔ایسے صحافی جو اپنی کمائی سے ایک سائیکل تک خریدنے کی پوزیشن میں نہ تھے ۔بڑے بڑے عالیشان محلات کے مالک بن گئے ۔ ڈبل کیبن گاڑیاں ، حفاظت کیلئے کئی کئی گارڈ رکھ لئے ، پبلک ڈیلنگ کیلئے ’’لیڈی سیکرٹریز‘‘رکھ لی گئی ۔ گویا لوگوں کی بُرائیاں چھاپ کر اور اُن پر پردہ ڈالنے تک کی قیمت وصول کی جانے لگی ۔ قوم کی بہو بیٹیوں کو’’عزتیں‘‘غیر محفوظ ہو گئیں ۔لیکن آج تک کسی نے یہ نہ سوچا کہ صحافیوں کی کریڈیبیلیٹی ‘‘(ساکھ)کہاں گئی ۔ قلم کی آزادی کے نام پر اب جو کچھ ’’میڈیا‘‘ مین کر رہا ہے وہ کسی المیے سے کم نہیں ۔ حکومتی سطح پر میڈیا کیلئے ایک’’ضابطہ ء اخلاق ‘‘ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اُس کی بھی بے حد مخالفت کی گئی ۔۔اپنے کسی’’گناہ‘‘ یا کارنامے کی وجہ سے مخالفین کے ہاتھوں مارے جانے ’’شہیدِصحافت‘‘ کا رتبہ پانے لگے ۔ غیر پیشہ ورلوگوں نے صحافت کا لبادہ اُوڑھ لیا ۔ وہ لوگ جنہیں ’’صحافت ‘‘کی ابجد سے ہی آگاہی نہیں انہوں نے بھی بڑے بڑے ’’اخباری گروپ‘‘بنا لئے ۔ یوں صحافت کا شعبہ اپنی اقدار کھونے لگا۔ عوام و خواص نے ’’میڈیا‘‘ پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا ۔ اس ساری صورتحال کا ذمہ دار کون ہے ؟ اس کو جواب شاہد دینا صحافی برادری کیلئے مشکل ہو ۔۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس تمام صورتحال کی ذمہ داری اُن بااثر صحافیوں پر عائد ہوتی ہے کہ جس نے خود آج تک صحافتی ضابطہ ء اخلاق کو لاگو کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ، خود بڑے ’’میڈیا گروپوں ‘‘نے اپنے سے کمزور صحافیوں کا استحصال کیا ۔اور اگر حکومت نے کبھی صحافت کو قاعدے قانون کا پابند بنانے کی کوشش کی تو اُس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں ۔

آج کا دن ہم سے اس امر کا متقاضی ہے کہ صحافت سے وابستہ افراد قلم کی حرمت کو مزید داغدار ہونے سے بچائیں ۔ قلم کی حرمت تو ماں کی عزت کی مانند ہے ، جب صحافت میں اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل جاتا ہے تو وہاں قوم کو کوئی تباہی سے نہیں بچا سکتا ۔۔ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے لئے از خود ایسا ’’اخلاقی ضابطہ اخلاق‘‘مرتب کریں کہ جس کی روشنی میں کام کرتے ہوئے ہمارا کھویا ہوا وقار بحال ہو سکے ۔لوگ ہمارے قلم سے نکلے ہوئے ایک ایک’’لفظ‘‘کی سچائی کا یقین کرنے لگیں اور ہمارے کالم ، خبر اور فیچرز کو پڑھ کر قاری یہ محسوس نہ کرے کہ خدا نخواستہ ہم کسی کو ’’بلیک میل ‘‘ کر رہے ہیں یا ہم لوگ اسلامی و اخلاقی اعلیٰ اقدار سے عاری ہو چکے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ شعبہ ء صحافت میں آنے والے افراد کی ہر ممکن تربیت کو یقینی بنایا جائے کیونکہ فی الوقت صورتحال اس قدر گھمبیر ہو چکی ہے کہ شعبہ ء صحافت سے وابستہ افراد اس بات سے بھی بے نیاز ہو کر اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں کہ اُن کی تحریر یا خبر کے مابعد اثرات کیا ہوں گے ۔ حق اور سچ لکھتے کی پاداش میں اگر کسی صحافی کو حکومت پابند سلاسل کر دیتی ہے یا وہ کسی ظالم کے ظلم کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے تو ایسا صحافی قابل تعظیم ہے لیکن اگر کسی غیر ذمہ دارانہ روش کی بناء پر کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو اس کا ذمہ دار وہ شخص خود ہے ۔ اس میں حکومت کے جاری کردہ قوانین یا ’’آزادیء صحافت ‘‘کا کوئی عمل دخل نہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔(ختم شد)۔۔۔۔۔۔

Syed Arif Saeed Bukhari
About the Author: Syed Arif Saeed Bukhari Read More Articles by Syed Arif Saeed Bukhari: 4 Articles with 3345 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.