کراچی میں ایس ایس پی ملیر راؤ
انوار نے ایک پریس کانفرنس کی، غلط کی یا درست کی، اپنے اختیارات سے تجاوز
کیا یا نہیں کیا، کانفرنس خود کی اور ملک کی محبت میں کی یا کسی کے کہنے پر
سیاسی بونچھال لانے کی خاطر کی یا کسی کے سیاسی مفادات کی خاطر کی یہ ایک
الگ بحث ہے جس پر سیاست دانوں ، قانون دانوں اور تجزیہ نگاروں نے اپنی رائے
کا کافی اظہار کر لیا ہے لیکن اس پر یس کانفرنس کا جواب جس بھونڈے، انتہائی
قابل اعتراض بلکہ ملک دشمن انداز میں الطاف حسین نے دیا وہ بذات خود
مجرمانہ فعل ہے یعنی کھلم کھلا ملک دشمن ہونے کا اعلان کیا گیا۔ ایسا پہلی
بار نہیں کیا گیا بلکہ اپنی کئی دوسری تقاریر میں نجانے کس حالت میں وہ
ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارا پورا الیکٹرانک
میڈیا یر غمال بنا پوری قوم کو سمجھ سے بالا تر آواز اور انداز کی تقریر
سنوارہا ہوتا ہے کیوں کہ کوئی بھی چینل کسی ناخوشگوار واقعے کا متحمل نہیں
ہو سکتا۔ اس بار بھی پورا میڈیا یر غمال بنا ہوا تھا الطاف حسین بول رہا
تھا اور پوری قوم سن رہی تھی کہ کیسے ایک پولیس آفیسر کی باتوں کا جواب
دیتے دیتے بات ملک کی مخالفت اور حسب سابق فوج کے خلاف تعصب پر پہنچ گئی۔
ایم کیو ایم جو خود کو ایک بڑی قومی جماعت کہلاتی ہے اور ایسا بھی وہ صرف
اپنے سیاسی مفادات کی خاطر کرتی ہے ورنہ جب اُس کے خلاف سیاسی طور پر بھی
بات کی جائے وہ اسے اردو بولنے والوں کے خلاف قرار دے کر متحدہ سے مہاجر
قومی مومنٹ بن جاتی ہے اور فساد اور نقص امن پر نہ صرف آمادہ ہو جاتی ہے
بلکہ اپنے ووٹرز اور تمام اردو بولنے والوں کو ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
پارٹی کے سربراہ اکثر مغلظات بولتے ہوئے نظر آتے ہیں اس بار بھی ایس ایس پی
راؤ انوار کے بارے میں ایسا کیا گیا اور جو باتیں مہذب لوگ تنہائی میں بھی
نہیں کرتے وہ جلسۂ عام میں کی گئی لیکن اس بات سے بھی آگے بڑھ کر فوج کے
بارے میں جس رائے کا اظہار کیا گیا اس کی کوئی توجیہہ ایم کیو ایم پیش نہیں
کر سکتی اور پھر مزید آگے بڑھ کر ہماری سب سے بڑی دشمن انٹیلجنس ایجنسی
یعنی ’’را‘‘ کو درخواست پیش کی گئی کہ وہ اُن کی مدد کرے تاکہ وہ لوگوں کو
بتا سکیں کہ’’ را‘‘کی مدد حاصل ہو تو وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ الطاف بھائی
نے تو جو کچھ ان کے دل میں تھا وہ فرمادیا سونے پر سہاگہ یہ ہو جاتا ہے کہ
ان کی رابطہ کمیٹی ان کے بیانات کی تو جیہات پیش کرنا شروع کر دیتی ہے
باالفاظ دیگر اُن کے بیانات کو درست قرار دینے لگتی ہے۔ یہ بات کسی سے چھپی
ہوئی نہیں ہے کہ ایم کیو ایم میں ملک دشمن عناصر کثیر تعداد میں موجود ہیں
۔ کراچی کے حالات کی بہت زیادہ ذمہ داری ایم کیو ایم پر عاید ہوتی ہے جب یہ
جماعت چاہتی ہے تو کراچی بند ہوجاتا ہے اور اربوں کا نقصان کروا دیا جاتا
ہے کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ اس کی مرضی کے بغیر کاروبار کر سکے، کوئی میڈیا
گروپ اُس کے خلاف کھل کر نہیں بول سکتا اگر چہ اس خوف میں کچھ کمی ضرور آئی
ہے لیکن اب بھی کچھ ہی لوگ یہ ہمت کرتے ہیں ۔اردو بولنے والوں کی اکثریت
اِن سے اس قدر خوف زدہ ہے کہ وہ اُن کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہنے پر
مجبور ہے اور ایسے میں جب الطاف حسین انہیں عسکری اور جسمانی تربیت حاصل
کرنے کے لیے اُکسا رہے ہیں، دریائے سندھ کو خون سے سرخ کرنے کی بات کر رہے
ہیں تو کیا اس کا کوئی اثر نہ ہوگا ۔حسب معمول اس بیہودہ گفتگو پر الطاف
حسین نے معذرت کر لی اور ان کی رابطہ کمیٹی نے کہا کہ تقریر کو سیاق و سباق
کے بغیر لیا جا رہا ہے حالانکہ تقریر کو براہ راست نشر کیا گیا لہٰذا سیاق
و سباق کے غلط ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں مشورہ یہ ہے کہ ایم
کیو ایم اپنے اصل منشور میں تبدیلی پیدا کرلے اور ساتھ ہی اپنے لیڈر بھی
بدل دے اور یا کراچی کے عوام کو آزاد کر دے تاکہ یہ مخلص اور سچے پاکستانی
اپنے ملک ،اپنی فوج یا دیگر اداروں کے بارے میں یہ متعصبانہ کلمات آئندہ نہ
سنیں۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جن کے آباو اجداد نے اس ملک کی خاطر اپنے گھر بار
چھوڑے اور دو قومی نظریے کو اپنے عمل سے سچا کر دکھایا پھر ان میں ملک دشمن
عناصر کہاں سے داخل ہوئے جو آج ’’را‘‘ سے مدد مانگ رہے ہیں کیا وہ لوگ اپنے
بزرگوں کے خون سے غداری نہیں کر رہے۔ جہاں تک مہاجر کے نام پر سیاست کا
تعلق ہے تو آخر کب تک اس لفظ کو بنیاد بنا کر لوگوں کے جذبات سے کھیلا جائے
گا اس اعزاز پر فخر کرنا اور بات ہے اور اس کے نام پر لوگوں میں احساس
محرومی پیدا کرنا اور بات ۔جب’’ الطاف حسین اینڈ کو‘‘ مہاجروں کی محرومی کی
بات کرتے ہیں توکیا پاکستان کے باقی لوگوں، صوبوں اور شہروں میں تمام
محرمیاں ختم ہو گئی ہیں ،کیا یہاں ہر ایک کو نوکری، بجلی، پانی، گیس، چھت ،
تعلیم سب کچھ میسر ہو گیا ہے۔ کراچی تو پاکستان کا سب سے زیادہ سہولتوں
والا شہر ہے جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ
نہ صرف خواندگی بلکہ تعلیم کی سب سے زیادہ شرح انہی میں ہے۔ کئی مہاجر
اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں اور اب بھی ہیں چاہے وہ اردو بولنے والے مہاجر
ہیں یا پنجابی بولنے والے ۔ اور اب تواِن کے لیے یہ لفظ زیادہ موزوں بھی
نہیں کہ تیسری چوتھی نسل جب ایک زمین پر پیدا ہو جائے تو اُسے زمین کا بیٹا
کہلانے پر فخر کرنا چاہیے، اُسے لوگوں کو حُب الوطنی کا درس دینا چاہیے نہ
کہ دشمن سے مدد مانگنے کی ترغیب ۔ اب اگر رابطہ کمیٹی ’’را‘‘ کو دشمن اور
پاکستان اور خاص کر بلوچستان میں گڑ بڑ کی ذمہ دار قرار دے رہی ہے جو دراصل
بلوچستان اسمبلی کی اُس قرارداد کا رد عمل ہے جس میں ایم کیو ایم پر پابندی
کا مطالبہ کیا گیا لیکن چلیے یوں ہی سہی کہ اُنہوں نے اُسے دشمن مان ہی لیا
ہے تو بھی وہ پہلے اپنے لیڈر کی تقریر کا متن کیوں نہیں دیکھ لیتی، کیوں ان
کی ذہنی صحت کا یقین نہیں کیا جاتا ،کیوں انہیں یہ بات نہیں سمجھائی جاتی
کہ معافی آخر کتنی بار۔ ہمارے حکمران اور سیاستدان اگر فوری معافی، معذرت
کو احسن اقدام قرار دے کر قبول کر لیا کریں گے تو پھر تو یہ روش عام ہو
جائے گی اور کسی دن معافی مانگنے سے پہلے ہی مدد آپہنچے گی پھر اُس صورت
حال کا تدارک کون کرے گا اور کیا یہ ممکن بھی ہوگا یا نہیں کہ دریا سندھ کو
سرخ ہونے سے روک دیا جائے۔ کراچی میں بہت خون بہا یا جا چکا اب مزید کی
گنجائش نہیں ہے لہٰذا معافی تلافی سے پہلے ہی اگر معاملات کو سنبھال لیا
جائے تو ایم کیو ایم ، کراچی اور پاکستان سب کے حق میں بہتر ہوگا ۔ لہٰذا
ایک بار پھر مشورہ ہے کہ الطاف حسین اینڈ کمپنی احتیاط کیجئے۔ |