امتحانات میں نقل کارجحان
(شکیل اختر رانا, karachi)
سب سے پہلے آپ تعصب کا چشمہ اتار
کر تھوڑی دیر کے لیے میز پہ دھریں،پھر دماغ سے نفرت،ضد،بغض اورحسد کو تھوڑی
دیر کے لیے جھٹک دیں، ٹھنڈا پانی پییں اور صبر وتحمل سے میری بات سنیں،اس
کے بعد آپ خود فیصلہ کریں کہ قوم کے مستقبل کے ساتھ سنگین مذاق کون کررہا
ہے،آج الیکٹرانک میڈیا کے ائیر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر قوم کے مستقبل پہ
طویل لیکچر جهاڑنے والے تجزیہ کاروں سے لے کر پرنٹ اور سوشل میڈیا کے
دانشوروں تک ہر کوئی پنجے جھاڑ کر مدارس کے پیچھے پڑا ہوا ہے کہ مدارس قوم
کے مستقبل کو تاریک کرنے میں مشغول ہیں،کسی کو مدارس کے نصاب پر تحفظات ہیں
تو کسی کو اہل مدارس کے حلیے اور لباس سے خدا واسطے کا بیر ہے.....
اس بات سے انکار کرنا ممکن نہیں کہ مدارس کے نصاب اور نظام میں بہت سی
تبدیلیوں کی گنجائش اور ضرورت موجود ہے،مگر بات اتنی بهی سنگین نہیں جتنی
سنگین بناکر پیش کی جارہی ہے،اس وقت ملک کے اندر جتنے بهی تعلیمی نظام چل
رہے ہیں،ان سب میں اصلاحات کی گنجائش ہے،مگر المیہ یہ ہے کہ مدارس کو تنقید
کا نشانہ بنانے والا طبقہ عصری تعلیمی اداروں کے سے تو آنکھیں پھیر رہا
ہے،جن پر سالانہ اربوں روپے صرف کیے جاتے ہیں،کسی بهی تعلیمی نظام کے اندر
امتحان کا نظام کسوٹی کی حیثیت رکھتا ہے، جس نظام تعلیم کا امتحانی نظام
جتنا اچها ہوگا وہ نظام اس قدر زیادہ کامیاب ہوگا،میں چونکہ دینی و عصری
دونوں علوم کے امتحانی نظام کا بچشم خود مشاہدہ کر چکا ہوں اس لیے بات آگے
بڑھانے سے پہلے اپنے سامنے پیش آنے والے دو واقعات کا تذکرہ کرنا چاہتا
ہوں،تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو جائے کہ کون سے تعلیمی نظام کے پرچارک
مستقبل کے معماروں کی بنیاد فکر کو مسمار کرنے میں مصروف عمل ہیں....
یہ سنہ 2009 کا ذکر ہے،گھر والوں کی تحریک اور دوستوں کے مشورے سے میں نے
کراچی بورڈ سے نویں جماعت کآ امتحان دینے کا فیصلہ کرلیا،کچھ دوستوں کے
مشورے سے یہ طے ہوا کہ داخلہ کسی اسکول سے بهیجنا چاہیے تاکہ ریگولر
سرٹیفکیٹ حاصل کیا جاسکے،چنانچہ داخلے کے لیےسب سے پہلے ہم ایک قریبی اسکول
میں پہنچ گئے، مختصر گفت و شنید کے بعد بورڈ کی جانب سے مقررہ فیس سے دو
گناہ زیادہ فیس کا مطالبہ کرتے ہوئے ہمیں اس بات کی گارنٹی دی گئی کہ دوران
امتحان آپ کو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی،ہم نے لاکھ کہا کہ ہمیں کسی غیر
قانونی غیبی مدد کی چنداں ضرورت نہیں،ہم اپنی محنت اور اللہ تعالی کی
مہربانی سے امتحان پاس کرنا چاہتے ہیں،جواب ملا کہ اگر ہمارے اسکول سے
امتحان دینا ہے تو اتنے پیسے بھرنے پڑیں گے،ورنہ آپ بخوشی کسی اور اسکول کا
رخ کرسکتے ہیں،ہم نے پورے ٹائون کے ایک ایک اسکول میں جاکر اپنادکھڑا
سنایا، مگر کہیں شنوائی نہیں ہوئی،بالآخرایک اسکول کی پالیسی کے آگے ڈیر
ہوگئے،اور دو گنا فیس دے کر نویں جماعت کے لیے داخلہ لے لیا اور امتحان کی
تیاری میں منہمک ہوگئے،مقررہ تارٰیخ پہ امتحان شروع ہوا،امتحان حال پہنچے
تو 500 روپے مزید جمع کروانے کا حکم دیا گیا،یہاں بھی ان کا حکم بجا لانے
پہ مجبور ہوئے،پیسے دیتے ہی ،امتحان کا وقت شروع ہوئے ابھی آدھا گھنٹہ نہیں
گزرا تھا،کہ امتحان حال میں ایک ہڑبونگ مچ گئی،پہلے تو تمام طلباء اپنے جسم
کے پوشیدہ جگہوں سے کتابیں اور نوٹس برآمد کرنے لگے،اس کے ساتھ ہی امتحان
حال اتورا بازار کا منظر پیش کرنے لگا،ہم منہ میں انگلیاں داب کر یہ منظر
یہ دیکھتے رہ گئے،مستقبل کے معمار کتابوں کی ایسی تیسی کرتے ہوئے صفحات
کالے کرنے مین مصروف تھے، بچوں کا مستقبل جن کے ہاتھ میں تھا وہ صم بکم عمی
کی عملی تصویر بن دیواروں سے لگ کر بیٹھ گئے تھے،علم ،عمل،اخلاق اور تہزیب
کی دھجیاں اڑ رہی تھیں،کچھ دیر اس صورت حال کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہم
خاموشی سے اپنا پیپر حل کرنے میں مصروف ہوگئے،قریبی کرسیوں پہ براجمان اپنے
آپ کو خدا کو اور اپنے ماں باپ کو دھوکہ دینے والے کچھ انسانوں نے ہمیں بھی
تعاون کی پیش کش کی مگر ہم نے نفرت سے ناک بھوں چڑاکر پیشکش ٹھکرادی،اسی
ادھیڑ بن میں امتحان کا وقت ختم ہوا،اور ہم حیرت کے سمندر میں غوطے کھاتے
ہوئے واپس آگئے،اگلے دن تو حد ہی ہوگئی،ریاضی کا پرچہ تھا،جب 30 منٹ والا
مختصر سوال و جواب والا پرچہ تھمادیا گیا تو امتحان حال مین ایک شور و غوغا
مچ گیا، یہ صورت حال بھانپ کر ایک سفید ریش ممتحن مارکر تھام کر بلیک بورڈ
کی جانب بڑے،اسے دیکھ کر تمام طلباء خاموش ہوئے،اور 5 منٹ کے اندر اندر اس
نے تمام سوالوں کا جواب بورڈ پہ چھاپ دیا اور کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے جاکر
اپنی سیٹ پہ براجمان ہوا،سب طلباء خوشی سے چہک اٹھے اور ان جوابات کو اپنے
اپنے کھاتے میں نقل کرنے لگے،اس کش مکش میں پورا امتحان گزرا اور محکمہ
تعلیم کے کسی آفیسر کے کان پر جوں تک نہیں رینکی...
اب دوسرا واقعہ سنیے اور سر دھنئے
یہ 2002 کا واقعہ ہے اسلام آباد کے ایک معروف مدرسے میں میں وفاق المدارس
العربیہ کے تحت سالانہ امتحان کا آخری پیپر ہورہا تھا،مختلف جماعتوں کے
طلباء سے امتحان حال بھر ہوا تھا،اس قدر خاموشی چھائی ہوئی تھی کہ یوں
محسوس ہوتا تھا جیسے وہاں کوئی انسان نامی مخلوق موجود ہی نہیں،سب طلباء
سکون سے اپنے پرچے حل کرنے میں مصروف تھے،پرچہ حل کرنے کا مقررہ وقت ختم
ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا،ہر طالب علم مکمل انہماک کے ساتھ اس کوشش
میں لگا تھا کہ وقت پورا ہونے سے پہلے پلے وہ تما سوالات حل کرے،اچانک
امتحان حال کے مشرقی دروازے کی جانب سے اٹھنے والے ایک شور نے سب کو اس
جانب متوجہ کردیا،یہ دیکھ کر سب کا دل دھک دھک کرنے لگا کہ خدا معلوم کیا
ماجرا ہوا ہے، اتنے میں ہم نے دیکھا کہ ایک سینئر استاد نے ایک طالب کو
پکڑا ہوا ہے اور اس کو ڈانٹے ہوئے نگران کی جانب لے جارہا ہے، اس کے بعد
تمام طلبا خاموشی سے اپنے پیپر حل کرنے لگے، بعد میں پتہ چلا کہ اس طالب
علم سے نقل کی ایک پرچی برآمد ہوئی تھی، جس کی پاداش میں اس کے تمام پرچے
منسوخ کردیے گئے ہیں..
یہ صرف دو واقعات نہیں، بلکہ دو مختلف نظام ہائے تعلیم کا اصلی چہرہ ہے، اب
ان کے وا قعات پہ غور کرنے کے بعد خود فیصلہ کریں، کہ کونسے تعلیمی ادارے
ملک و قوم کے مستقبل کے ساتھ کهیل رہے ہیں،اور کون سے ادارے ملک و قوم کو
بہتر افراد فراہم کررہے،اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس وقت مدارس کا جو
نظام چل رہا ہے وہ حرف آخر ہے اور اس میں کسی تبدیلی کی گنجائش موجود نہیں،
بلکہ بہت سے ایسے موضوعات کو فی الفور جگہ دینے کی ضرورت ہے، جن کے بغیر
مدارس کے فضلا کرام معاشرے میں مثبت کردار اداکرنے سے قاصر رہتے ہیں،مگر یہ
بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مدارس کا تعلیمی نظام عصری تعلیمی نظام
سے بہت بہتر ہے، اس لیے حکو مت کو چاہیے کہ جہاں اربوں روپے تعلیم پہ خرچ
کررہی ہے وہاں کچھ نظر امتحانی نظام پہ بھی رکھے، |
|