(آزادی ء نسواں ایک فریب یا حقیقت (تیسرا حصہ

عورت کے لیے حجاب کا حکم قرآن میں آیا.اسکی مفصل تشریح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں بیان ہے اور اسکا عملی مظاہرہ ازواج مطہرات اور صحابیات کی عملا زندگی میں ملتا ہے..مگر ہوتا تو یہ ہے اکثر اس پر بھی کئ اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں جیسے جی یہ تو پرانے وقتوں کی بات تھی آج کل کی زندگی میں اسکا عملا نفاذ ممکن نہیں.یا وہ لوگ گویا آسمانی مخلوق تھے نعوذ باللہ ہم سے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا آج کل کی زندگی بہت مصروف ہے اور یہ سب پابندیاں برداشت نہیں کرسکتی.پہلے شاید انکے پاس اور کوئ کام نہیں ہوتا تھا وغیرہ وغیرہ ...یہ یقیننا ذہنی جاہلانہ سوچ کی نمائندگی کرتی یے.لاکھ آپ پڑھے لکھے ہوں جب تک اخلاقی اور ذہنی پسماندگی سے نجات حاصل نہیں کریں گے. آپ کبھی بھی ایک ترقی یافتہ ملک کے باشندے نہیں کہلائیں گے.

اور رہا ان اعتراضات کا جواب تو ایسے یا اس سے کہیں زیادہ اعتراضات اور مخالفت جا سامنا ہمارے نبی اور انکے رفقاء سامنا کرتے آئیں ہیں. اور یہ بات تو تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ انکی زندگی آپکی اس جدید الیکٹرانک اور سہل زندگی سے بہت زیادہ مشکل اور مصائب سے بھرپور تھی تو جب وہ ان سب کے باوجود حکم الہی پر کاربند رہ سکتے ہیں تو جی آپ کیوں نہیں..شاید آزمائش اسی کا نام ہے. اور اللہ تبارک نے جنت جیسا بیش بہا انعام ایسے ہی تو نہیں رکھ دیا

اک حقیقت ہے بس وہ باقی فانی ہے جہاں
رضا مقصود ہے تو کردار میں مومن ہو جا
حیاء غزل

اہل مغرب کا پروپگینڈا کہ عورتوں کے ساتھ اسلامی معاشرہ میں بڑا ظالمانہ سلوک روا رکھا جارہا ہے.انکو گھرون سے نکلنے کی آزادی نہیں.انکے چہرے پر نقاب ڈال کر انھیں کارٹون بنا دیا گیا ہے.یہ مسلمان پسماندہ قوم ہیں.رجعت پسند،دقیانوس ہیں.انہوں نے عام آدمی کو زندگی کی راحتوں سے محروم کردیا ہے.اگر آپ ان طعنوں سے مرعوب ہوکر انکی رائج کردہ اصولوں کو اپنی زندگی میں شامل بھی کرلیں گے تب بھی آپ انکے لیے تیسرے درجے کے ہی شہری رہیں گے.اور دنیائے اسلام سے انکی صدیوں سے چلتی مخالفت کوئ ڈھکی چھپی بات نہیں.وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ وہی قوم ہے جو اپنی روایات اور اپنے دین کے نفاذ کے لیے عملا جاگ گئ تو پوری دنیا میں سپر پاورز کاتصور ہی ختم ہوجائے گا.آج بھی ایک بہترین ماڈل جمہوری حکومت کا جو تصور پیش کیا جاتا ہے وہ آج سے کئ سو سال پہلے محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے حق تعالی نے پیش کردیا تھا.اور یہ بات تو روز اول سے سب پر عیاں کردی گئ کہ خواتین رشتے دار، عمر رسیدہ حضرات جن میں والدین بھی شامل ہیں.اساتذہ بچے، نادار، یتیم، مساکین غرض ایسی لمبی فہرست ہے جن سے بہترین حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے بلکہ انھیں حقوق العباد کا درجہ دیا گیا ہے اور قیامت کے دن پہلا سوال بھی اسی کے بارے میں ہوگا.آپ اپنی زندگی میں بہت پرہیزگار ہوں پر حقوق العباد کی ادائیگی صحیح طور پر نہ کرتے ہوں تو یقین جانیے اپکی عبادات آپکو اپنے احتساب سے بلکل نہیں بچا سکتیں.

قرآن کریم میں سورت المطففین کی آیت نمبر:۳۴ مین اللہ تبارک نے یہی بیان فرمایا ہے کہ یہ کفار مسلمانوں کے ساتھ دنیا میں تو یہ معاملہ کرتے ہیں کہ انکو دیکھ کر انکی ہنسی مذاق اڑاتے ہین اور جب انکے پاس سے کوئ مسلمان گذرتا ہے تو یہ لوگ ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہیں کہ دیکھو مسلمان جا رہا ہے.

لیکن جب یوم حساب آئے گا تو اہل ایمان انہی کفار پر ہنس رہے ہوں گے.گر آپ خود کو مسلمان کہتے ہو ایک اللہ پر یقین اور ایمان رکھتے ہو تو یقین رکھو کہ یہ سب بجز چند دن کے تماشے کے کچھ نہیں ان سے مرعوب ہوکر یا ڈر کر اپنی آخرت کی فلاح و بہبود کا راستہ نہیں چھوڑو.صراط مستقیم پر کاربند رہنا آسان نہیں پر جس نے یہ راستہ پکڑ لیا اس پر اللہ دونوں جہان کی نعمتوں کاحصول ممکن کردیتا ہے.یہ اور بات ہے.جو اسکا ہوگیا پھر اسکے آگے یہ سب غیر اہم ہوجاتا ہے.

مغرب کو یہ تصور اپنے معاشرے میں رائج کرنے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی.

اگر یہ بات ہم خود انکے ناقدین کی رائے کی شکل میں پیش کریں تو شاید آپ زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں.


پرو سٹرائیکا.... سوویت یونین کے آخری صدر گوربا چوف کی مشہور کتاب
-----------------------------------------------
پرو سٹرائیکا گورباچوف کی ایک شائع شدہ مشہور کتاب ہے جو شاید انکی یونیورسٹیون میں بھی ڈسکشن کے لیے شامل کی جاتی ہے.اس کتاب کا ایک باب ہے.جو عورتوں کے بارے مین ہے جس کا نام ہے.
"STATUS OF WOMEN"
اس میں اس نے اپنے معاشرے کے اس رحجان کو دیکھئے کس طرح تنقید کا نشانہ بنایا ہے. ملاحضہ ہو. ترجمہ.............

ہماری مغرب کی سوسائٹی میں عورت کو گھر سے باہر نکالا گیا،اور اسکو گھر سے نکالنے میں ہم نے کچھ معاشی فوائد حاصل کیے اور پیداوار میں بھی اضافہ ہوا،اسلیئے کہ مرد بھی کام کررہے تھے اور عورتیں بھی کام کررہیں تھین.لیکن پیداوار کے زیادہ ہونے کے باوجود اسکا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوگیا،اور اس فیملی سسٹم کے تباہ ہونے کے نتیجے میں ہمیں جو نقصانات اٹھانے پڑے ہیں،وہ نقصانات ان فوائد سے زیادہ ہیں جو پروڈکشن کے اضافہ کے نتیجے میں ہمیں حاصل ہوئے،

لہذا! میں اپنے ملک میں "پرو سڑائیکا"کے نام سے ایک تحریک شروع کررہا ہوں.اس میں میرا ایک بہت بنیادی مقصد یہ ہء کہ وہ عورت جو گھر سے باہر نکل چکی ہے،اسکو واپس گھر کیسے لایا جائے،اسکے طریقے سوچنے پڑین گے،ورنہ ہمارا جسطرح فیملی سسٹم تباہ ہوچکا ہے،اسی طرح ہماری پوری قوم تباہ ہوجائے گی"
) بشکریہ جنس،جوانی،اسلاماور جدید سائنس...المعروف حکیم محمد طارق


بچے کی پہلی تربیت گاہ اسکا گھر اور اسکی ماں کی گود کو قرار دیا جاتا ہے.لیکن جدید تصور نے بچے سے یہ تربیت گاہ چھین کر اسے چائلد کیئر اداروں کے نئے رحجان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے.باپ کہین اور ماں کہیں اور کام کررہے ہوتے ہین اپسی رابطے کمزور پڑرہے ہیں.بعض اوقات گھر کی اندرونی رنجشیں اس حد تک بڑھ جاتی ہیں کہ نوبت رشتوں کے اختتام تک پہنچ جاتی ہے کیا اس صورت مین اپ اس بچے سے توقع کرین گے کہ وہ معاشرے کا ایک باصلاحیت اور ذمہ دار رکن بنکر سامنے آئے.

شاید بنظر غائر دیکھا جائے.تو معاشرے کی بڑھتی ہوئ اخلاقی گراوٹ کا ایک سب یہ بھی ہے.معاشرہ تیزی سے تباہی کی طرف جارہا ہے. ہم جنس پر ستی،بچوں کے جنسیانہ فعل، عورتوں کے بد جنسی فعل پیسے کما.ے کی دوڑ میں شامل ہو کر ہر ناجائز راستہ اختیار کرنا، حلال و حرام کی تمیز کھو دینا، معاشرتی روابط کا فقدان، آئے دن قتل و غارت گری کی بڑھتی ہوئ روش اس بات کی طرف اشارہ ہے.کہ تربیت گاہ جو ازل سے ایک بچے کا حق ہے خدا تعالی کی طرف سے وہ چھین لی گئ ہے.اب اسکا نتیجہ معاشرے کے بگاڑ کی صورت میں سامنے ارہا ہے...اج کا سب سے نفع بخش کاروبار بھی یہی ہے جس میں عورت اپنے جسم کے ایک ایک عضو کو ایسی پروڈکٹ کے لیئے نیلام کرتی ہے تصاویر کی صورت میں جس سے اسکا مطلق تعلق بھی نہین ہوتا...جی ہاں عرف عام میں اسے ایک باعزت پیشہ یعنی ماڈلنگ کے نام کے ساتھ قرار دیا جاتا یے.وہ ایک فوٹو شوٹ کے ذریعے اتنا کمالیتی ہے جتنا آپ سال بھر محنت کرکے بھی نہیں کنا سکتے.یہ جسم فروشی کی ایک جدید شکل ہے.جسے ایک باعزت پیشہ سمجھ کر ہماری بہنیں بہت خوشی سے اپناتی ہیں.درحقیقت عورت ایک بکاؤ مال بن چکی ہے.

اور اس نے اپنی حقیقی عزت اوف قدرو منزلت کھو دی ہے.

میں یہ نہیں کہتی کہ عورتوں کو بالکل گھر میں بٹھا دو یا انکے گھر سے باہر نکل کر معاشی جدوجہد کرنا گناہ ہے.یقیننا آج کل کے معاشی حالات نے خواتین کو کافی حد تک مجبور کردیا ہے کہ انکے پاس اسکے سوا دوسرا کوئ چارہ ہی نہین.مگر اسکے لیئے اگر اپ اپنے مذہب اسلام کا تفصیلی مطالعہ کریں تو اپ کو ان اخلاقی اصول اور ضوابط سے آگاہی ہو گی. جن پر عمل کرکے آپ اپنے گھر کو بھی احسن طریقے سے چلا سکتی ہیں.اور معاشرے کی ان خرابیوں سے بھی بہتر طور ہر بچ سکتیں ہیں.یاد رکھیے جتنا ان معاملات کو ہمارے دین میں سہل کیا گیا یے وہ کسی اور دین یا معاشرے میں نہیں.ہم وقتا فوقتا مختلف موضوعات کے ذریعے اس کا تفصیلی جائزہ لیتے رہیں گے.
جبتک کے لیئے اجازت دیجیئے.
شکریہ
حیاء غزل
Haya Ghazal
About the Author: Haya Ghazal Read More Articles by Haya Ghazal: 65 Articles with 88166 views I am freelancer poetess & witer on hamareweb. I work in Monthaliy International Magzin as a buti tips incharch.otherwise i write poetry on fb poerty p.. View More