علم عقل سے آتا ہے عمر سے نہیں

علم انسانی زندگی میں پہلے سے موجود تجربات میں نئے اضافے کا نام ہے ۔کوئی ایسی جیز جو یا داشت کا حصہ بن جائے جسکا پہلے سے ادراک نہ ہو تو اسے علم کہتے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے حصول کے لئے عقل کی ضرورت ہے یا پھر عمر کی ۔ اگر علم شعور اور آگہی کا نام ہے تو پھر بعض لوگ بڑھاپے تک ویسے کے ویسے کیوں رہتے ہیں ؟جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ ذہنی نشونماایک خود کار عمل ہے ۔بعض ماہرین کے نزدیک علم کا معتبر ذریعہ عقل ہے ۔

ذرائع علم میں استاد یعنی بزرگوں سے حاصل شدہ علم کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ ان کے نزدیک بزرگی علم کی معراج ہوا کرتی ۔ اس طبقہ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک کم عقل انسان بھی سمجھ دار اور باشعور بن جاتاہے ۔ خود ارسطو کا کہنا ہے کہ پختگی عقل سے نہیں تجربات سے آتی ہے ۔ اب یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ تجربات کا تعلق عمر سے ہے یا عقل سے؟ بحرکیف اس گتھی کو سلجھانے کے لئے عظیم دانشوروں کی معاونت لیتے ہیں ۔

علامہ محمد اقبال کے نزدیک بحث عقل اور عمر کی نہیں بلکہ عقل اور عشق کی ہے ۔ ان کے نزدیک عشق کی سیڑھی پر عقل کے ذریعے آپ قدم نہیں رکھ سکتے۔ علم کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک تبدیلی کا نام ہے چاہے وہ عقل سے آئے یا عمر سے۔

مولا نا رومی فرماتے ہیں کہ عقل کے بغیر علم جانوروں اور انسانوں کے درمیان فرق نہیں مٹا سکتا ۔ ایک انگریزی نشر نگار الڈس ہگزلے کا کہنا ہے کہ علم کے لئے صرف عقل کی نہیں بلکہ بصیرت کی ضرورت بھی ہوتی ہے ۔

بیکن لکھتا ہے کہ عمر کے ساتھ ہی عقل میں پختگی آتی ہے اور عقل میں پختگی سے علم میں اضافے کا عمل تیز ہو جاتا ہے ۔

دانا ؤ ں کا قول ہے کہ علم کے لئے عقل بھی ضروری ہے اور عمر بھی ۔

اب ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں اس امر کا کہ عمر کے ساتھ ساتھ حاصل کیا جانیواے علم اور عقل کے ذریعے حاصل کئے جانیوالے علم میں واضح فرق کیا ہے ۔
1۔ عقلی علم ارادی جبکہ عمر کے ساتھ جو علم ہوتا ہے وہ غیر ارادی یا حادثتاً ہوتا ہے ۔
2 ۔ عقل کے ذریعے آپ انتہائی اعلیٰ درجے کا علم حاصل کرسکتے ہیں جبکہ عمر کے ساتھ ساتھ روزمرہ کا اور معمولی نوعیت کا علم حاصل ہوتا ہے ۔
3۔ عقل دانائی کی علامت ہے جبکہ بڑھاپے میں حافظہ کمزور ہو جاتا ہے
4۔ عقل سے حاصل شدہ علم دیر پا جبکہ عمر کے ساتھ ساتھ انسانی سوچ تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔اور ہر دور کی پسند اور نا پسند میں فرق آجاتاہے ۔
5۔ عمر کے ساتھ اگر علم مشروط ہو تا تو سابقہ امتوں کے لوگ بہت زیادہ عالم اور فاضل ہوتے جنکی عمر یں آٹھ سو سال سے ایک ہزار سال تک ہوتی تھیں جبکہ آج اس دور کودورِ جہالت قرار دیا جاتا ۔
6۔ تسخیر کا ئنات کے لئے علم اور عقل دونوں کو لازم الملزوم قرار دیا گیا ہے ۔
7۔ قرآن پاک میں بار بار علم اور عقل کو ایک ہی درجہ دیا گیا ہے بعنی علم رکھنے والے لوگ اور عقل رکھنے والے لوگ ایک ہی ہیں ۔ اور اس کائنات میں نشانیاں ہیں صرف عقل مندوں کے لئے ۔
8۔ ماہرین نفسیات کے نزدیک عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ قد اور وزن میں اضافہ ہوتا ہے علم میں ضروری نہیں ۔
9۔ اگر ہم مانتے ہیں کہ علم کا خزانہ کتابیں ہی ہیں تو یقیناًان کتابوں کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے ناکہ بوڑھوں کی ۔
10۔ علم کے لئے اگر عقل کی بجائے عمر کی ہی شرط ہوتی تو زیادہ عمر کے جانوروں کے پاس سب سے زیادہ علم ہوتا ۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زیادہ عقل رکھنے والے لوگوں کی ہی علوم وفنون کی دنیا میں حکمرانی ہے ۔ رب کائنات نے خود قرآن پاک میں فرمایاکہ ، ہم نے عقل سے بہتر کو ئی چیز پیدا نہیں کی ۔موجودہ سائنسی دور کا عروج صرف اور صرف اعلیٰ ذہن رکھنے والے لوگوں کے کارناموں کی عکاسی کرتا ہے۔ انسان کو اس کائنات میں اشرف المخلوقات کا درجہ صرف عقل کی اضافی خاصیت کے باعث ملا ۔ باقی تمام تر عوامل اور عناصر کے لحاظ سے انسانوں اور باقی مخلوق میں بہت کم فرق ہے۔ میں یکسر اس تصور کو رد کرتاہوں کہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ علم میں اضافہ ہوتاہے۔ جب ہم ادب کی دنیا میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہاں ہمیں دانشور ، ادیب اور شاعر ، مصنف نظر آتے ہیں۔ یہ تمام لوگ عقل کی سرحدوں کو عبور کرکے شعور ، لاشعور ، تحت الشعور اور تخیل کی دنیا میں کھوجاتے ہیں اور پھر اک نئی دنیا تخلیق کرتے ہیں۔ عقل کے ان اجزائے ترکیبی شعور، لاشعور، تحت الشعور اور تخیل کے بغیر ناتو دنیا میں کوئی ادب تخلیق ہوسکتاہے اور نہ ہی کوئی سانئس کی نئی ایجاد ۔

Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 114699 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More