خالق کائنات نے زندگی میں دوراہیں واضح
طور پر متعین کردی ہیں۔ صراطِ مستقیم کی پانچوں نمازوں میں طلب اس امر کا
ثبوت ہے کہ اس کے علاوہ بھی کوئی صراط ہے جسکی راہ پر چلنے والوں کے لیے رب
تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب ہے۔ جبکہ صراطِ مستقیم کے لیے اجر اور انعامات
کا وعدہ ہے۔ زندگی کی انہی راہوں کے درست تعین کیلئے کم و بیش ایک لاکھ
چوبیس ہزار انبیا ء کرام کو مختلف ادوار اور مختلف علاقوں میں مبعوث
فرمایاگیا۔ نبی آخر و زماں کے بعد بعثت نبوت کا سلسلہ بند ہوگیا۔ اور امتِ
محمدی ؐ کو یہ فریضہ سونپا گیا کہ وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہِ راست پر
لائیں ۔ یہ فریضہ صرف دین تک محدود نہیں بلکہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں اسکی
اپنی اہمیت ہے ۔ میرے نزدیک شعبہ تعلیم میں درست سمت کا تعین کرنے سے ہی
ایک شہری معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کرسکتاہے۔
استاد اور معلم کی ذات کی موجودگی میں نوجوان نسل کا بھٹکنا سمجھ سے بالا
تر ہے۔ ماہرین تعلیم ، بزرگان دین اور اعلیٰ مفکرین کی دورِ جدید میں اہمیت
اس حوالہ سے بھی بڑھ گئی ہے کہ انہوں نے نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں ،
رجحانات ، خواہشات اور دستیاب وسائل کے اندررہ کر روشن مستقبل کی طرف
رہنمائی کرنی ہے۔ دورِ جدید سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہونے کی وجہ سے ایک
پیچید ہ دور ہے۔ ہزار ہا راہیں کھلی ہیں ہزار ہا شعبے نئے ٹیلنٹ کو دعوت دے
رہے ہیں ۔ مگر ہمارے معاشرے کی رگوں میں صرف اور صرف ڈاکٹر اور انجینئر
بننے کا خون گردش کررہا ہے اور جوبھی ان دو شعبوں میں نہیں جاسکتا اسے ناکا
م تصور کیا جاتاہے۔مایوسی اور ابتری کی حالت میں ایسے طالب علم تعلیم کو
خیرآباد کہہ دیتے ہیں ۔وہ کاروبار یا آمدن کے اور ذرائع تلاش کرنے لگ جاتے
ہیں۔
درست رہنمائی اور مشاورت کے فقدان سے سینکڑوں نہیں لاکھوں نوجوانوں کے
مستقبل کے خواب بکھر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں مجھے ایک غیر حکومتی ادارہ HRDN
کی اسلام آباد میں تین روزہ سیمینار میں جانے کا اتفاق ہوا جسکا موضوع
Career Counselling تھا اور وہاں عابدی صاحب نے ایسے ایسے شعبے متعارف
کروائے جنکا میں نے نام تک نہیں سنا تھا ۔ انہوں نے ہمیں ترغیب دلائی کہ
عصرِ حاضر کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آپ بچوں کو مائیکرو بیالوجی ،
سیلولر بیالوجی ، بائیو ٹیکنالوجی ، مائیکرو سافٹ انجینئرنگ ، پلاسٹک سرجری
اور موبائل اور انٹرنیٹ کی ٹیکنالوجی کی طرف لائیں۔ ان شعبوں میں مستقبل کو
سنوارنے کے بہتر مواقع موجود ہیں۔ ان کی دی ہوئی لمبی فہرست کا یہاں تذکرہ
کرنا ممکن نہیں لیکن ایک بات تو عیاں ہے کہ بہتر مشاورت اور رہنمائی سے ہم
لاکھوں نوجوانوں کو بکھرنے سے بچا سکتے ہیں۔
یہاں پر نوجوانوں پر بھی ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی
محکمہ یاکا شعبہ کا انتخاب کرنے سے پہلے کسی مستند Career Counselling
Center پر جائیں اور اپنے بچے کی مکمل تشخیص کے بعد اسکے مستقبل کا فیصلہ
کریں ۔اورنہیں تو کم از کم تجربہ کار اساتذہ سے ضرور مشاورت کریں۔ بچوں کی
صلاحیتوں اور دستیاب وسائل کو نظرانداز کرکے صرف خواہشات کو ٹھونس دینے کے
کبھی بھی بہتر نتائج بر آمد نہیں ہوسکتے۔ میری ناقص رائے تو یہ ہے کہ بچے
کی ابتدائی تعلیم سے پہلے ہی اگر کچھ ایسے ٹیسٹ کر لیے جائیں جس سے اسکے
آئی قیو لیول اور اسکے رجحانات اور میلانات کا پتہ چل جائے تو ابتداء ہی سے
اسے ایسی سمت ڈال دینا چاہیے جہاں وہ اپنے آپ کو موزوں محسوس کریں۔
یہاں پر سب سے زیادہ ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے ۔ وہ اپنی متاع حیات
پر زبر دستی فیصلہ ٹھونسنے کی بجائے ان کو مشاورت کے عمل میں شامل کریں۔
والدین کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ Generation Gape بھی ایک اٹل حقیقت
ہے اور ان کے دور اور اب کے دور میں بہت بڑی تبدیلیاں رو نما ہوچکی ہیں ۔
دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے ۔ یہ انٹرنیٹ اور سائبر ٹیکنالوجی کا دورہے
۔ اپنے بچوں کی خواہشات کا احترام بھی کرنا چاہیے اور ان کے رجحانات اور
میلانات کو سامنے رکھناچاہیے۔ طالب علم ،والدین اور ایک اچھا کونسلر ہی
بہتر مستقبل کے انتخاب کے عمل میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مستقبل کے
آرٹسٹ ، سائنس دان ، پائلٹس اور مائیکروسافٹ انجینئرز صرف اور صرف مشاورت
اور رہنمائی کے فقدان کے سبب یاتو بے روزگاری کا شکار ہیں یاپھر صرف اور
صرف پرائمری ٹیچرز بن رہے ہیں۔ ہمیں وقت کے چیلنجز کو قبول کرتے ہوئے نئی
راہوں کیلئے طلباء اور طالبات کو میدان میں اتارنا چاہیے تب ہی ہم بہتر اور
جدید پاکستان کا تصور پیش کرسکتے ہیں۔ |